زندگی بڑھانے کے جتن

September 11, 2013

بیس سال کے اندر اندر یورپ میں سو سال کی عمر تک جینا عام بات ہوگی۔ یہ میں نہیں کہہ رہا سائنس دان کہہ رہے ہیں۔ کیلیفورنیا کی اسٹینفورڈ یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات بھارتی نژاد ڈاکٹر شرد پاتلجاپور کے مطابق اوسط عمر میں اضافہ جو علاج اور بیماری کی روک تھام کے شعبوں میں ترقی کی وجہ سے ہورہا ہے اس دنیا اور دنیا میں رہنے والوں کی زندگی کو بدل دے گا۔ اس کے ساتھ گہری سماجی اور سیاسی تبدیلیاں آئیں گی جن میں بوڑھوں کی تعداد میں ایک بہت بڑا اضافہ بھی شامل ہے۔ ایک نتیجہ یہ ہوسکتا ہے کہ ریٹائرمنٹ یا پنشن کی عمر بڑھا کر 85سال کردی جائے دوسرا اولڈ پیلز ہوم (جن کو ہالینڈ میں گیسٹ ہاؤس کہتے ہیں) کی تعداد بڑھا دی جائے۔ یہ سب کچھ 2018ء کے بعد شروع ہونے کی توقع ہے جب انسانی زندگی اتنی تیزی سے بڑھنی شروع ہو گی کہ ساٹھ ستر برس میں بیمار پڑنے والوں کو مذاق کا نشانہ بنایا جائے گا۔ ڈاکٹر تلجاپورکی تحقیق کے مطابق یہ عمل جس میں تیزی جاری رہے گی 2040ء تک کا ہوسکتا ہے۔ اس دور وسط زندگی میں 20 سے 25 سال کا اضافہ ہوسکتا ہے اور اس کے نتیجے میں مغربی ممالک میں اوسط زندگی 80 سے 100 سال تک پہنچ جائے گی۔
انسان نے تقریباً ساری دنیا کھنگال ڈالی ہے، بے شمار خفیہ گرم سرد اور مختلف نمکیات سے پر چشمے بھی مل گئے ہیں لیکن ”جوانی کا چشمہ“ اور آب حیات نہیں مل سکا۔ علم و تحقیق کے مطابق بڑھاپے یا عمر میں اضافہ کا سلسلہ پیدائش کے دن ہی سے شروع ہوجاتا ہے۔ بچے کا بڑا ہو کر بالغ ہونا پھر بڑھاپے میں قدم رکھنا جس کے بعد اضافہ عمر کے سبب انسان کی کارکردگی گھٹنے لگتی ہے جو بالآخر موت پر ختم ہوجاتی ہے گویا عمر میں اضافے بڑھاپے کا انجام موت ہوتا ہے۔ بڑھاپے کا آغاز کب سے ہوتا ہے؟ آدمی کب بوڑھا ہوتا ہے؟ جسم میں تبدیلی کیوں واقع ہوتی ہے؟ بڑھاپے کے حوالے سے یہ اہم سوالات ہیں جن کے جوابات یقیناً قارئین کے علم میں اضافے کا ذریعہ بنیں گے۔
میرے حساب سے سائنس جسم میں آنے والی تبدیلیوں اور موت کے بارے میں معلومات ضرور فراہم کرتی ہے لیکن دو سوالوں کے جواب دینے سے فی الحال قاصر ہے (جس کی تگ و دو میں وہ برابر مصروف ہے) پہلا سوال یہ کہ کیا اضافہ عمر اور موت کا کوئی مقصد ہوتا ہے اور اگر ہے تو وہ مقصد کیا ہے؟ یہی وجہ ہے کہ طویل عمری یا طول شباب کی تلاش میں انسان صدیوں سے سرگرداں ہے۔ ”آب حیات“ ، ”چشمہ شباب“ ، ”امرت “ وغیرہ وغیرہ اس کے ثبوت ہیں۔ سکندر اعظم سے بھی پہلے کے لوگ یقیناً اس کی آرزو اور تلاش میں مارے مارے پھرتے رہے۔ سکندر اور خضر کا واقعہ صدیوں سے مشہور چلا آرہا ہے۔ چشمہ شباب کی تلاش اور اس کا پانی پینے کا مقصد صرف یہی تھا کہ انسان ہمیشہ جوان توانا و صحت مند رہے اور لمبی عمر پائے۔ تلاش کا یہ سلسلہ آج بھی جاری و ساری ہے۔ محققین اور سائنس دان بڑھاپے کے عمل کو کنٹرول یا سست کرنے، اسے جوانی میں تبدیل کرنے اور موت کو شکست دینے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اس تلاش کے سلسلے میں گزشتہ صدی میں کچھ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں جن کے نتیجے میں یورپ اور امریکہ میں عمر کے اوسط میں نمایاں اضافہ ہوا ہے، لوگ اب محسوس کرتے ہیں کہ بڑھاپے میں حیرت انگیز حد تک تبدیلی آچکی ہے۔ ایک تو بچپن کی شرح اموات میں نمایاں طور پر کمی واقع ہوچکی ہے۔ دوسرے امراض اور معذوری کی شرح میں بھی بے حد کمی آچکی ہے کہ صحت و صفائی ، علاج معالجہ اور غذا کی بہتری نے نمایاں اور اہم کردار ادا کیا ہے۔ آج یہ امر حقیقت ہے کہ سائنس دانوں نے انسان کو کم از کم 100سال تک زندہ رہنے کی نوید دے دی ہے لیکن اس کے باوجود جوانی کا مطلوبہ چشمہ نہیں مل سکا۔ کہتے ہیں کہ ہمارے برصغیر میں امرت کی تلاش میں کبھی یہ تصور لیا گیا تھا کہ آملے کے درخت پر چڑھ کر اس کے پکے پھلوں کو کھانے سے عمر بڑھتی ہے۔ آیوویدرک کی کتابوں میں ایسے طریقے پر عمل بھی درج ہیں جن کے نتیجے میں جسم کے پرانے اور بوسیدہ حصے الگ ہو کر نئے خلیات پر مشتمل حسین بدن جنم لیتا ہے لیکن بدقسمتی سے کتابوں میں اس کے صرف تذکرے ملتے ہیں اصل نسخہ ”تجزیہ شباب“ وہاں بھی ناپید ہے۔ اہل تلاش و تحقیق نے البتہ ایسی تدبیر کی نشاندہی ضرور کی ہے جس کے ذریعے اچھی صحت مند اور قدرے طویل عمر حاصل کی جاسکتی ہے۔ ایک تدبیر ورزش ، دوسری خاص قسم کی غذائیں اور تیسری غذا میں حراروں کی تعداد یا مقدار میں کمی ہے۔ ورزش نہ کرنے والوں کے مقابلے میں باقاعدگی سے ورزش کرنے والے اچھی صحت اور اس کے فوائد سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ کم روغنی غذا اور زیادہ سبزیاں اور پھل کھانے والے زیادہ نشاستہ اور چکنائیاں کھانے والوں کی نسبت زیادہ صحت مند اور توانا رہتے ہیں۔ اسی طرح غذا میں کم حراروں کی وجہ سے جسم کے خلیات زیادہ چست اور توانا رہتے ہیں اس سے مطلب حراروں میں خطرناک حد تک کمی نہیں ہے صرف کم خوراکی ہے یعنی پیٹ کا ایک چوتھائی حصہ خالی رہے اور غذا میں بھی حرارے کم رہیں۔ ان تین اہداف کے حاصل کرنے کے لئے اکثر لوگوں کو اپنے رہن سہن یا طرز حیات میں تبدیلی لانی ہوگی، یقیناً انہیں صحت مندانہ اور توانا دیکھ کر دوسروں کو بڑھاپے کی رفتار سست کرنے کی تحریک ملے گی اس سلسلے میں اگرچہ قارئین بہت کچھ لکھ چکے ہیں لیکن تکرار کا مقصد انہیں ان کی نوعیت اور صحت و توانائی کے برقرار رکھنے میں ان کی اہمیت بتانا ہے۔
یہاں مشرق کے قدیم تجربات کا ذکر بھی مناسب ہوگا جن کے مطابق یوگا، تائی چی اوران جیسی نہایت کار آمد ورزشیں عمر بڑھاتی ہیں۔ ان ورزشوں کی بنیاد ان نظریات پر ہے کہ صحت دراصل جسمانی ، جذباتی، ذہنی اور روحانی توازن کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ ان میں ورزشوں کے علاوہ جسم کی حالت آرام میں لانے کے طریقوں کے علاوہ سانس لینے کی ورزشیں، غذا اور مراقبہ بھی شامل ہے۔ ایک ماہر یوگی بہت طویل عمر تک بغیر کوئی تکلیف محسوس کئے اپنی سانس روک سکتا ہے اپنے دل کی دھڑکنوں کے مدوجذر پر قابو حاصل کرسکتا ہے۔ گرمی اور سردی کی شدتوں کو برداشت کرسکتا ہے اور فاقہ کشی کے باوجود تندرست رہ سکتا ہے۔ یہ یوگی لوگ اپنی صلاحیتوں کے پورے استعمال کے ساتھ اکثر بہت طویل عمریں پاتے ہیں اور یہ یوگی کیا ہوتا ہے؟ نہیں سمجھتے تو کسی سمجھدار سے پوچھ لیں۔