جونیئر کرکٹ، ہر دور میں جعلی ڈگریوں اور کلائی ٹیسٹ کی روایت رہی

May 24, 2022

تین دہائیوں سے پاکستان کرکٹ کو نزدیک دیکھنے کے باوجود ایک حساس معاملہ ایسا ہے جس میں آج بھی متاثرہ فریق کبھی مطمین نظر نہیں ہوتا۔گراس روٹ کو کسی بھی ملک کی کرکٹ کی شہ رگ سمجھا جاتا ہے نچلی سطح سے آنے والے ٹیلنٹ سے ہی سپر اسٹار قومی ٹیم میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ہر دور میں جونیئر کرکٹ میں جعلی ڈگریوں اور جعلی کلائی ٹیسٹ کی روایت رہی ہے۔ ماضی میں پی سی بی حکام اور ڈاکٹرز بھی اس گھنائونے دھندے میں شامل رہے ہیں۔

مجھے یاد ہے کہ جب میں کراچی سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن اور پی سی بی بورڈ آف گورنرز میں تھا اس وقت اکثر والدین اپنے بچوں کے کیس لے کر میرے پاس آتے تھے۔ کچھ بچوں کے ساتھ واقعی زیادتی ہوتی تھی اور بعض کیسوں میں کلائی ٹیسٹ کرنے والے ڈاکٹر ذمے دار ہوتے تھے۔ دراصل پاکستان میں عمر کے تعین کے لئے جو سسٹم ہے اسے آئی سی سی بھی نہیں مانتا۔ لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کوشش کرتا ہے کہ ہر سال سسٹم میں بہتری لائے۔

انڈر 16 اور انڈر 19سطح پر کئی کھلاڑی اس سسٹم کی وجہ سے نظر انداز ہوجاتے ہیں۔ سابق کپتا ن شاہد آفریدی نے تو اپنی سوانح حیات میں اعتراف کیا کہ ان کی ریکارڈ میں موجود عمر درست نہیں ہے۔ آج بھی جبکہ دنیا بہت آگے جاچکی ہے ہم عمر تعین کے لئے جو سسٹم اپنا رہے ہیں اسے مکمل فول پروف قرار نہیں دیا جاسکتا۔

پاکستان کرکٹ بورڈ دعوی کرتا ہے کہ تمام کھلاڑیوں کو یکساں مواقع فراہم کرنے کے لئے پی سی بی نے اس سال سٹی کرکٹ ایسوسی ایشن انڈ 19 پچاس اوورز ٹورنامنٹ میں شریک 2976 کھلاڑیوں کے جدید سائنسی تقاضوں کے مطابق لیے جانے والے ایج ویریفیکیشن ٹیسٹ مکمل کرلیے ہیں۔ اس ضمن میں ملک کے معروف ریڈیولوجسٹ کی مشاورت کے ساتھ ساتھ عمر کا اندازہ لگانے کے لیے سائنسی طور پر توثیق شدہ طریقہ کارکا استعمال کیا گیا۔ مجموعی طور پر ایک کروڑ روپے مالیت سے مکمل کیے جانے والے ان ٹیسٹ کےدوران ہر کھلاڑی کے جسم کے مختلف حصوں کے ایکسریز کروائے گئے ہیں۔

جن کا جائزہ ممتاز ریڈیالوجسٹ نے خود لیا۔ اس سے قبل کھلاڑیوں کی درست عمر جاننے کے لیے صرف کلائی کے ایکسرے کروائے جاتے تھے۔ گزشتہ سال چند کھلاڑیوں کی جانب سے ایج گروپ کرکٹ میں غیرمنصفانہ فوائد حاصل کرنے کے لیے اپنی عمر میں ردوبدل کیے جانے کا انکشاف ہوا تھا، جس سے متعدد باصلاحیت کھلاڑیوں اور کھیل کی ساکھ کو نقصان ہوا تھا۔ اس اقدام کا مقصد ایج گروپ کرکٹ میں شریک نو عمر کھلاڑیوں کو ٹورنامنٹس میں شرکت کرتے وقت درست عمر بتانے کی ترغیب دینا ہے۔

پی سی بی اس سے قبل جنوری میں ایسوسی ایشنز کے انڈر 13 اور انڈر 16 ٹورنامنٹس میں شریک کھلاڑیوں کی بھی درست عمر جاننے کے لیے ایک بھرپورکاروائی کرچکا ہے۔ پی سی بی کہتا ہے کہ وہ سسٹم بنانے کے لئے آگے بڑھ رہے ہیں لیکن اس سال بھی کئی کھلاڑیوں نے شکایت کی ہے کہ وہ اس سسٹم سے متاثر ہوئے ہیں۔ پسند نا پسند کی وجہ سے کچھ کھلاڑیوں کو فائدہ پہنچا ہے اور پاکستان میں یہی ہوتا ہے کہ جس کے پاس تگڑی سفارش ہوتی ہے وہ اپنا کام نکلوالیتا ہے لیکن ہمیں اس مسلے پر پی سی بی کی نیت پر شک کرنے کے بجائے انہیں شک کا فائدہ دینا ہوگا۔

پی سی بی کہتا ہے کہ نئے سیزن میں شفافیت لانے کے لیے اٹھایا گیا یہ اقدام بہت اہم ہے۔ پی سی بی نے اس عمل کو مکمل کرنے کے لیے خطیر اخراجات اسی لیے برداشت کیے ہیں تاکہ پاکستان کرکٹ کے مستقبل کے ستاروں کی ساکھ کو بلند کیا جاسکے۔ پی سی بی نے پہلی مرتبہ کم عمر کی حد بھی متعارف کروادی ہے تاکہ کھلاڑیوں کی جانب سے سرکاری دستاویزات پر عمر کم کرنے کی حوصلہ شکنی کی جاسکے۔ یکم ستمبر 2003 کو یا اس کے بعد یا یکم ستمبر 2007 سے پہلے پیدا ہونے والے کھلاڑی ہی آئندہ سی سی اے انڈر 19 ٹورنامنٹ میں شرکت کے اہل ہوں گے۔

یہ ٹورنامنٹ21 مئی سے 4 جون تک جاری رہے گا۔ واقعی یہ کام مشکل ہے لیکن اگر پی سی بی کھلاڑیوں کی درست عمر کے تعین کے لئے مضبوط سسٹم لے آئے تو مستقبل میں اس کے اچھے اثرات سامنے آئیں گے اور اس کا فائدہ کھلاڑیوں کے ساتھ ساتھ پاکستان کرکٹ کو بھی ملے گا اور کھلاڑیوں کے والدین جعلی دستاویز کے چنگل سے بچیں گے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ امید پر دنیا قائم ہے۔