ڈائجسٹ: سفر تمام ہوا...

May 22, 2022

سعدیہ سیما

مَیں جب پی این ایس شفا کے آئی سی یو سے باہر نکلی، تو اس بات سے بالکل ہی بے خبر تھی کہ میری زندگی کا سب سے بیش بہا رشتہ مجھ سے بچھڑنے والا ہے۔امّی…’’سیدہ عابدہ بیگم‘‘ میری ماں بسترِ مرگ پر تھیں۔ مَیں اُس وقت عُمر کی بیسویں دہائی میں تھی، جب اُمیدیں کچھ زیادہ ہی مضبوط ہوتی ہیں۔ اور میری اُمید یہ تھی کہ’’ امّی ٹھیک ہو جائیں گی اور ہم سب ہنسی خوشی گھر واپس چلے جائیں گے۔‘‘مگر زندگی کا فلسفہ اُس وقت سمجھ آتا ہے، جب آپ اسے برت چُکے ہوتے ہیں۔ آج 47سال کی عُمر میں مجھے سمجھ آیا کہ’’انسان مشقّت میں پیدا کیا گیا ہے۔‘‘اور میری ماں مشقّت کی عملی تصویر تھیں۔ انسان ایمان کی جتنی سیڑھیاں چڑھتا جاتا ہے، اُس کی مشقّت بھی اُتنی ہی بڑھتی چلی جاتی ہے۔کُل 60سال کی زندگی میں امّی نے اتنے نشیب و فراز دیکھے کہ ویسے تو اتنا سب کرنے کے لیے عُمرِ خضر چاہیے ، مگرامّی تو جیسے فاسٹ فاروَرڈ میں جی رہی تھیں۔

امّی پاکستان بننے سے قبل1933 ء میں بھارت کے صوبے ،مہاراشٹر کے ایک شہر، ایلچ پور (موجودہ اچل پور) میں پیدا ہوئیں۔ ان کا تعلق قاضی سید خاندان سے تھا، جب غزنی و ایران میں انقلاب آیا،تو اس خاندان کے بانی خراسان سے نیشاپور آئے اور وہاں سے تغلق اور خِلجی کے عہد میں لکھنؤ کے مضافات کنتور میں آکر آباد ہوگئے۔ اس کے بعد مغلیہ دَورِ حکومت میں اس خاندان کو عروج حاصل ہوا۔ اسی خاندان کے ایک بزرگ سیّد تاج محمودحدیث و فقہ کے ماہر تھے، وہ کنتور کے قاضی مقرّر ہوئے۔ یہ خاندان بعد میں اورنگزیب عالم گیر کے عہد میں خلد آباد اور ایلچ پور آکر مقیم ہوا اور منصبِ قضاۃ پر فائز ہوا۔ اس خاندان کے پاس مغلوں کے زمانے سے یہ ذمّے داری تھی۔ جب امّی نے ہوش سنبھالا، تو ان کے دادا، سیّد حنیف محی الدّین اس منصب پر فائز تھے۔ امّی کا خاندان دینی رجحان کا حامل، باپردہ گھرانہ تھا، جہاں لڑکیوں کو چوتھی جماعت کے بعد اسکول جانے کی اجازت نہ تھی۔

بڑا سا گھر زنان خانے، مردانے اور کچہری پر مشتمل تھا۔ امّی اکثر و بیش تر اپنے بھارت کے گھر کا ذکر کرتی تھیں۔ جب وہاں کے قصّے، کہانیاں سُناتیں، تو پہلے تو ان کی آنکھیں خوشی سے چمک اُٹھتیں،مگر بات کے اختتام تک عموماًآنکھیں نم ہو جاتیں۔ ہجرت کے تیس، پینتیس سال بعد تک ان کا دل وہیں تھا۔ امّی کے والد، سیّد فخر محی الدّین، جنہیں وہ ’’باوا‘‘ کہتی تھیں، اپنے والد کے دوسرے صاحب زادے تھے۔ وہ بتاتی تھیں کہ ’’باوا درویش صفت انسان تھے۔ غریب اور نچلے طبقے کے لوگ ان سے زیادہ خوش رہتے تھے اور انہیں ’’فخرو میاں‘‘ کہہ کر پکارتے تھے۔‘‘جہاں شہر کی جامع مسجد میں امّی کے دادا، تایا نماز پڑھاتے تھے، وہیں ایک اور مسجد ’’دارالشفا‘‘ میں میرے نانا نماز پڑھاتے تھے، جہاں دن بھر کے تھکے ہارے مزدور اور دوسرے محنت کش نماز پڑھنے آتے ۔

اس کی وجہ صرف یہ تھی کہ فخرو میاں ان غریبوں کی تھکاوٹ کا خیال کرتے ہوئے چھوٹی سورتیں پڑھتے تھے، تاکہ فرض ادا ہو سکے۔ امّی بتاتی تھیں کہ باوا کی ایسی فطرت اس لیے تھی کہ ان کی والدہ اور دادی بھی اسی طرح غریبوں اور لاچاروں کی بے حد ہم درد اور غم گسار تھیں۔ وہ ضرورت پڑنے پر تن کا کپڑا بھی دان کر دینے کی صلاحیت رکھنے والے لوگ تھے۔ ایسی صحبت اور نیک دل والدین ہی کی تربیت کا اعجاز تھا کہ امّی کی شخصیت بھی ایسے سانچے میں ڈھل گئی، جس کی خود ان کے اپنے خاندان میں مثال ملنا ناممکن ہے۔امّی اپنے والد سے بہت قریب تھیں۔ وہ بتاتی تھیں کہ ’’میرے دادا حضرت اور ابّا جان دونوں ہی بہت اچھے شاعر تھے، کچہری میں اکثر مشاعرے ہوتے۔ ایک بار ایک ناپختہ شاعر، جو نئے نئے شعر کہنے کے شوق میں مبتلا ہوئے تھے، باوا کے پاس آئے اور کہنے لگے۔’’فخرو میاں! شاعری تو کرلوں پر کوئی مناسب تخلّص نہیں سوجھ رہا۔‘‘باوا نے مسکراتے ہوئے کہا’’میرے خیال میں زاغ مناسب رہے گا کہ زاغ ایک شان دار پرندے کو کہتے ہیں۔‘‘

وہ صاحب مسئلہ حل ہونے کے بعد خوشی خوشی واپس چلے گئے۔ جب کچہری میں مشاعرہ ہوا اور ان نوآموز شاعر نے جیسے تیسے اپنا کلام تو سُنا دیا،لیکن جب انہوں نے مقطع پڑھا تو محفل زعفران ہو گئی، کیوں کہ باوا نے انہیں یہ تو بتایا تھا کہ زاغ ایک پرندے کو کہتے ہیں، لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ پرندہ ’’کوّا‘‘ ہے۔ یہ اور اس طرح کے کئی واقعات امّی ہمیں بارہا سناتیں کہ وہ قصّے ہمیں ازبر ہو گئے۔ لیکن ہر بار ہم انہیں دل چسپی سے سُنتے۔ پہلی وجہ تو یہ تھی کہ ہماری زندگی میں تفریح کے مواقع نہ ہونے کے برابر تھے، تو ان قصّوں کو سننے میں ہمارا وقت گزر جاتا تھا۔ دوسری بات یہ کہ امّی، جو زیادہ تر خاموش رہتی تھیں، یہ قصّے، کہانیاں سُناتے ہوئے جس خوشی کا اظہار کرتیں، وہ لمحات ہمارے لیے اَن مول،بےحد خوش گوار ہوتے ۔

میری امّی کی زندگی کی ابتدائی دَہائی عام بچّوں ہی کی طرح خوش و خرّم گزری۔ میری نانی، نانا کی دوسری بیوی تھیں۔ ان کی پہلی بیوی کا انتقال ہوچُکا تھا، جن سے ان کے تین بچّے تھے۔ نانی، نانا سے عُمر میں اتنی چھوٹی تھیں کہ وہ میرے بڑے ماموں،سید خورشید محی الدّین(نانا کی پہلی بیوی کے بڑے بیٹے) کی ہم عُمر تھیں۔ نانی کی شادی 15 برس کی عُمر میں ہوئی اور اگلے ہی برس امّی پیدا ہوگئیں، یوں امّی، نانی سے صرف سولہ برس چھوٹی تھیں۔ نانی کے سات بچّوں میں امّی سب سے بڑی تھیں۔زندگی سکون سے گزر رہی تھی کہ جب امّی بارہ برس کی تھیں، تو ان کے باوا شدید بیمار ہوگئے۔ علاج بھی کچھ کام نہ آیا، بس مرض بڑھتا چلا گیا۔

امّی جب بھی اس وقت کا ذکر کرتیں،تو ان کی موٹی موٹی آنکھیں آنسوئوں سے بھر جاتیں۔ باوا کی زندگی آہستہ آہستہ مُٹھی سے نکلتی جا رہی تھی۔ امّی بتاتی تھیں ’’ایک شام امّاں، باوا کے سِرہانے بیٹھی تھیں، باوا کو بھائی صاحب(سب سے بڑے بیٹے) کا انتظار تھا۔ طبیعت زیادہ خراب ہوئی، تو باوا غشی میں چلے گئے، لیکن اس عالم میں بھی وہ خورشید میاں کو پکار رہے تھے، ان کی بے چینی دیکھ کر گھر کی ایک بزرگ خاتون سے رہا نہیں گیا، تو انہوں نے قریب کھڑے گورے بھائی(چھوٹے بیٹے) کا ہاتھ باوا کے ہاتھ میں دے دیا اور کہا ’’فخرو میاں! دیکھو خورشید میاں آگئے۔‘‘ باوا نے آنکھیں کھولیں اور بھائی کا ہاتھ امّاں کے ہاتھ میں دے دیا۔‘‘ امّی روتے ہوئے کہتیں ’’نزع کے عالم میں بھی باوا کو امّاں اور ہم بہن، بھائیوں کی فکر تھی…‘‘

(نوٹ: افسانہ نگار گزشتہ دو دہائیوں سے درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں۔ سندھ اور پنجاب ٹیکسٹ بک بورڈز کے لیے بطور مصنّفہ اپنی خدمات بھی انجام دے چُکی ہیں۔ یہ باب ان کی عن قریب شایع ہونے والی کتاب ’’امّی‘‘ سے، جو ان کی والدہ کی سوانح حیات ہے، لیا گیا ہے۔)