طاقتور قاتل اور کمزور قانون

August 22, 2013

کوئی مانے یا نہ مانے لیکن مجھے یقین ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو تیسری مرتبہ وزیر اعظم بننے کے لئے پاکستان واپس نہیں آئی تھیں۔ وہ صرف اور صرف موت کو گلے لگانے کے لئے واپس آئی تھیں۔موت سے کچھ دن پہلے ایک صبح انہوں نے اسلام آباد میں مجھے اکتوبر2007ء میں پاکستان واپسی پر کراچی میں ہونے والے حملے کی تفصیلات بتائیں۔ میں نے پوچھا کہ آپ کے جلوس پر حملہ کس نے کرایا؟ محترمہ نے کہا آپ بتائیں؟ میں خاموش رہا تو خود ہی بولیں مجھ پر حملہ حکومت وقت نے کرایا۔ میں نے پوچھاحکومت نے حملہ کیوں کرایا؟ محترمہ بینظیر بھٹو نے کہا کہ بظاہر ہم نے پرویز مشرف کے ساتھ این آر او کرلیا تھا لیکن وہ کسی بھی قیمت پر مجھے پاکستان واپسی سے روکنا چاہتا تھا، میں نے اس کی بات نہیں مانی میں واپس آچکی ہوں۔
3/نومبر کو آئین معطل کرکے وہ این آر او ختم کرچکا ہے، اب وہ کسی معاہدے کا پابند نہیں اس کا خیال ہے کہ بینظیر پاکستان سے واپس نہ گئی تو نواز شریف بھی واپس آجائے گا لہٰذا اب وہ مجھے راستے سے ہٹا سکتا ہے۔ اس کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو نے جو گفتگو کی وہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اور محترمہ کے قتل کی انکوائری کرنے والے اقوام متحدہ کے کمیشن کو بھی بتا چکا ہوں۔ محترمہ بینظیر بھٹو نے صرف مجھے نہیں بلکہ کچھ دیگر صحافیوں سے بھی کہا تھا کہ اگر انہیں قتل کردیا گیا تو ذمہ دار پرویز مشرف ہوگا۔ انہوں نے مارک سیگل کو ای میل لکھی اور کہا کہ اگر وہ قتل ہوگئیں توذمہ دار مشرف ہوگا۔ مارک سیگل سے کہا گیا کہ وہ یہ ای میل سی ا ین این کے سینئر صحافی وولف بلٹنرر کو بھجوادے۔ 27دسمبر2007ء کو محترمہ بینظیر بھٹو کو ان کے اندیشے کے عین مطابق قتل کردیا گیا اور اسی رات وولف بلٹنرر نے مارک سیگل کے نام محترمہ کی ای میل کو سی این این پر پڑھ کر سنادیا۔ یہ صرف پاکستان میں ہوسکتا ہے کہ ایک سابق وزیر اعظم نے اپنے قتل کا خود اعلان کردیا، قاتلوں کو نامزد بھی کردیا لیکن قاتلوں پر فرد جرم عائد ہونے میں پانچ سال آٹھ ماہ لگ گئے۔ یہ بھی صرف پاکستان میں ہوسکتا ہے کہ محترمہ بینظیر بھٹو کی موت کے بعد ان کی پارٹی پانچ سال تک اقتدار میں رہی۔ان کے قتل کی تفتیش کے لئے اقوام متحدہ کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کی رپورٹ منظر عام پر آگئی لیکن پیپلز پارٹی کی حکومت نے نامزد ملزمان کے خلاف معذرت خواہانہ رویہ اختیار کئے رکھا۔ وجہ بڑی واضح تھی، پیپلز پارٹی کی حکومت جانتی تھی کہ جنرل پرویز مشرف اور دیگر ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی تو کچھ ایسی شخصیات کو بھی شامل تفتیش کرنا پڑے گا جن کا تعلق طاقتور خفیہ اداروں سے رہا ہے اور پیپلز پارٹی کی حکومت ا ن خفیہ اداروں سے محاذ آرائی نہیں چاہتی تھی۔
20اگست 2013ء کو انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت میں جن سات افراد پر بینظیر قتل کیس میں فرد جرم عائد کی گئی ہے ان میں سابق صدر پرویز مشرف کے علاوہ راولپنڈی کے سابق سی سی پی اوسعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد بھی شامل ہیں۔ ان دو پولیس افسران کا ذکر اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کی رپورٹ میں بھی ہے۔ اس انکوائری رپورٹ کے مطابق محترمہ بینظیر بھٹو کا جسد خاکی پانچ گھنٹے تک ہاسپٹل میں موجود رہا اور تین بار ڈاکٹر مصدق نے سعود عزیز سے محترمہ کے پوسٹ مارٹم کی اجازت طلب کی تینوں مرتبہ سعود عزیز نے انکار کردیا۔سعود عزیز کا موقف تھا کہ ایف آئی آر درج نہیں ہوئی۔ سعود عزیز نے اقوام متحدہ کے انکوائری کمیشن کو بتایا کہ وہ پوسٹ مارٹم کے لئے آصف علی زرداری کی اجازت کا انتظار کررہے تھے لیکن کمیشن نے اس وجہ کو مسترد کرتے ہوئے لکھا کہ محترمہ کا سینہ پہلے ہی آپریٹ ہوچکا تھاان کا مکمل پوسٹ مارٹم ضروری تھا۔ 27 دسمبر کی رات10بجکر 35منٹ پر محترمہ کی میت کو تابوت میں ڈال کر چکلالہ ائیر بیس روانہ کردیا گیا جبکہ آصف علی زرداری نے رات ایک بجکر دس منٹ پر میت وصول کی ، اگر پولیس قانون کے مطابق چلتی تو میت کو ہاسپٹل سے چکلالہ ائر بیس نہ بھجوایا جاتا۔ کمیشن نے واضح طور پر لکھا کہ سعود عزیز اعلیٰ فوجی حکام سے ہدایات لے رہے تھے۔ وقوعہ کی شام سوا پانچ بجے پیش آیا اور جائے وقوعہ کو ساڑھے چھ بجے دھودیا گیا۔ کمیشن نے لکھا ہے کہ سعود عزیزکو جائے وقوعہ دھونے کا حکم اس وقت کے ڈی جی ملٹری انٹیلی جنس میجر جنرل ندیم اعجاز نے دیا تھا۔ سعود عزیز نے ایس پی خرم شہزاد کے ذریعہ میجر جنرل ندیم اعجاز کے حکم پر عملدرآمد کرایا۔ ندیم اعجاز کو یہ حکم کس نے دیا؟
یہ وہ سوال ہے جس کا جواب بہت اہم ہے تاہم پرویز مشرف نے فرد جرم میں عائد تمام الزمات سے انکار کردیا ہے۔ ان کی انکار کی کوئی قانونی ا ہمیت نہیں ہے۔ اصل اہمیت مقتولہ کے اپنے بیان اور و اقعاتی شہادتوں کی ہے۔یہ مقدمہ اتنا پیچیدہ نہیں تھا لیکن پولیس اور تفتیشی اداروں پر سیاسی دباؤ ڈالا گیا جس کے باعث تفتیش جمود کا شکار ہوگئی۔ فرد جرم عائد ہونے کے بعد مقدمے کی سماعت میں مشرف کے کچھ پرانے ساتھی فوجی افسران کو بھی طلب کیا جاسکتا ہے۔ حکومت اور فوجی قیادت کو چاہئے کہ وہ مل کر عدالت کی مدد کرے کسی سابق فوجی افسر کی عدالت میں طلبی کو پورے ادارے کی توہین خیال نہ کیا جائے بلکہ قانون کے احترام سے ادارے کے وقار میں اضافہ ہوگا۔ یہ مت کہا جائے کہ ایک طرف ہم دہشت گردوں سے لڑرہے ہیں دوسری طرف ہمیں عدالتوں میں گھسیٹا جارہا ہے۔ یہ دیکھا جائے کہ اگر محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کا منصوبہ بنانے والوں اور منصوبہ پر عملدرآمدکرنے والوں پر الزامات ثابت ہوگئے اور انہیں سزائیں مل گئیں تو پاکستان کو کتنا فائدہ ہوگا۔
پاکستان کے مفاد میں کچھ ا فراد کی انا اور ضد کو قربان کرنا مہنگا سودا نہیں جو کام پیپلز پارٹی کی حکومت کو کرنا چاہئے تھا اگر وہ مسلم لیگ(ن)کی حکومت کردے تو سب کا فائدہ ہے لیکن اس کے لئے سیاسی قوت فیصلہ کی ضرورت ہے۔وزیر اعظم نواز شریف کو چاہئے کہ بینظیر قتل کی سماعت کرنے والے جج اور تفتیشی افسران کو ان کے اہل خانہ سمیت سیکورٹی فراہم کریں پھر دیکھیں کیا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ پرویز مشرف براہ راست محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل کے منصوبے میں شامل نہ ہوں لیکن یہ بات طے ہے کہ وہ 27دسمبر 2007ء کو لیاقت باغ میں محترمہ پر حملے کے خطرے سے آگاہ تھے لیکن بدقسمتی سے اس دن لیاقت باغ میں سیکورٹی کے مناسب انتظامات نہ تھے۔ کہیں نہ کہیں کوئی نہ کوئی سازش یا نااہلی کا مرتکب ضرور ہوا۔ کیا یہ محض ایک ا تفاق ہے کہ2006ء میں نواب اکبر بگٹی کے قتل میں بھی میجر جنرل ندیم اعجاز کا نام آیا اور2007ء میں محترمہ بینظیر بھٹو کے قتل میں بھی ان کا نام آیا؟ انہوں نے کبھی اپنے متعلق اٹھائے گئے سوالات کا سنجیدہ جواب دینے کی کوشش نہیں کی بلکہ سوالات اٹھانے والوں کو چپ کرانے کی کوشش کرتے رہے۔ وہ کوئی جواب دینا چاہیں تو سو بسم اللہ ،موجودہ حکومت میں ان کے تعلقات کا مجھے اندازہ ہے لیکن میرا مسئلہ نہ ان کی ذات ہے نہ یہ حکومت ہے نہ مشرف بلکہ میرا مسئلہ صرف پاکستان ہے۔ پاکستان کا مفاد یہ ہے کہ نواب اکبر بگٹی اور محترمہ بینظیر بھٹو کے مقدمہ قتل کو انجام تک پہنچایا جائے۔ بلوچستان میں مسلم لیگ ق کو حکومت میں ضرورشامل کیا جائے لیکن اقتدار کی سیاست کے پردے میں نواب اکبر بگٹی کے نامزد قاتلوں کو تحفظ نہ دیا جائے۔