بھگت سنگھ زمین پر نہ مٹنے والااجالا چھوڑ گیا

September 25, 2013

تاریخ کا ایک مزاج یہ بھی ہے کہ وہ صرف عمومی واقعات کو قلمبند کرتی ہے جبکہ تاریخ کے نیچے ایک اور تاریخ دبی ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ کچھ لوگ کتابوں سے سچائی سیکھتے ہیں اور کچھ لوگ حقائق سے۔ میرے حساب سے استعمار، سامراج اور غلامی کے خلاف جدوجہد بھول کے خلاف یاد کی جدوجہد ہے۔ میں اسے پاک و ہند کی بدقسمتی ہی کہوں گا کہ یہاں 28؍ستمبر جیسے اہم دن جس دن بھگت سنگھ کی ولادت ہوئی اور 23؍مارچ جس دن وہ سوئے دار روانہ ہوا، کو بھلا دیا گیا ہے اور شاید بہت سے لوگوں کو اس بات کا احساس ہی نہیں کہ یہ دن کتنا اہم ہے اور اسے باقاعدہ ایک قومی دن ’’یوم شہید‘‘ کے طور پر منایا جانا چاہئے۔ شاید بہت سے پاکستانی یہ نہیں جانتے کہ پنجاب کے ہیرو اور سپوت نشان حیدر پانے والے راجہ عزیز بھٹی نے اپنے ایک مضمون میں بھگت سنگھ کو اپنا ہیرو قرار دیا ہے۔
بھگت سنگھ حقیقت میں برصغیر کی تاریخ کی ایک زندہ جاوید سچائی اور حقیقت ہے وہ ایک ایسی سچائی ہے جس پر متھ (MYTH) کا گماں ہوتا ہے اس کے سامنے ایک آزاد ملک، جاگیردارانہ سماج کے خلاف جدوجہد، انگریزی راج کا خاتمہ، معاشرے کا مذہبی اور زمینی جمود کے خلاف عمل، سیکولر معاشرہ اور مساوات پر مبنی ایک ترقی یافتہ سماج کا خواب رہا ہے۔ اپنی تنظیم کا نام ’’سوشلسٹ ری پبلک آرمی‘‘ رکھنے والا یہ بائیں بازو کا نمائندہ خود کو مزدور و کسان جیسے پیداواری طبقوں کے ساتھ جوڑنے والا انسان، آنے والی نسلوں کے لئے ترقی پسند تحریک کی تخلیق کرتا رہا یہاں تک کہ اس کی موت بھی دوسروں کو قربانی کی تحریک و ترغیب دیتی ہے۔
بھگت سنگھ کا گائوں66گ ب بنگا (جڑانوالہ) ضلع لائلپور جہاں وہ پیدا ہوا اور پرائمری تک وہیں تعلیم حاصل کی۔ اس کے والد کشن سنگھ اور چاچا اجیت سنگھ کا تعلق غدرپارٹی سے تھا۔ بھگت سنگھ کے تین بھائی کلبیر سنگھ، کامتار سنگھ (تیسرے کا نام میں بھول رہا ہوں) تھے، بھگت سنگھ کا ایک ساتھی سحر گل خان کا گائوں جڑانوالہ کے قریب 238گ ب میں تھا، کا کہنا ہے کہ بھگت سنگھ، سکھ دیو اور راج گرو کی نعشوں کو جب چتا میں رکھ کر آگ لگائی گئی تو آگ نے لاش کو قبول نہ کیا، تین بار یہ عمل دھرایا گیا۔ ایک چشم دید مسلمان انسپکٹر پولیس کا بیان ہے کہ بعدازاں رات کے اندھیرے میں ان تینوں کی نعشیں ٹکڑے کرکے دریا ستلج کے کنارے حسینی والا کے مقام پر دریا میں بہا دی گئی تھیں، بقول انسپکٹر اس دن پنجاب میں کسی بھی گھر چولہا نہیں جلا تھا۔ بھگت سنگھ کی شہادت پر مہاتما گاندھی نے ایک جلسہ عام میں خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے کہا ’’بھگت سنگھ اپنے وطن کی حفاظت، غلامی سے نجات اور ظلم کا ڈٹ کر مقابلہ کرنے کے لئے عدم تشدد کے بجائے تشدد کا راستہ اختیار کرنے پر مجبور کردیا گیا اس نے موت سے خوف پر فتح پائی اور کامران ہوا۔ سارا ہندوستان اس کی جرأت و بہادری پر سلام پیش کرتا ہے‘‘۔ جنگ آزادی کے دوران بڑے بڑے قائدین بشمول، مہاتما گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو، قائد اعظم محمد علی جناح کا مزاج مصالحت پسند رہا صرف بھگت سنگھ نے اپنی زندگی کے آخری دن کے آخری سانس تک مصالحت سے کام نہ لیا۔ کہتے ہیں گاندھی جی پر بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کا خوف طاری تھا۔ جس کی وجہ سے مکمل آزادی کا نعرہ لگایا تھا برطانوی محکمہ خفیہ پولیس کی رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ بھگت سنگھ، مہاتما گاندھی سے زیادہ مقبولیت رکھتے تھے۔ حب الوطنی کے حوالے سے بھگت سنگھ کے علیحدہ اصول تھے، بھگت سنگھ نے صرف 18؍سال کی عمر میں چھ زبانوں پر ماہرانہ دسترس حاصل کرلی تھی وہ اپنے دور کے ذہین ترین سطح کے لیڈر تھے۔ انہوں نے قومی مفاد کو ہمیشہ ذاتی مفاد پر ترجیح دی اور عام آدمی کے اختیارات کی وکالت کی، انہوں نے انگریز کی چالبازیوں کو دیکھتے ہوئے حکومت کے جبر کے خلاف ہتھیار اٹھانے کی کھل کر حمایت کی۔ بھگت سنگھ جہاں غریبوں کے حامی اور انقلابی تھے وہاں وہ انسانی زندگی سے بھی انتہائی محبت کرتے تھے، انہیں اپنے انقلابی اقدامات پر فخر و ناز تھا۔ دہلی سینٹرل ایڈمنسٹریشن کی بلڈنگ پر بم سے حملہ کرنے کے بعد بھگت سنگھ نے ہتھیار کے ساتھ خود کو پولیس کے حوالے کردیا اور پھر جیل میں حکام کے رویہ کے خلاف 18؍دن تک بھوک ہڑتال کی۔ بہت کم لوگوں کو اس بات کاعلم ہوگا کہ بھگت سنگھ اور سکھ دیو فلمیں دیکھنے کے بہت شوقین تھے۔ نوعمری میں یہ دونوں بھوکے رہ کر بھی فلمیں ضرور دیکھتے تھے پھر جب بھید کھلنے پر چندر شیکھر آزاد سے ڈانٹ کھانا بھی ان کا شیوہ تھا۔ یہ لوگ چارلی چپلن سے بہت متاثر تھے اور اس کی خاموش فلمیں شوق سے دیکھتے تھے۔ میری معلومات کے مطابق اب تک بھارتی فلم انڈسٹری بھگت سنگھ کے انقلابی کردار و کہانی پر گیارہ فلمیں بنا چکی ہے جس میں راجکمار سنتوشی کی ہدایت میں بننے والی فلم کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے اس فلم میں مہاتما گاندھی کے کردار کو متنازع دکھایا گیا ہے جس پر گاندھی جی کے خاندان کے افراد نے شدید اعتراض بھی کیا تھا۔ گاندھی کے پڑپوتے توشار گاندھی نے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ڈائریکٹر راج کمار سنتوشی نے بھگت سنگھ کے کردار کو بلند کرنے کے لئے گاندھی کی غلط تصویر پیش کی ہے انہوں نے کہاکہ بھگت سنگھ نے حصول آزادی کے لئے ہتھیار اٹھانے کا طریقہ اختیار کیا جبکہ مہاتما گاندھی امن کے علمبردار تھے۔ دونوں کی راہیں جدا تھیں لیکن ان کا مقصد ایک تھا اور دونوں کو ایک دوسرے سے تعاون کے سوا کوئی چارہ کار نہیں تھا۔ بھگت سنگھ کا’’جرم‘‘ یہ تھا کہ اس نے دیس کی آزادی کے لئے تحریر و تقریر سے لے کر قدمے سخنے دامے درمے سے کام لیا۔ انگریزوں نے بھگت سنگھ اور اس کے دو ساتھیوں سکھ دیو اور راج گرو کے خلاف سانڈاز نامی ایک پویس افسر کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے جرم میں مقدمہ چلایا اور یہ تینوں ’’قصوروار‘‘ ٹھہرائے گئے جس پر 23؍مارچ 1931ء کو لاہور سینٹرل جیل میں ان تینوں انقلابیوں کو برطانوی حکومت نے تختہ دار پر لٹکادیا جبکہ سارے ہندوستان میں اس واقعے سے سنسنی پھیل گئی اور آزادی کی منزل قریب سے قریب تر آگئی تھی۔
اب آخر میں یہ ایک اہم ترین بات جو میں حکومت پنجاب کے ارباب اختیار اور بالخصوص خادم پنجاب اور وزیر اعلیٰ جناب میاں شہباز شریف سے کہنا چاہتا ہوں۔ بھگت سنگھ کا مکان جہاں وہ پیدا ہوئے تھے اور وہ اسکول جہاں انہوں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی تھی انہیں تاریخی مقامات میں تبدیل کیا جائے کہ وہ دونوں عمارتیں (مکان اور اسکول) انتہائی خستہ حالت میں ہیں یہ اسکول بھگت سنگھ کے دادا ارجن سنگھ نے قائم کیا تھا اس مکان اور اسکول کی تعمیر و مرمت اور تزئین نو کے بعد اسے عالمی ورثہ کے ایک مقام میں تبدیل کیا جانا چاہئے کہ جس طرح وقت کے ساتھ ایک برا وقت ہوتا ہے ویسے ہی تاریخ کے نیچے ایک تاریخ دبی ہوتی ہے۔