پارس سے فارس تک ...

May 22, 2022

ایم۔ بی۔ تبسّم

پاکستان کے معرضِ وجود میں آنے کے بعد 1960ء تک کراچی، پاکستان کا دارالحکومت رہا۔ اُس زمانے میں شہر کی گلیاں کشادہ، سڑکیں صاف ستھری اور آبادی انتہائی کم ہوا کرتی تھی۔ شہر کے نواحی علاقے، کورنگی کی طرف جاتے ہوئے سڑک کے دائیں جانب ایک پہاڑی چوٹی دُور ہی سے نظر آتی تھی، اُس چوٹی پر پرانے طرزکا ایک ہی مکان تھا، جو ’’ہنی مون لاج‘‘ کے نام سے مشہور اور سَر آغا خان سوئم کی جائے پیدائش کہلاتا تھا۔ پہاڑی سے متصل گھاٹی پر صبح سے شام تک گِدھوں کے جُھنڈ منڈلاتے نظر آتے تھے۔ اتنی بڑی تعداد میں ان گدھوں کے گھاٹی پر منڈلانے کی وجہ یہ تھی کہ یہاں مقیم پارسی برادری میں جب کسی کی موت واقع ہوجاتی، تو وہ اپنے مُردے کو ایک چبوترے پر کھلے آسمان تلےرکھ دیتے، جو پھر اِن گِدھوں کی خوراک بن جاتا۔ میّت کو دنیا سے رخصت کرنے کا یہ طریقۂ تدفین ’’Sky Burial‘‘ پارسی برادری کے مذہبی پیشوا زرتشت کے دور سے شروع ہوا۔

زرتشت کون تھا؟ یہ جاننے کے لیے پارسی برادری کی تاریخ کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ اگرچہ اُن کی قدیم تاریخی کُتب کے بہت سے حصّے نایاب ہوچکے ہیں۔ تاہم، اس حوالے سے دست یاب شدہ کچھ تاریخی کتابوں کے اوراق سے پتا چلتا ہے کہ پارسیوں کا تعلق ملک ایران سے ہے، جس کا قدیم نام پارس تھا، جو بعد میں فارس ہوگیا۔ اُن کی قدیم تاریخ کا آغاز جس زمانے میں ہوا، وہ عہدِ عقیق کہلاتا ہے۔ اُس عہد کے باشندے غاروں میں زندگی بسر کرتے، وحدانیت پر یقین رکھتے، روشنی کو نورِ مطلق سمجھتے اور خدا کو ایک پیکرِ مجسّم خیال کرتے تھے۔

قدیم تاریخی اوراق سے پتا چلتا ہے کہ اُس وقت کے حکم رانوں گیومرس اور طہمورس کے دَور میں پارس میں تمدّنی ترقی کے ساتھ ہی مُلک میں حکم رانوں کے مورثی سلسلے کا بھی آغاز ہوا۔ جن میں شاہوں اور کیانیوں کے دَور کے دو سلسلوں کو خاص شہرت حاصل ہوئی۔ پہلے دَور کے حکم رانوں میں ہوشنگ شاہ، جمشید، ضحاک، فریدوں، ایرج اور منوچہر شامل ہیں۔ اُن کے دَور سے قبل لوگ وحدانیت سے دُور، کفرو الحاد میں مبتلا تھے۔ رومیوں اوریونانیوں کی طرح وہاں کے باشندے اصنام پرست (بُتوں کو پوجنے والے) اور سات ستاروں کی پُوجا کرنے والے تھے، جن کے مخصوص نام اس طرح تھے1۔آفتاب (شمس) 2۔ماہتاب (چاند) 3۔کیوان (زحل) 4۔ہرمز (مشتری) 5۔بہرام (مریخ)6۔ناہید (زہرہ) اور 7۔تیر (عطارد)۔ بُتوں کو پوجنے کے لیے وہ ہر ستارے کا الگ الگ بُت بنا کر اُسے عُمدہ لباس اور ہیرے جواہرات سے مزیّن کرتے اور عالی شان مندر تعمیر کرکے وہاں نصب کرتے۔ اس طرح کے مندر کو ہیکل کے نام سے پکارا جاتا۔ مندر سے متصل ایک باورچی خانہ، طعام خانہ، سرائے اور شفا خانہ بھی تعمیر کیا جاتا۔

ہر ہیکل میں مقررہ اوقات میں روزانہ تین مرتبہ بُتوں کی پُرستش کی جاتی۔ مُلک میں طبقاتی نظام رائج ہونے کی وجہ سے لوگ اعلیٰ اور ادنیٰ طبقات میں تقسیم تھے۔ یعنی بڑے ستاروں کے ہیکل اشرافیہ اور چھوٹے ستارے کے ہیکل، نچلے درجے کے لوگوں کے لیے مخصوص تھے۔ کسی ایک طبقے کے فرد کا دوسرے طبقے کے ہیکل میں جانا ممنوع تھا۔ البتہ ہیکل ناہید(Venus)صرف عورتوں کے لیے مخصوص تھا۔ اصنام پرستی کا یہ دَور زرتشت کی آمد تک جاری رہا۔ اس دوران ہوشنگ شاہ کے زمانے کو خاص اہمیت حاصل رہی۔ ہوشنگ شاہ کے بیٹے کا نام پارس تھا۔ جس کے نام سے مُلک پارس مشہور ہوا۔ ہوشنگ شاہ ہی کے دَور میں ملک پارس میں پہلی مرتبہ آگ کا ظہور ہوا، جس کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ ایک دن ہوشنگ شاہ اپنے چند مصاحبین کے ساتھ ایک پہاڑ پر بیٹھا تھا کہ اچانک اُسے سامنے چٹان سے ایک خوف ناک اژدھا نکلتا نظر آیا۔

وہ پُھنکارتا ہوا اُسی کی طرف آرہا تھا۔ شاہ اور اس کے ساتھیوں کے پاس کوئی ہتھیار نہیںتھا، لہٰذا اس نے اپنے مصاحبین کو اژدھے پر سنگ باری کا حکم دیا۔ مصاحبین نے شاہ کے حکم کے مطابق چٹان پر بے دریغ سنگ باری شروع کردی۔ سنگ باری سے بچنے کے لیے اژدھا تو کسی اور سمت جا کر روپوش ہوگیا، مگر پتھروں کی مسلسل ضربات سے چٹان سے زبردست چنگاریاں نکلنے لگیں۔ جو جلد ہی آگ کے شعلوں میں تبدیل ہوگئیں۔ شاہ اور اس کے مصاحب یہ منظر دیکھ کر دَم بخود رہ گئے۔ دراصل وہ چقماق پتھر کی چٹان تھی، جو پتھروں کی ضرب سے آگ پیدا کرنے کا ذریعہ بن گئی۔ اِدھر ہوشنگ شاہ نے یہ منظر دیکھا، تو اس نے آگ کو نورِ یزدانی سمجھ کر اس کی پوجا شروع کردی۔ پھر اس آگ کو مقدّس قرار دے کر ہیکل سے ملحق ایک آتش کدہ تعمیر کروایا اور ہر سال ماہ بہمن یعنی گیارہویں مہینے کی دس تاریخ کو ’’جشنِ سدہ‘‘ منایا جانے لگا۔

جب جمشید شاہ کا دور آیا، تو اس نے بھی آتش پرستی کی روایت قائم رکھی، لیکن ساتھ ہی اصنام پرستی بھی جاری رہی۔ اگرچہ اس کے بعد بھی آتش کدے تعمیر ہوتے رہے، تاہم اس طرف لوگوں کی توجّہ کم سے کم ہوتی چلی گئی۔ منوچہر نے بھی پارس کے دارالحکومت، بلخ میں ایک شان دار آتش کدہ تعمیر کروایا، جو نوبہار کے نام سے مشہور ہوا۔ منوچہر کے دورِحکومت کے بعد کیانی حکومت کا دَور آیا۔ اس سے پہلے کیکاوس تخت نشین تھا، اس کے بعد کیقباد، سیادش، کیخسرو، لہراسپ، گشتاسپ، اسفندیار، اردشیر اور داراب تخت نشین رہے۔ پارس کو ایک عظیم سلطنت بنانے کے سبب کیخسرو نے ’’سائرس اعظم‘‘ کے نام سے شہرت حاصل کی۔ اس نے پڑوسی ملک کے کئی علاقے فتح کرکے اپنی حکومت میں شامل کیے اور اپنے دَور کا سپر پاور بن گیا۔

سائرس اعظم کو زرتشت کا ہم عصر سمجھا جاتا ہے۔ جب کہ زرتشت کی آمد، سائرس کا دَور ختم ہونے کے بعد گشتاسپ کے زمانے میں ہوئی۔ گشتاسپ کے ابتدائی دَورِ حکومت میں اصنام پرستی کا غلبہ تھا۔ کہیں کہیں آتش پرستی بھی ہوتی تھی، مُلک میں آتش کدے بھی کثرت سے موجود تھے، جو عدم توجّہی کا شکار تھے۔ گشتاسپ اوائلِ عمر میں اصنام پرست تھا۔ اس کے وزیر اعظم کا نام جاماسپ تھا، جو علمِ نجوم میںماہر تھا۔ اس نے گشتاسپ کے حکم پر دو سو گز طویل و عریض ایک نادر تخت تیار کیا، جس کے اوپر ستاروں کے بروج کا نقشہ بنایا گیا، جو رصد گاہ کا کام دیتا تھا۔ گشتاسپ اسی کی مدد سے ستاروں کی چالیں معلوم کرتا تھا۔

تخت کی بناوٹ قیمتی زر وجواہر سے کی گئی تھی۔ گشتاسپ کے دَور ہی میں زرتشت کی آمد ہوئی۔ وہ 660ق۔م میں ایک آتش پرست خاندان میں پیدا ہوا، جو پارس کے شمال مشرقی علاقے میںرہتا تھا۔ زرتشت کے باپ کا نام پورشپ اور ماں کا وغدویہ بتایا جاتا ہے، جو شاہ فریدوں کی نسل سے تھے۔ زرتشت کی پرورش آتش پرست ماحول میں ہوئی۔ اس نے آگ کو معبود کا درجہ دے کر اس کا نام آہورہ مزدا رکھا۔ مذہب کو آشا کا نام دیا اور اپنے اِرد گرد کے علاقوں میں اس کی تبلیغ کرنے لگا۔ تیس برس کی عُمر میں وہ اپنے وطن سے نکل کر پارس کے دارالحکومت بلخ میں داخل ہوا اور اپنے ساتھیوں کے ساتھ شہر میں تبلیغ میں مصروف ہوگیا۔ جب اس کے مذہب کی شہرت شاہی دربار تک پہنچی، تو گشتاسپ نے اسے بلا بھیجا۔

وہ دربار پہنچا، تو وہاں نجومی، جادوگر اور اصنام پرست پہلے سے موجود تھے، جنہوںنے زرتشت کے مذہب کو چیلنج کرتے ہوئے اُسے مناظرے کی دعوت دی، جو اس نے قبول کرلی۔ تین دن تک مناظرہ جاری رہا۔ زرتشت نے ایسے دلائل پیش کیے کہ گشتاسپ سمیت تمام درباری اس کے مذہب کے قائل ہوگئے، اس پر ایمان لے آئے اور اصنام پرستی رَد کرکے آتش پرستی شروع کردی۔ بعدازاں، گشتاسپ نے اسے سرکاری مذہب کا درجہ دے دیا اور خود بھی اس کا مبلّغ بن گیا۔ اس نے مُلک میں موجود تمام ہیکل بھی تباہ کردیئے۔ آتش کدے، جو ویران ہوچلے تھے، انھیں بحال کرکے اُن کا نام آذر رکھا اور اُن میں چوبیس گھنٹے آگ بھڑکانے کا فرمان جاری کیا۔

اس طرح مُلک بھر میں دوبارہ آتش پرستی کا دَور شروع ہوا۔ اس دوران زرتشت نے بلخ شہر میں مستقل رہائش اختیار کرلی۔ پارس کے پڑوس میں واقع مُلک توران (غالباً) ترکی کے شاہ، ارجاسپ کو اس تمام صورتِ حال سے آگاہی ہوئی، تو وہ سخت برہم ہوا۔ اس نے گشتاسپ کو مذکورہ مذہب ترک کرنے کا پیغام بھیجا، جو رَد کردیا گیا۔ چناں چہ ارجاسپ تین لاکھ کی فوج کے ساتھ پارس پر حملہ آور ہوا۔ گشتاسپ کے پاس بھی اتنی ہی بڑی فوج تھی۔ جس نے اُن کا مقابلہ کیا اور فتح یاب ہوا۔ اس جیت کی خوشی میں اس نے شہر میں ایک انتہائی وسیع آتش کدہ تیار کروایا، جو آذرنوش کہلایا۔ اس کی تعمیر مکمل کروا کر گشتاسپ مُلک کے دورے پر چلا گیا۔

ادھر ارجاسپ، بلخ شہر میں اس کی غیر موجودگی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے شہر پر حملہ آور ہوگیا اور تمام چھوٹے بڑے آذر تباہ کر ڈالے۔ اس جنگ میںگشتاسپ کا بوڑھا باپ لہراسپ بھی مارا گیا۔ اسی دوران زرتشت بھی دنیا سے رخصت ہوگیا۔ گشتاسپ کو اس سانحے کی خبر ملی، تو وہ فوراً بلخ واپس آیا۔ اور اپنے بیٹے اسفند یار کے ساتھ مل کر ارجاسپ کو شکست ِ فاش سے دوچار کیا۔ جنگ ختم ہونے کے بعد تباہ شدہ بلخ شہر کو بحال کیا گیا اور تباہ ہونے والے تمام آتش کدوں کی مرمّت اور تعمیرِنَو کے بعد اُن میں چوبیس گھنٹے آگ بھڑکانے کا سلسلہ شروع کیا گیا،جو اگلی نسلوں تک جاری رہا۔

زرتشت نے اپنی زندگی میں اپنا مقدّس صحیفہ تیار کیا۔ جو بارہ ہزار بیلوں کی عُمدہ کھالوں پر آبِ زر یعنی سونے کے پانی سے لکھا گیا۔ گشتاسپ نے اس کی کئی نقول تیار کروا کے یورپی ممالک مثلاً جرمنی، فرانس اور برطانیہ وغیرہ بھیجیں، جہاں اس کا مقامی زبانوں میں ترجمہ کیا گیا۔ اس صحیفے یا کتاب کا نام اوستا(AVESTA) تھا۔ جس میں زرتشت کے اپنے مذہبی عقائد و احکامات، عبادات، دعائیں، مذہبی گیت اور نظمیں، عہدِ سلف کی شخصیات کے تذکرے، عالمِ بالا کے حالات، پارسی کیلنڈر اور مختلف علوم مثلاً ریاضی، نجوم اور طبّ وغیرہ کے بارے میں بیش بہا معلومات تھیں۔ اس نے اوستا کی تفسیر بھی خود ہی لکھی، جس کا نام ژند تھا۔ یہ کتاب صرف اشرافیہ کے لیے مخصوص تھی۔ عام افراد اس سے محروم تھے۔

زرتشت مذہب کے چند عقائد یہ تھے (1)آگ جو پاک معبود ہے، اسی کا نام آہورہ مزدا ہے۔ اس پرایمان لانا (3)آتش کدہ بنا کر اس میں چوبیس گھنٹے آگ بھڑکا کر رکھنا،چوبیس گھنٹوں کے دوران پانچ مرتبہ مقررہ اوقات میں عبادت کرنا، (4) باہمی معاملات کو طے کرتے وقت آگ کی قسم کھانا۔ (5) کسی جرم میں اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے دہکتی آگ پر ننگے پائوں چلنا (6)نوروز موسم کے پہلے دن کا جشن منانا، جو پارسی کیلنڈر کے گیارہویں مہینےمیں آتا ہے۔ (غالباً یہ ہوشنگ شاہ کے ’’جشنِ سدہ‘‘ کا دوسرا نام ہے۔ (7) مرنے کے بعد میّت کو آسمان کے حوالے کرنا،جس میں مُردہ جسم کو ایک پکّے چبوترے پر لٹا دینا، جو ڈاکھما (Dakhma)کہلاتا ہے، جب کہ ہڈیوں کی شکل میں باقی رہ جانے والے وجود کو بلیچ کرکے چُونے کے ایک گڑھے میں رکھ دیا جاتا ہے۔ واضح رہے، ایران میں 1970ء میں اس طریقے کو ممنوع قرار دیا جاچکا ہے۔

پارس میں کیانی حکومت تقریباً سات سو برس قائم رہی۔ اس کا آخری حکم راں داراب کیانی تھا۔ 230ق۔م میں اس کے دَور میں سکندرِ اعظم، پارس پر حملہ آور ہوا اور ملک کو تہہ و بالا کر ڈالا۔ اس نے تختِ طاقدیس قبضے میں لے کر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کردیئے اور تمام ہیرے، جواہر نکال کر اپنے قبضے میں کرلیے۔ اوستا کی اصل کتاب بھی جلا راکھ کردی۔ داراب کے جنگ میں مارے جانے کے بعد تخت پر کسی کی مضبوط حکمرانی قائم نہ ہو سکی اور پارس کا نام فارس ہوگیا۔ یہ صورتِ حال تقریباً پانچویں صدی عیسوی تک قائم رہی۔ جس کے بعد عربوں نے فارس پر حملہ کرکے اسے فتح کرلیا۔ اسلامی حکومت قائم ہونے کے بعد آتش پرست آبادی نے نقل مکانی شروع کردی اور دنیا کے مختلف حصّوں میں جابسے۔ عرب ممالک میں انھیں مجوسی کا نام دیا گیا، جب کہ بحری راستوں سے برصغیر میں آنے والے پارسی، گجرات، ممبئی، بھوپال، بہار اور کراچی جیسے شہروں میں بس گئے۔

فارسی تاریخ کے آخری دَور کے ہرقل، رستم اور سہراب کے بارے میں کوئی خاص معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ حضرت سلمان فارسی؄ کے بارے میں کون نہیں جانتا۔ صحابئ رسول ؐ، حضرت سلمان فارسی؄ ایک آتش پرست خاندان میں پیدا ہوئے تھے، مگر وہ اپنے اس مذہب سے مطمئن نہیں رہتے تھے، لہٰذا فارس چھوڑ کر مدینہ منورہ تشریف لے آئے اور حضور سرورِ کائناتؐ کے ہاتھ پر بیعت کر کے دائرئہ اسلام میں آ گئے۔علاوہ ازیں، پارسیوں کی کچھ تعداد مغربی ممالک میں بس گئی اور زیادہ تر تجارت کے پیشے سے منسلک ہو گئی۔

برطانیہ کے ایک مشہور راک بینڈ کا سربراہ، فریڈی مرکری بھی آتش پرست تھا، جب کہ ایک مشہور امریکی ناول نگار، جارج مارٹن کی کتاب ’’اے سونگ آف آئس اینڈ فائر‘‘ پرمبنی مشہور فلم ’’گیم آف تھرلز‘‘ میں بھی زرتشت مذہب کی جھلکیاں دکھائی گئیں۔ اس میں ایک کردار بحیثیت آتشی معبود بن کر آگ کی مدد سے تاریکی پر غالب آجاتا ہے۔ اس کے علاوہ پچھلی صدی کے وسط میں جاپان کی ایک موٹر کمپنی نے اپنی ایک کار ’’مزدا‘‘ کے نام سے تیار کی تھی۔ اُن کے خیال کے مطابق مزدا (آہو مزدا سے ماخوذ) روشنی کا معبود ہے۔

محتاط اعدادو شمار کے مطابق بھارت میں پارسیوں کی تعداد ساٹھ ہزار اور پاکستان میں چودہ سو کے لگ بھگ ہے۔ پاکستان میں بیش تر پارسی باشندے کراچی میں رہائش پذیر ہیں۔ اُن کی اپنی پارسی کالونی ایم اے جناح روڈ پر گرومندر تا پرانی نمائش موجود ہے، جب کہ سعید منزل کے قریب اُن کے ماما پارسی اسکول کا شمار، شہر کے معیاری تدریسی اداروں میںہوتا ہے۔ صدر کے علاقے بوہری بازار کے سامنے اُن کا آتش کدہ بھی موجود ہے، جہاں غیر برادری کا کوئی فرد داخل نہیں ہوسکتا۔ پارسی برادری کے لوگ عموماً امن پسند، شائستہ اور خوش حال ہوتے ہیں۔ اُن کی اکثریت تعلیم یافتہ اور اعلیٰ پیشوں سے منسلک ہے۔ پارسی غیر برادریوں سے کم ہی دُعا،سلام رکھتے ہیں۔

شادی بیاہ اور رسوم و رواج کے حوالے سے اپنی ہی برادری تک محدود رہتے ہیں۔ جسمانی طہارت اور کُھلی فضا میںرہائش ان کے مذہبی فرائض میںشامل ہے۔ پاکیزگی کی علامت ہی کے طور پر ان کے معابد اور مکانات میںہمہ وقت آگ روشن رہتی ہے، خواہ وہ کوئی چراغ ہی کیوں نہ ہو۔ پارسی عموماً کِھلتے رنگ روپ کے خوش شکل افراد ہوتے ہیں۔ برادری کے مرد مغربی لباس زیبِ تن کرتے ہیں، جب کہ خواتین اسکرٹ اور بلائوز یا مخصوص اسٹائل کی ساڑیاں پہنتی ہیں۔