غزل: کڑی ہے دھوپ بے سایہ شجر ہے...

June 26, 2022

کڑی ہے دھوپ بے سایہ شجر ہے

ہمیں در پیش یہ کیسا سفر ہے

بہت لمبی تھی فہرستِ رفیقاں

نہ جانے کون کیساہے، کِدھر ہے

دُعا بھی ہے خلاؤں میں معلّق

دوا بھی لگ رہا ہے بے اثر ہے

تم اِک جملے میں دل کی بات کہہ دو

صدی اکیسویں بھی مختصر ہے

مرے بچّے ہیں، بیوی اور مَیں ہوں

ہمارا ایک بس چھوٹا سا گھر ہے (حامد علی سیّد)