کابینہ نے کس کے کہنے پر کرپشن، ٹیکس نادہندگان والے رولز میں ترمیم کی؟ سپریم کورٹ کا سوال

May 27, 2022

فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے تفتیش میں حکومتی عہدیداروں کی مبینہ مداخلت کے ازخود نوٹس کی سماعت میں اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کابینہ نے کس کے کہنے پر کرپشن اور ٹیکس نادہندگان والے رول میں ترمیم کی؟کیا وفاقی کابینہ نے رولز کی منظوری دی ہے؟

تحقیقاتی اداروں میں حکومت کی مبینہ مداخلت پر ازخود نوٹس کی سماعت، چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ سماعت کر رہا ہے۔

نیب کے پراسیکیوٹر جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 174 نیب ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے، ملزمان کے نام نکالتے ہوئے اعتماد میں نہیں لیا گیا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نیب ملزمان کے نام رولز میں ترمیم کے بعد نکالے گئے۔

پراسیکیوٹر جنرل نے کہا کہ نیب نے کیے گئے تمام تبادلے معطل کردیے ہیں، مزید تبادلوں پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب، ای سی ایل رول 2010 کا سیکشن 2 پڑھیں، رولز کے مطابق کرپشن، دہشتگردی، ٹیکس نادہندہ اور قرض نادہندہ ملک سے باہر نہیں جاسکتے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کابینہ نے کس کے کہنے پر کرپشن اور ٹیکس نادہندگان والے قانون میں ترمیم کی؟ کیا وفاقی کابینہ نے قوانین کی منظوری دی ہے؟

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ کابینہ کی منظوری کے منٹس پیش کردوں گا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا 120 دن بعد ازخود نام ای سی ایل سے نکل جائے گا؟

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ دن کا اطلاق نام ای سی ایل میں شامل ہونے کے دن سے ہوگا۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ کابینہ کے ارکان خود اس ترمیم سے مستفید ہوئے، کابینہ اراکین اپنے ذاتی فائدے کیلئے ترمیم کیسے کرسکتے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا کوئی ضابطہ اخلاق ہے کہ وزیر ملزم ہو تو متعلقہ فائل اس کے پاس نہ جائے؟

سپریم کورٹ نے ای سی ایل سے نکالے گئے کابینہ ارکان کے ناموں کی تفصیلات طلب کرلیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا جانتے ہیں وفاقی وزراء پر ابھی صرف الزامات ہیں، ملزم وزراء کو تو خود ہی ایسے اجلاس میں نہیں بیٹھنا چاہیے۔

جسٹس اعجازالاحسن کا کہنا تھا کہ کیا سرکولیشن سمری کے ذریعے ایسی منظوری لی جاسکتی ہے؟ کابینہ کا کام ہے ہر کیس کا جائزہ لے کر فیصلہ کرے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ نیب کے مطابق ان سے پوچھے بغیر ملزمان کے نام ای سی ایل سے نکالے گئے۔

اعلیٰ عدالت نے کہا کہ ای سی ایل رولزمیں ترمیم کے بعد نظرثانی کا طریقہ کار ہی ختم ہوگیا، ای سی ایل رولز میں کابینہ کی ترمیم کیا مفادات کا ٹکراؤ نہیں؟

اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ دیکھ لیتے ہیں کہ وہ ممبران جن کے نام ای سی ایل میں تھے ترمیم والی کمیٹی اجلاس میں تھے یا نہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے ای سی ایل رولزمیں ترمیم تجویز کی تھی۔

عدالت نے کہا کہ اعظم نذیر تارڑ جس شخص کے وکیل تھے اسی کو فائدہ پہنچایا، کیا طریقہ کار اپنا کرای سی ایل رولزمیں ترمیم کی گئی؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ای سی ایل رولز میں ترمیم کے طریقہ کار سے متعلق رپورٹ جمع کرائیں۔

انہوں نے کہا کہ فی الحال ای سی ایل رولز میں ترمیم سے متعلق فیصلے کالعدم قرار نہیں دے رہے، قانون پرعمل کیلئے کچھ ضوابط ضروری ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنا چاہتے لیکن ریاست کے خلاف کارروائیوں پر سپریم کورٹ کارروائی کرے گی۔

سپریم کورٹ نے ڈی جی ایف آئی اے کو ذاتی حیثیت میں طلب کرلیا، جبکہ ڈائریکٹر لاء آپریشنز ایف آئی اے عثمان گوندل بھی ریکارڈ سمیت طلب کیا گیا ہے۔

وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے کیس میں ایف آئی اے افسران کے تبادلے سے متعلق ایف آئی اے رپورٹ پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے رپورٹ سے تاثر ملا کہ بہت سے معاملات کو غیرسنجیدہ اقدامات کے ذریعے کور کیا گیا۔

انہوں نے ریمارکس دیئے کہ وزارت قانون نے 13 مئی کو سکندر ذوالقرنین سمیت ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو معطل کیا۔

بظاہر ایف آئی اے پراسکیوٹرز کو کیس کی دو سماعتوں میں پیش نہ ہونے کی بنیاد پر معطل کیا گیا۔

عدالت نے کہا کہ کیا جن سماعتوں پر پیش نہ ہونے پر پراسکیوٹرز کو معطل کیا وہ نئی حکومت کے قیام کے بعد کی تھیں؟ کیا آپ نے پراسکیوٹرز کو یہ کہا کہ آپ پیش ہو نہ ہوں تو آپ فارغ ہیں؟

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ پراسکیوٹرزکو تبدیل کرنے کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا، تفتیشی افسر کو بھی بیماری کی وجہ سے تبدیل کیا گیا۔

عدالت کا کہنا تھا کہ تفتیشی افسر تبدیل ہونے کے ایک مہینہ بعد بیمار ہوا، ایف آئی اے پراسکیوشن ٹیم بظاہر مقدمہ کی کارروائی رکوانے کیلئے تبدیل کی گئی۔

چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا کہ آرٹیکل 248 وزراء کو فوجداری کارروائی سے استثنیٰ نہیں دیتا۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ چاہتے ہیں نظام قابل اعتماد انداز میں چلے، اعلیٰ حکام کے خلاف مقدمات میں مختلف سلوک زیادہ نوٹس میں آتا ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ حکومت آنے کے بعد وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب کے مقدمات میں کیا پیشرفت ہوئی؟ کیا وزیراعظم پر فرد جرم عائد ہوچکی ہے؟

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ وزیراعظم پر ابھی تک فرد جرم عائد نہیں ہوئی، وزیراعظم سمیت کسی نے کوئی استثنیٰ نہیں مانگا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے کے تفتیشی افسران کی تبدیلی کا ریکارڈ بھی مانگا تھا، کیا ایف آئی اے مقدمات کا ریکارڈ محفوظ ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے جواب دیا کہ ایف آئی اے کا تمام ریکارڈ محفوظ ہے۔

عدالت نے کہا کہ ریکارڈ میں کمی بیشی ہوئی تو ڈی جی ایف آئی اے ذمہ دار ہوں گے۔

جسٹس محمد علی مظہر نے استفسار کیا کہ کیا ریکارڈ کی سافٹ کاپی بھی ہوتی ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ تحقیقاتی ادارے ابھی اتنے ایڈوانس نہیں ہوئے۔

اس موقع پر سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس کیس کی سماعت غیر معینہ مدت کے یے ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے پراسیکیوشن میں حکومتی عہدیداروں کی مبینہ مداخلت پر 18 مئی کو ازخود نوٹس لیا تھا۔