تارکینِ وطن کو سیاست کا ایندھن بنانے کی خطرناک روش

May 22, 2022

فرانس میں ایمانوئل میکروں دوسری مرتبہ صدر منتخب ہوگئے اور اُن کی حریف نیشنل ریلی پارٹی کی خاتون امیدوار، ماری لا پین شکست کھا گئیں۔جب ایمانوئل پہلی مرتبہ منتخب ہوئے، تو اُن کی مقبولیت عروج پر تھی اور سیاست میں نووارد ہونے کے باوجود اُنہوں نے روایتی اور قوم پرست امیدواروں کو شکستِ فاش دی،لیکن 2022 ء کی جیت ماضی سے بہت مختلف ہے۔ صدر ایمانوئل کو58 فی صد، جب کہ لی پین کو41 فی صد ووٹ ملے۔گو کہ خاتون امیدوار کو کام یابی حاصل نہ ہوسکی، لیکن یہ پہلا موقع ہے، جب عوام نے کسی قوم پرست پارٹی کو اِتنی بڑی تعداد میں ووٹ دیے۔

اِس کے فرانس پر تو اثرات مرتّب ہوں گے ہی، یہ دیگر یورپی ممالک کے قوم پرستوں کے لیے بھی ایک مثبت سگنل ہے۔ فرانس، یورپ کے نظریات اور فلسفے کا دل ہے۔صدر ایمانوئل دو طرح کا کردار ادا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ایک یورپ کی قیادت اور دوسرا عالمی طاقتوں میں اہم مقام کا حصول۔اُن کے پاس یورپ کی قیادت کے مواقع موجود ہیں کہ مرکل اب جرمنی کے سیاسی منظر نامے پر نہیں رہیں۔ نیز، یوکرین کی جنگ نے فرانس کو موقع فراہم کیا ہے کہ وہ نیٹو اور یورپ میں امریکا کے شانہ بہ شانہ کھڑا ہوکر یورپ کی خودمختاری کا عَلم اُٹھا لے۔

یقیناً ایمانوئل یہ موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیں گے، خاص طور پر جب اُنہیں اندرونی محاذ پر خاصی مشکلات کا سامنا ہے۔ اُن کے پہلے دَور میں مزدوروں کی ہڑتالیں پریشان کُن رہیں، تو معیشت پر بھی دبائو رہا۔ واضح رہے، فرانس کا قرضہ اُس کی جی ڈی پی کے نوّے فی صد سے بھی زاید ہے۔دراصل، یوکرین کی جنگ نے یورپی سیاست کا منظر یک سَر بدل دیا ہے۔ توانائی اور اشیائے صَرف کی قیمتوں میں اضافے کے باوجود یورپ عالمی جنگ کے زمانے کی طرح متحد ہے، جب کہ برطانیہ آج اُسی طرح کھڑا ہے، جیسے چرچل کے زمانے میں اُس کی پالیسی تھی۔

خیال تھا کہ بریگزٹ یورپ اور برطانیہ میں خلیج پیدا کرے گا، لیکن روس کے یوکرین پر حملے نے اُنہیں قریب کردیا۔اب جرمنی مرکل کی روس نواز پالیسی سے چھٹکارا پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ یورپ بیانات ہی نہیں، عملی طور پر بھی روس کے خلاف متحد ہوچُکا ہے اور اُس کے ہتھیار اُسی طرح کام میں آرہے ہیں، جیسے افغانستان میں استعمال ہوئے یا مشرقی یورپ کو روس سے توڑنے کے زمانے میں کام میں لائے گئے۔ روسی معیشت کا گھیرائو ہوچکا ہے۔ ماہرین کے مطابق، روس کو یہاں تک پہنچانے میں صدر پیوٹن کی ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی اور غلط اندازوں کا بڑا ہاتھ ہے۔

وہ یوکرین کی جنگ فوجی طاقت سے جیت سکتے ہیں، اسے توڑ سکتے ہیں، لیکن اب اُن کا سوویت یونین کی بحالی کا خواب مشکل ہی تعبیر پا سکے گا۔درحقیقت، کسی قوم کی ترقّی کا راز اُس کا دیگر اقوام کے خلاف ہونا نہیں، بلکہ اُن کے ساتھ چلنا ہے تاکہ اقتصادی فوائد حاصل ہوسکیں۔ پاکستان اِس جال سے بال بال بچا، جب پیوٹن نے عمران خان کو روس بُلا کر دلدل میں دھکیلنے کی کوشش کی۔ بہتر ہوا کہ پاکستان اِس جال سے نکل گیا۔ جلسوں میں روس سے سَستے داموں تیل اور گیس لینے کی جو باتیں ہو رہی ہیں، اُن کا کوئی دستاویزی ثبوت موجود نہیں اور اگر ایسا کیا جاتا، تب پاکستان بھی عالمی پابندیوں کی زَد میں آجاتا، جس کی کم زور مُلکی معیشت کسی طور متحمّل نہیں ہوسکتی۔

یوکرین کی جنگ نے یورپ اور مغرب میں توانا ہوتی قوم پرستی کو مزید تقویت دی ہے۔ فرانس میں لی پین کے42 فی صد ووٹ اِس کی واضح مثال ہے۔فرانس میں مسلم تارکینِ وطن بہت نازک حالات سے گزر رہے ہیں۔صدر میکروں ایک بِل پاس کرواچکے ہیں، جس کے تحت مسلمانوں کو فرانس کے قانون کے تابع رہنا ہوگا۔ہمارے مُلک میں فرانس کے حوالے سے جس قسم کے جذبات رہے،اُن سے عمران خان کی حکومت کو خارجہ پالیسی کے معاملات میں مشکلات کا سامنا رہا۔ فرانس میں بسنے والے پاکستانی تارکینِ وطن کے لیے اِس بات کا بھی اندیشہ ہے کہ اگر وہ پاکستان کی سیاست اور نظریاتی معاملات وہاں اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، تو اُنھیں مسائل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

فرانس ہی نہیں، باقی یورپی ممالک میں بھی تارکینِ وطن کے لیے گنجائش بہت محدود ہوتی جارہی ہے۔برطانیہ میں 12 لاکھ پاکستانی ہیں، مگر اب وہاں بھی حالات بدل رہے ہیں کہ کئی پاکستانی اپنی کمیونٹی کے لیے بوجھ بنتے جارہے ہیں۔ ہم یہ بات بھول جاتے ہیں کہ دنیا کے نقشے پر ہماری ریاست، نظریاتی ریاست نہیں، بلکہ ایک قومی ریاست ہے، جو دوسری عالمی جنگ کے بعد ایک عالم گیر معاہدے اور اقوامِ متحدہ کے قیام کے بعد وجود میں آئی۔اِسی لیے اگر کوئی ریاست دنیا کے ساتھ کام کرنا چاہتی ہے، تو اُسے اقوامِ متحدہ کا رُکن بننا پڑتا ہے۔تمام تر انقلابی نعروں کے باوجود چین1971 ء تک اقوامِ متحدہ کا رُکن نہیں بنا، تو اُسے مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اُسے عالمی اداروں کا تعاون ملا، نہ رکنیت ،اور نہ ہی تجارت کی سہولتیں۔یوں اُس کی معیشت دباؤ میں رہی اور وہ عالمی طور پر اپنا جائز کردار ادا کرنے سے قاصر رہا۔ اقوامِ متحدہ کی رکنیت حاصل کرنے کے اٹھارہ سال بعد ہی وہ عالمی طاقت بننے کی راہ پر نکلا، جو اس کا جائز حق تھا۔ اِس کا مطلب یہ ہوا کہ ایک عالمی سسٹم ہے، جس میں رہتے ہوئے ہی کوئی مُلک آگے بڑھ سکتا ہے اور اسے بہت سے اصولوں یا قوانین پر عمل کرنا پڑتا ہے، خواہ وہ کتنے ہی ناگوار کیوں نہ ہوں۔ جیسے ہمارے لیے ایف اے ٹی ایف کی تلوار اور انسانی حقوق کے معاملات ہیں۔

اِسی طرح عالمی سطح پر طالبان کی حکومت تسلیم نہ کیے جانے کے باعث خطّے کی صُورتِ حال سب کےسامنے ہے۔ دوسری طرف عالمی اصولوں پر عمل پیرا ہونے سے بہت سی مراعات بھی ملتی ہیں۔ پاکستان کورونا ویکسین بنا سکا اور نہ ہی اس کی روک تھام میں کوئی کردار ادا کرنے کے قابل تھا کہ اُس وقت کے وزیرِ اعظم نے کہہ دیا تھا کہ’’ہمارے پاس صحت کا انفرا اسٹرکچر ہے اور نہ ہی مالی وسائل‘‘، لیکن چین اور امریکا نے پاکستان کی ویکسین کی ضروریات اِسی عالمی نظام کے تحت مفت پوری کردیں۔نیز، اربوں ڈالرز کی امداد بھی ملی تاکہ معیشت کو سہارا دیا جاسکے، تاہم اس کا ذکر اور شُکریہ کم ہی ادا کیا جاتا ہے۔

غریب ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ احسان مندی کے جذبات ہی سے عاری ہوجائیں۔ بہرکیف، خواہ کوئی ہمارا دوست ہو یا دشمن، تمام ممالک اِسی عالمی نظام کے پابند ہیں۔ قومی ریاست کی سب سے بڑی خُوبی یا کم زوری یہ ہوتی ہے کہ وہاں ہر معاملے میں قوم پرستی کے جذبات مقدّم رکھے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم اسلامی اُمّہ کا حصّہ ہیں اور اِسی جذبے کے تحت سمجھا جاتا ہے کہ پاکستانی، مسلم ممالک میں جو چاہیں، کرتے پِھریں، کوئی نہیں پوچھے گا، مگر جب وہاںجاتے ہیں، تو اُنھیں تلخ تجربات سے گزرنا پڑتا ہے، جس سے اُن کے نظریات کو بھی ٹھیس پہنچتی ہے۔ وہ مُلک اُنھیں بطور مسلمان نہیں، بلکہ پاکستانی کے طور پر برتتا ہے۔حال ہی میں تُرکی میں جو ناگوار واقعات پیش آئے، اُن سے دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کو زک پہنچی۔

قوم پرستی مغرب میں تو اب بڑھ رہی ہے، جب کہ دوسرے ممالک میں یہ پہلے سے موجود ہے، فرق صرف اِتنا ہے کہ ہمارے ہاں اُن سے متعلق معلومات واجبی سی ہیں۔یاد رہے، چین کے صدر شی جن پنگ اور روس کے صدر، پیوٹن کا دنیا کے بڑے قوم پرست لیڈرز میں شمار ہوتا ہے۔ پیوٹن تو یہاں تک کہتے ہیں کہ اگر روس نہیں، تو کچھ بھی نہیں۔ وہ سوویت یونین کی بحالی کا خواب پورا کرنا چاہتے ہیں، جس میں وسط ایشیائی ریاستیں اور افغانستان پہلے کی طرح اُس کے غلام ہوں اور مشرقی یورپ میں کمیونزم نافذ ہو۔

وہ یہ باتیں کُھلے عام کہتے ہیں۔ صدر پیوٹن نے لاکھوں شامی شہریوں کو بم برسا کر ہلاک کیا اور اُنہیں اس پر کوئی افسوس بھی نہیں۔وہ فاتح کہلوانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ یوکرین کی جنگ نے مغرب میں بڑھتی قوم پرستی کو بہت طاقت وَر کردیا اور جلد ہی اس کے نتائج سامنے آنے والے ہیں، بلکہ آنا شروع ہوچُکے ہیں۔ اگر اِن دنوں امریکا میں ٹرمپ حکم ران ہوتے، تو ہمارے مُلک میں جس طرح امریکی سازش کا نام نہاد بیانیہ چلایا جا رہا ہے، وہ اِس پر سخت ردّ عمل دیتے کہ وہ قوم پرستی کے ساتھ بدتمیزی میں بھی عالمی شہرت رکھتے تھے۔ اب وہ زمانہ گزر گیا کہ لوگ دیگر ممالک کے صدور اور اُن کے قومی پرچموں کو پیروں تلے روندیں اور وہاں سفارتی سطح پر خاموشی رہے۔

پہلے مغربی ممالک آزادیٔ اظہار کے نام پر اِس طرح کی حرکتیں برداشت کر لیا کرتے تھے، مگر اب ایسا نہیں ہے۔قوم پرستی کی لہر کا خطرناک ترین ٹول’’ سوشل میڈیا‘‘ ہے۔ اِسی سوشل میڈیا کو سب سے پہلے صدر ٹرمپ نے سرکاری معاملات میں استعمال کیا۔وہ سرکاری طور پر پریس ریلیز جاری کرنے کی جگہ ٹوئیٹس کردیا کرتے اور اپنے پیروکاروں سے براہِ راست خطاب کرتے، جس میں کئی بار اُن سے بڑی غلطیاں بھی سرزد ہوجاتیں اور حکّام ڈیمیج کنٹرول کے لیے وضاحتیں کرنے پر مجبور ہوتے۔

تاہم، ایک بات طے تھی کہ ٹرمپ امریکی عوام کے منتخب صدر تھے اور اُن پر کسی ادارے کی پُشت پناہی یا اقتدار میں لانے کا الزام نہیں تھا، اِسی لیے وہ اپنے مُلکی سسٹم سے کبھی بھی باہر نہ نکل سکے۔وہ چین، روس یہاں تک کہ اپنے اتحادیوں کے خلاف بھی بیانات دے دیتے، لیکن اپنی فوج، عدلیہ، پولیس اور تعلیمی اداروں کے بارے میں منفی باتیں نہ کرتے۔وہ’’ امریکا فرسٹ‘‘ کے نعرے لگاتے، لیکن دنیا بَھر کے رہنماؤں سے بھی ملتے۔ شمالی کوریا سے مذاکرات کیے اور مشرقِ وسطیٰ کی قیادت کو اسرائیل سے تعلقات پر آمادہ کیا۔ یہ ٹرمپ کی پالیسی نہیں تھی، بلکہ امریکی گرانڈ اسٹریٹیجی کا حصّہ تھی، جس کی اُنھوں نے چاہتے، نہ چاہتے پابندی کی۔

یورپ سے لے کر امریکا، روس اور چین تک قوم پرستی کے اثرات موجود ہیں۔ اِن کے قومی پرچموں، اعلیٰ شخصیات یا عوام کے خلاف پھیلائی جانے والے نفرت اب لمحوں میں سوشل میڈیا کے ذریعے اُن تک پہنچ جاتی ہے اور وہ اُس کا سختی سے نوٹس بھی لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا اب ایسا مادر پدر آزاد پلیٹ فارم بھی نہیں، جیسا ہمارے ہاں تاثر دیا جاتا ہے کہ جو دل کرے، بول اور لکھ دیں۔وہاں اس کے استعمال اور اثرات پر گہری نظر رکھی جاتی ہے۔ ہم ایک لحاظ سے دنیا کے سامنے خود کو ایکسپوز کر رہے ہیں کہ اُن سے متعلق ہماری کیا رائے ہے، جسے وہ یاد بھی رکھتے ہیں۔

اگر ہماری آرا محبّت، احسان مندی اور روا داری پر مشتمل ہیں، تو وہ کُھل کر سامنے آجاتی ہیں، اِسی طرح فریب، جھوٹ اور نفرت پر مبنی مہم بھی نظروں سے اوجھل نہیں رہتی۔یہ نفرت اور محبّت جو مختلف ممالک کی حکومتوں یا عوام کے خلاف کسی بھی شکل میں سامنے آتی ہے، اس کا جواب بھی اسی شکل میں ملتا ہے اور وہ بھی عموماً فوراً۔ اِسی لیے مختلف ممالک میں موجود تارکینِ وطن کو اپنے جذبات کے اظہار میں بہت زیادہ محتاط رہنا چاہیے۔شامی جنگ کے معاملے پر برطانیہ نے’’ جہادی دلہنوں‘‘ کو جس طرح مُلک بدر کیا، وہ جذباتی نوجوانوں کی آنکھیں کھول دینے کے لیے کافی ہے۔

سعودی عرب، تُرکی، ایران اور دیگر ممالک سے بھی آئے دن پاکستانی ڈی پورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ بہت سے پاکستانی وہاں مذہبی اور برادارانہ رشتوں کے باوجود سخت سزائیں بھگت رہے ہیں۔جب بھی کوئی پاکستانی حکم ران اُن ممالک کا دَورہ کرتا ہے، تو اُسے اِن قیدیوں کی رہائی کے لیے بھی درخواست کرنی پڑتی ہے۔ عمران خان کے زمانے میں ہزاروں پاکستانی سعودی عرب اور دوسرے خلیجی ممالک سے واپس لائے گئے، جو وہاں برسوں سے جیلوں میں پڑے تھے۔

ماہِ رمضان کے آخری دنوں میں مسجدِ نبویؐ جیسے بابرکت اور مقدّس مقام پر جس طرح بعض پاکستانیوں نے وزیرِ اعظم، شہباز شریف کے وفد کے ارکان کے خلاف نعرے بازی کی، اس نے تمام مسلمانوں کے سرشرم سے جُھکا دیے۔ اِس واقعے سے دنیا بھر میں پاکستان کا امیج بُری طرح مجروح ہوا۔ عاقبت نااندیش افراد کے اِس انتہائی توہین آمیز عمل سے دو طرفہ تعلقات پر منفی اثرات مرتّب ہوئے تو قانون شکن بھی مشکلات سے دوچار ہوئے۔

ہمیں فرانس اور دیگر ممالک کے انتخابات کا غور سے جائزہ لینا ہوگا اور اُن ممالک میں مقیم پاکستانیوں کو انتخابی نتائج کی روشنی میں ممکنہ اثرات پر اعتماد میں لیا جانا ضروری ہے تاکہ وہ حالات کے مطابق خود کو ڈھال سکیں۔اِس ضمن میں پاکستان کی سیاسی جماعتوں کی ذمّے داریاں بھی غیر معمولی طور پر بڑھ گئی ہیں۔ اُنھیں اپنے حامیوں کی اِس نہج پر تربیت کرنی ہوگی کہ وہ میزبان ممالک کے لیے مسئلہ بنیں اور نہ ہی پاکستان کو مشکلات سے دوچار کرنے کا سبب ہوں۔

ہماری سیاسی و قومی قیادت کو اِس امر کا ادراک ہونا چاہیے کہ قوم پرستی کی بڑھتی لہر میں تارکینِ وطن کو پاکستانی سیاست کی بھینٹ چڑھانا عقل مندی نہیں۔درحقیقت یہ اُن سے کُھلی دشمنی اور زیادتی ہے۔ اگر یہ رویّہ ترک نہ کیا گیا، تو پاکستانیوں کے لیے دوسرے ممالک میں روز گار اور شہریت کے دروازے بند ہوجائیں گے۔