پُر خطر پیدل سفر اور مددِ الٰہی

May 22, 2022

مرتب: محمّدہ مایوں ظفر

1984ء میں میرے ایک عزیز کے ساتھ پیش آنے والے اس واقعے میں بے لوث و بے غرض مدد کا جذبہ پنہاں ہے کہ ایک اندھیری، پُرخطر رات میں اللہ تعالیٰنے کس طرح اُن کی مدد کی۔ لیجیے، خود اُن ہی کی زبانیسُنیے۔

’’یہ اُن دنوں کی بات ہے، جب میںبے روزگاری کا عذاب جھیل رہا تھا، مختلف محکموں میں نوکری کے لیے درخواستیں ارسال کرچکا تھا، لیکن کہیںسے کوئی مثبت جواب موصول نہیںہورہا تھا۔ روزی، روزگار نہ ہونے کی وجہ سے گھر کے معاشی حالات بہت خراب تھے، ایسے میں میرے خالہ زاد بھائی نے اپنے ایک دوست، شاہ صاحب سے میری ملازمت کے حوالے سے بات کی۔ شاہ صاحب محکمۂ انہار میں ای ڈی او تھے، انہوںنے اپنے اثر و رسوخ سے پاور ہائوس میں مجھے جزووقتی ملازمت دلوادی۔

ملازمت ملی تو سکون کے کچھ لمحات میسّر آئے اور دھیرے دھیرے گھر کے حالات بھی کچھ بہتر ہونا شروع ہوگئے۔ تاہم، ملازمت پکّی نہ ہونے کی وجہ سے ہر وقت یہ فکر دامن گیر رہتی کہ نہ جانے کب ملازمت سے برخاست کردیا جائے، لہٰذا اس ملازمت کے ساتھ دیگر اداروں میں بھی نوکری کے لیے کوششیں جاری رکھیں۔ ایک روز لاہور ائرپورٹ سے انٹرویو کی کال آئی اور دوسرے روز سہ پہر کو پہنچنے کی ہدایت کی گئی۔ دوسرے دن صبح ہی صبح پہلے آفس گیا اور پھر وہاں سے جلدی جلدی جلدکام نمٹا کر لاہور ائرپورٹ کے لیے روانہ ہوگیا۔ اُن دنوں ہم لائل پور (موجودہ فیصل آباد) کے ایک گائوں باوے والا میں رہتے تھے۔

مَیںنے سوچا کہ انٹرویو دے کر سرِشام ہی گھر کے لیے روانہ ہوجائوںگا اور رات ہوتے ہوتے گھر پہنچ کر دوسری صبح آفس بھی چلا جائوںگا، لیکن انٹرویو سے فارغ ہوا، تو خاصی دیر ہوچکی تھی، کچھ دیر بس کا انتظار کرتا رہا، مگر پتا چلا کہ لاہور ائرپورٹ سے اس وقت کوئی بس لائل پور نہیںجائے گی، سوچا کہ اگر فوری طورپر کوئی سواری نہ ملی تو گھر پہنچنا مشکل ہوجائے گا اور دوسری صبح آفس بھی نہ جاسکوں گا۔ وہاںسے گائوں کا فاصلہ تقریباً دس کلو میٹر تھا، لہٰذا پیدل ہی گھر جانے کا فیصلہ کرلیا۔

گرمیوں کے دن تھے، رات کی سیاہی پھیلتی جارہی تھی اور میں لائل پور شہر سے 10کلومیٹر دور نہر رکھ برانچ کی پٹری پر جنگل کے ساتھ ساتھ ذکرِ الٰہی میں محو تیزی سے قدم بڑھاتا گھر کی جانب گام زن تھا۔ رات کی تنہائی، جنگل کے اس پُرہیبت ماحول میں دُور دُور تک کوئی آدم تھا، نہ آدم زاد۔ مہیب سنّاٹے میں ذرا سی آہٹ پر خوف کے مارے دل کی دھڑکن تیز ہوجاتی۔ یوں بھی چاروں طرف خطرات منڈلا رہے تھے۔ دائیں طرف نہر سے کسی سانپ کے نکلنے کا ڈر، بائیں جانب سے جنگلی جانوروں کے آدھمکنے کا خوف اور سامنے یا عقب سے کسی ڈاکو کے حملے کا سوچ کراوسان خطا ہورہے تھے۔ نہر کے آس پاس لُوٹ مار کی وارداتیں عام تھیں۔

اسی ڈر و خوف کے عالم میں کسی نہ کسی طرح تقریباً آدھا سفر ہوگیا، لیکن گائوں اب بھی کئی کلو میٹر دُور تھا۔ مسلسل پیدل چلنے سے پائوں بھی شل ہوچکے تھے۔ اسی حالتِ اضطرار میں بے ساختہ زبان پر قرآنِ کریم کی یہ آیت جاری ہوگئی۔ ترجمہ:’’کون ہے جو مضطر (مجبور و بےبس) کی فریاد سُنتا اور اُس کی داد رسی کرتاہے۔ جب وہ اُسے پکارے۔ اور اُس کی تنگی (بے بسی) کو دُور کرتا ہے،اور تمہیں زمین میں اپنا جاں نشین بناتا ہے، کیا اللہ کے سوا کوئی اور معبود بھی ہے، اور تم بہت ہی کم اپنے رب کو یاد کرتے ہو۔‘‘ (سورۃ النمل)۔ اس آیت سے دل کو کچھ قرار آیا، تو بے ساختہ اپنے رب کو پُکارا…’’اے اللہ! اس پُرخطر سفر میں میری مشکل آسان فرما۔

میرے لیے کوئی سواری بھیج دے۔‘‘ بظاہر اُس وقت دُور دُور تک کسی سواری کا نام و نشان تک نہ تھا، نہ ہی اس جنگل بیاباں میں کسی کے آنے کی اُمید تھی، لیکن پتا نہیں کیوں، اِک یقین سا تھا کہ اللہ میری دُعا ضرور قبول فرمائے گا۔ میرے اچھے ظن کے مطابق وہ کسی نہ کسی کو میری مدد کے لیے ضرور بھیجے گا۔ لیکن دل سے نکلی دُعا اتنی جلدی قبول ہوجائے گی، مجھے اس کا اندازہ نہیں تھا۔ کیوں کہ اُسی لمحے اچانک عقب سے کسی گاڑی کی تیز روشنی محسوس ہوئی۔ فوراً مڑکر دیکھا، تو وہ گاڑی بالکل قریب آچکی تھی، میںسہم کر وہیں رُک گیا۔

اُسی لمحے گاڑی کا شیشہ اوپر اٹھا اور ایک جانے پہچانے شخص کی آواز میرے کانوں سے ٹکرائی، تو یک دَم منہ سے ’’اللہ اکبرکبیرا‘‘ نکلا کہ سمیع و بصیر نے میری التجا سُن لی تھی۔ گاڑی میں اگلی نشست پرمحکمۂ انہار کے افسر اور میرے ہم درد و واقف کار، شاہ صاحب بیٹھے تھے۔ اُنھیں دیکھ کر خوش گوار حیرت ہوئی۔ وہ بھی مجھے اس پُرخطر جنگل میں اکیلا دیکھ کر حیران رہ گئے، ’’اکرام صاحب! رات کے اس وقت، اس جگہ کیسے اورکیوںکر آنا ہوا، آئیے، ہمارے ساتھ گاڑی میں بیٹھیں، ہم آپ کو آپ کی رہائش تک پہنچا دیتےہیں۔‘‘

اس ڈرائونے، پُرخطر ماحول میں کسی سواری کا آدھی رات کی تنہائی میں اچانک یوں مل جانا، کسی کرامت سے کم نہ تھا۔ میں اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرتا فوراً آگے بڑھا، دروازہ کھولا اور گاڑی میں سوار ہوگیا۔ پھر بیٹھے ہی سوال کیا کہ’’شاہ صاحب! آپ اس وقت یہاں کیسے؟‘‘ تو انھوں نے بتایا کہ ’’مَیں سرکاری کام کے سلسلے میں لاہور گیا تھا، اتفاق سے وہاں دیر ہوگئی۔آپ بتائیں، آپ یہاں اس پُرخطر اندھیری رات میں کیا کررہے تھے؟‘‘میںنے اُن کی طرف ممنونیت سے دیکھتے ہوئے کہا ’’شاہ صاحب! میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہوا، میں ایک انٹرویو کے سلسلے میں لاہور ائرپورٹ گیا تھا۔ واپسی پر دیر ہوگئی اور کوئی سواری نہ ملی تو پیدل ہی گھر جانے کا فیصلہ کرکے چل پڑا، کیوں کہ صبح ڈیوٹی پر جانا ہے۔

اصل میں اللہ تعالیٰ کوآپ کی معرفت میری مدد کرنی تھی۔‘‘ یہ وہی شاہ صاحب تھے، جو میرے خالہ زاد کے دوست تھے اور انہی کی معرفت میں پاور ہائوس میں ملازم ہوا تھا۔ آج اُن ہی شاہ صاحب نے دوسری مرتبہ مجھ پر احسان کیا تھا۔ خیر، باتوں باتوں میں سفر اختتام پذیر ہوا اور انہوں نے مجھے میرے گائوں کے قریب اتار دیا۔ گھر پہنچا تو اہلِ خانہ شدّت سے میری راہ تک رہے تھے، مجھے دیکھتے ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی۔ مَیں نے تفصیل سے پوری رُوداد اُن کےگوش گزار کی، تو سب حیران رہ گئے اور میرے خیر و عافیت سے گھر پہنچنے پر اللہ رب العزت کا بے حد شُکر ادا کیا۔ بے شک، جو دوسروں کی مدد کرتا ہے،اللہ تبارک و تعالیٰ بھی اُس کی مدد کرتا ہے۔ یادش بخیر، مَیں اکثر اپنے گائوں کی نہر کنارے کھڑے کئی معذور و مجبور افراد کو اپنی سائیکل پر بٹھا کر انہیں اُن کے گھر پہنچایا کرتا تھا۔ بے شک، نیکیوں کا اجر یونہی ملا کرتا ہے۔ (شوکت محمود،گلشن ِراوی، ملتان روڈ، لاہور)