• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محلّے کے چھوٹے سے شادی ہال میں لوگوں کی آمد جاری تھی۔ خواتین پارو کی ہونے والی اچانک شادی پر رائے زنی میں، بچّے اودھم مچانے میں اور مرد حضرات کن انکھیوں سے دوسرے گھروں کی خواتین کی سج دھج کا جائزہ لینے میں مصروف تھے۔ پارو کے ابّا آنکھوں میں بچّوں کی سی حیرت سموئے اِدھر اُدھر دیکھ رہے تھے، وہ آج بہت دِنوں بعد گھر سے باہر یوں لوگوں کے درمیان موجود تھے۔ ان کی دونوں بہوئیں سر جوڑے مذاکرات کر رہی تھیں، جب کہ ذرا فاصلے پر موجود بہنیں خاموشی سی بیٹھی تھیں۔ مگر ان کے چہروں سے ایک اضطراب جھلک رہا تھا۔ اچانک دلہن کی آمد کا غوغا اُٹھا، تو سارا مجمع اس کی طرف متوجّہ ہو گیا۔ 

بچّے یوں اس طرف لپکے جیسے کوئی عجوبہ دیکھ لیا ہو۔ ہر کسی کی نظر دُلہن پر تھی اور اس کی بے چین نگاہیں پورے ہجوم میں صرف اپنے ابّا کو تلاش رہی تھیں۔ آخر اس کی نگاہ ابّا پر پڑ ہی گئی اور آنکھیں نم ہونے لگیں۔ ابّا ہجوم میں بھی تنہا دِکھائی دے رہے تھے اور دونوں بھائی نہ جانے کہاں تھے۔’’بہت پیاری لگ رہی ہے میری چُھٹکی۔‘‘ رقیہ آپا نے اس کے قریب بیٹھتے ہوئے سر گوشی کی۔ ’’آپا! ابّا نے میرا نہیں پوچھا؟‘‘ پارو نے بےچینی سے دریافت کیا۔ ’’ارے بھئی، سامنے ہی تو بیٹھی ہو۔ پھر کیوں پوچھیں گے بھلا…‘‘آپا نے یونہی اسے چھیڑا۔ ’’بتائیں ناں آپا…‘‘ وہ روہانسی ہو گئی۔ ’’پگلی نہ ہو تو، پوچھا ہے دو تین بار۔ مَیں نے کہا آج محلّے میں تقریب ہے دیر سے آئے گی، تو چُپ ہو گئے‘‘ ’’آپا!یہ تو ظلم ہے۔ 

جب مَیں رخصت ہوجاؤں گی اور وہ گھر جاکر مجھے تلاش کریں گے،تب کیا ہو گا؟ انہیں روز مَیں سُلاتی ہوں۔ بچّوں کی طرح کئی کئی کہانیاں سُنانا پڑتی ہیں،تب کہیں جا کر سوتے ہیں۔‘‘ پارو نے دل گیر لہجے میں کہا۔ ’’آج تو ہم سب ہوں گے ناں گھر پہ،بہلا لیں گے۔‘‘’’اور جب آپ سب اپنے اپنے گھروں کو لَوٹ جائیں گے تب؟‘‘ ’’سب ٹھیک ہو جائے گا، اِن شاء اللہ۔‘‘ آپا نے اس کا دوپٹا درست کرتے ہوئے مُسکرانے کی کوشش کی۔

امّاں کی وفات کے بعد ابّا بالکل بچّوں جیسے ہو گئے تھے۔ ان کی یادداشت بھی قریباً چلی گئی تھی۔ بڑی بہنیں شادی شُدہ اور دوسرے شہروں میں مقیم تھیں، جب کہ بھائی، ابّاکی ذمّے داری اُٹھانے سے گریزاں تھے، سو لے دے کے ان کی ساری ذمّے داری پارو پر آگئی ، حالاں کہ اُس وقت پارو محض سترہ برس کی تھی۔ اب تو بس ابّا کو پارو ہی یاد رہتی تھی۔ بڑی بیٹیاں اور بیٹے کبھی ملنے بھی آتے، تو وہ بس خالی آنکھوں سے انہیں تکتے رہتے۔ بے چاری رقیہ آپا ابّا اور پارو کی فکر میں گُھلتی رہتیں، مگر کچھ کر نہ پاتی تھیں۔ وقت گزرتا گیا اور پارو کی شادی کی عُمر گزرتی جا رہی تھی، مگر وہ ابّا کی وجہ سے شادی کرنے پر رضامند نہ ہوتی تھی۔ بالآخر رقیہ آپا نے بڑی مشکل سے اسے شادی کے لیے راضی کیا کہ ایک تو رشتہ بہت اچھا تھا، دوسرا وہ اب تیس سے اوپر کی ہو چلی تھی۔

رقیہ آپا بھائی، بھابھیوں کے تیور دیکھ رہی تھیں، انہوں نے ایک بار بھی ابّا کو اپنے ساتھ رکھنے کا عندیہ ظاہر نہیں کیا تھا، ان کا ارادہ پارو کی رخصتی کے بعد آرام سے بیٹھ کر بات کرنے کا تھا۔ دوسری جانب، پارو کی پریشانی بھی بے جا نہ تھی کہ ابّا ہر کام کے لیے اسی پر انحصار کرتے تھے۔ ان کے لبوں پر بس اسی کا نام رہتا۔ بھائیوں کی بےحِسی عروج پر تھی، بس کبھی کبھار مہمانوں کی طرح آمد ہوتی، چند ہزار ہتھیلی پر رکھ یہ جا وہ جا۔ دُلہن کے اسٹیج پر آنے کا شور ہوا، تو ابّا بے چینی سے ادھر ادھر دیکھنے لگے۔

کچھ دیر بعد انہوں نے ’’پارو، پارو…!‘‘ پکارا تو چھوٹی آپا صبیحہ ان کے پاس چلی گئیں۔ ’’گھر چلو، مجھے پارو کے پاس جانا ہے۔‘‘ وہ بڑ بڑائے۔ ’’ابّا! شادی کی تقریب ختم ہو جائے، تو چلتے ہیں۔‘‘صبیحہ بولی۔ ’’کس کی شادی ہے؟‘‘ ابّا نے پوچھا۔ ’’وہ… وہ محلّے کی بچّی آمنہ ہے ناں اُس کی۔‘‘ ابّا کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ آج ان کی پارو رخصت ہورہی ہے، کیوں کہ یہ بات اُن سے چُھپائی گئی تھی اور ان کی کم زور بینائی اسٹیج پہ بیٹھی، سجی سنوری پارو کو پہچاننے سے قاصر تھی۔ ’’اب ان بڑے میاں کا کیا ہوگا؟ پارو بیگم تو چلیں سسرال اور پانچ مرلے کے چھوٹے سے گھر میں تو رکھنے سے رہی۔‘‘ بڑی بھابھی، دیورانی سے مخاطب تھیں۔’’اللہ جانے،جو ہو، سو ہو۔ میری بلا سے۔ مَیں نے تو پہلے ہی ظفر سے کہہ دیا ہے، مجھ سے کوئی امید نہ رکھیے گا۔‘‘ چھوٹی بھابھی میاں کا نام لیتے ہوئے تنک کر بولیں۔ رخصتی کے وقت پارو نے باپ کے سینے سے لگنے کی خواہش کی، تو رقیہ آپا نے مصلحتاً روک دیا۔ وہ تڑپ کے رہ گئی، مگر آپا نے سمجھا بُجھا کر گاڑی میں بٹھا دیا۔

چاروں بہن بھائی اور بھابھیاں واپس ہال میں آئے، تو ابّا اکیلے بیٹھے بیٹھے سو چُکے تھے۔ رقیہ آپا نے آگے بڑھ کر جگانے کے لیےان کا کندھا ہلایا، تو وہ دوسری جانب لڑھک گئے۔ ’’ابّا…!ابّا…!‘‘ اُٹھیے، گھر چلیں‘‘آپا کسی اَن ہونی کے احساس سے بے چین ہو کر چِلّائیں، مگر وہ کیسے جواب دیتے کہ وہ تو اپنی پارو کے ساتھ ہی رخصت ہو چُکے تھے۔