ہنر مندی، دست کاری میں پاکستانی خواتین کا کوئی ثانی نہیں

June 26, 2022

بات چیت:رؤف ظفر، لاہور

دُنیا بَھر میں خواتین کی صلاحیتوں کا چرچا ہے۔ درس گاہیں ہوں یا اسپتال، بینکس، سرکاری و نجی دفاتر، ریسرچ سینٹرز، ٹیکنیکل لیبارٹریز، رصدگاہیں، سماجی وفلاحی تنظیمیں، پرنٹ/ الیکٹرانک میڈیا، کاروباری ادارے، پولیس، مسلّح افواج یا فنونِ لطیفہ کے شعبہ جات، ایوانوں سے لے کر کارخانوں، کھلیانوں تک خواتین اپنی ضرورت، اہمیت و افادیت ثابت کررہی ہیں اور پاکستانی خواتین بھی پچھلے کئی عشروں سے لگ بھگ زندگی کے تمام ہی شعبہ جات میں اپنی صلاحیت و قابلیت اور اہلیت کا لوہا منوا رہی ہیں۔

ایسی ہی خواتین میں ایک نام، فائزہ امجد کا بھی ہے،جن کی ہمہ جہت کارکردگی پر نظر ڈالیں، تو شاید ہی کوئی شعبہ ایسا ہو، جو ان کی دسترس میں نہیں۔ فائزہ امجد نے ٹیکسٹائل ڈیزائننگ میں ماسٹرز ڈگری حاصل کی۔وہ مینا کاربوتیک، فائزہ امجد اسٹوڈیو، ہومیوپیتھک ہیپی ڈراپس اورسُپر ویمن فورم کی چیف ایگزیکٹیو آفیسر، فیڈریشن آف فیشن کاؤنسل کی چیئرپرسن اور ہومیوپیتھک معالج بھی ہیں۔

معروف ڈریس ڈیزائنر، سُپر ویمن فورم کی چیف ایگزیکیٹو، فائزہ امجد سے بات چیت

انہیں ایک ملٹی نیشنل مشروب ساز کمپنی کی پہلی خاتون ڈسٹری بیوٹر کا اعزاز بھی حاصل ہے، تو ویمن چیمبرآ ف کامرس اینڈ انڈسٹری، لاہور کی صدر، وفاقی محتسب برائے خواتین، احساس پاور ٹی ایلی ویشن پروگرام اور بیت المال کاؤنسل سمیت کئی اداروں اور این جی اوز کی رُکن بھی رہ چُکی ہیں۔

گزشتہ دِنوں ہم نے فائزہ امجد سے ان کی نجی اور پروفیشنل زندگی سے متعلق جاننے کے لیےایک ملاقات کی۔ تو لیجیے، اس نشست میں ہونے والی گفتگو کی تفصیل پیشِ خدمت ہے۔

نمایندہ ٔجنگ سے بات چیت کرتے ہوئے ( عکّاسی: عرفان نجمی)

س: خاندان، ابتدائی تعلیم و تربیت اور اپنے کام سے متعلق کچھ بتائیں ؟

ج: میرا تعلق ایک پڑھی لکھی فیملی سے ہے۔ مَیں نے جب ہوش سنبھالا، تو اپنے ارد گرد کشیدہ کاری کےدِل کش نمونے، رنگ برنگ حسین، جھلملاتے پیراہن، زیورات کی چمک دمک اور سجنے سنورنے کے سیکڑوں رنگ ڈھنگ دیکھے، کیوں کہ میری والدہ خود اِس پیشے سے وابستہ تھیں۔ مَیں نےابتدائی تعلیم کریسنٹ ماڈل اسکول ،شادمان کالونی، لاہور سے حاصل کی۔بعدازاں، ہوم اکنامکس کالج، لاہور سے ایم ایس سی، ٹیکسٹائل ڈیزائننگ کی ڈگری حاصل کی۔

دورانِ تعلیم والدہ کے ساتھ ڈریس ڈیزائننگ میں ان کا ہاتھ بٹایا اورمختصر سے عرصے میں میرے ڈیزائن کردہ ملبوسات فیشن کی دُنیا میں پسند کیے جانے لگے۔ پھر شادی ہوگئی اور اللہ تعالیٰ نے دو پیارے بچّوں سے بھی نواز دیا، لیکن مَیں نے اپنی پیشہ وارانہ مصروفیات میں تعطل نہ آنے دیا۔ اب چوں کہ بچّے بڑے ہوگئے ہیں، تو بوتیک اور دیگر کاموں کے لیے زیادہ وقت مل جاتا ہے۔

س: ڈریس ڈیزائننگ سے عملی زندگی کا سفر شروع کیا اور آج کئی شعبوں سے منسلک ہیں، تو اس حوالے سےبھی کچھ بتائیں ؟

ج: مَیں بنیادی طور پر ڈریس ڈیزائنر ہی ہوں۔ اور پھر جوں جوں اس شعبے کی باریکیاں سمجھتی گئی،کئی راستے خود بخود کُھلتے چلے گئے۔دراصل ڈریس ڈیزائننگ کی دُنیا بہت وسیع ہے، جس میں ہر طرح کے کلائنٹ سے واسطہ پڑتا ہے۔ مجھے شروع ہی سے اس بات کا احساس تھا کہ ہماری ہنر مند خواتین کو ان کی محنت کے مطابق معاوضہ نہیں ملتا۔ پاکستانی خواتین کشیدہ کاری، سلائی کڑھائی اور آرٹ ورک میں اپنا ثانی نہیں رکھتیں، لیکن ان کا سب سے بڑا مسئلہ مصنوعات کی مارکیٹنگ ہے، کیوں کہ انتہائی محنت سے تیار کردہ مصنوعات اونے پونے فروخت کرنے کاکوئی فائدہ نہیں۔

سو،جب مَیں لاہور ویمنز چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کی صدر منتخب ہوئی ، تو سب سے پہلے لاہور اور قرب و جوار کے دیہی علاقوں کی ہنر مند خواتین سے رابطہ کیا اور انہیں چیمبر آف کامرس کی رُکن بنایا، تاکہ چھوٹے سرمائے سے کام کرنے والی ان خواتین کی کاروباری افراد اور مختلف فرمز سے واقفیت ہوسکے۔ پھر انہیں قرضوں کے حصول کے لیے سہولتیں فراہم کیں۔آگہی سیمینارز اور ایگزی بیشنز کا انعقاد کیا، تاکہ عام اور پڑھی لکھی خواتین میں بھی کاروبار کارجحان فروغ پائے۔

ہماری ورکرز خواتین نے گھرگھر جاکر خواتین کو انٹرنیٹ اور فیس بُک کے استعمال کی تربیت دی ۔ اس کے علاوہ ممبرز خواتین کو ٹورازم ڈیویلپمنٹ کے اشتراک سے لندن، ملائشیا، ترکی اور روس کے دورے بھی کروائے گئے، تاکہ کاروباری وسعت کا اندازہ ہوسکے۔ تب ہی ماضی کی نسبت آج خواتین میں کاروباری سمجھ بوجھ پیدا ہورہی ہے، جس کی ایک بنیادی وجہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا استعمال ہے اور سب سے بڑھ کر آن لائن بزنس کا شوق ہے۔ جب مَیں صدر کے عُہدے پر فائز ہوئی تھی، تو خواتین ممبرز کی تعدا 1800 تھی، جو میرے دَور میں تین ہزار تک پہنچ گئی۔ اور آج تک اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہی ہورہا ہے۔ یہ دیکھ کر خوشی ہوتی ہے کہ ہمارا برسوں قبل لگایا پودا، اب ایک تن آور درخت بن گیا ہے۔

س: دیکھا گیا ہے، گاؤں دیہات ہی نہیں، بڑے شہروں میں بھی ہنر مند خواتین کو ان کی محنت کا پورا معاوضہ نہیں ملتا اور کمیشنڈ ایجنٹ زیادہ پیسے لے اڑتے ہیں؟

ج: چند سال پہلے تک تو معاملات ایسے ہی تھے، مگر اب صُورتِ حال بہت بدل گئی ہے۔ دیکھیں، جتنی محنت ہنر مند خواتین کرتی ہیں، مارکیٹنگ میں بھی اتنی ہی محنت درکار ہوتی ہے اور مارکیٹنگ کے بغیر کام کی تشہیر ’’جنگل میں مور ناچا ،کس نے دیکھا؟‘‘ کے مترادف ہے۔ ویسے، اب آگہی اور سوشل میڈیا کی بدولت دیہات میں رہنے والی ہنر مند، اَن پڑھ خواتین بھی بہت سمجھ دار ہوگئی ہیں اور انہیں معلوم ہے کہ ان کی مصنوعات کی بازار میں کتنی وقعت ہے۔

اس لیے وہ خود بھی کسی صُورت کمپرومائز نہیں کرتیں اور پورا معاوضہ لیتی ہیں۔ میرا آج بھی ملتان اور بہاول پور سے متصل دیہات میں ہنر مند خواتین سے رابطے کا سلسلہ جاری ہے۔ اور ایک منظم طریقے سے ہماری ممبرز خواتین، ہنر مند خواتین کے گھر جاکر معاوضہ ادا کرتی ہیں۔ ہم ایسی متعدّد گم نام ہنر مند خواتین کو معیشت کے قومی دھارے میں شامل کرنے کی بَھرپور کوشش کر رہے ہیں اور پھر سب سے بڑھ کریہ کہ خواتین خود بھی آگے آرہی ہیں کہ منہگائی کےاس دَورمیں اُن کا پیشہ، اُن کی ضرورت بن چُکا ہے۔

س: خواتین دست کاری کے کن کاموں میں زیادہ مہارت رکھتی ہیں اور آپ نے ان سے کام لینے کا کیا طریقۂ کار اپنا یا ہے ؟

ج: زیادہ تر خواتین مکیش، سلمیٰ ستارےاور پچی کاری کے کام میں ماہر ہیں۔رہی بات کام لینے کے طریقۂ کارکی، تو واٹس ایپ، فیس بُک، انسٹا گرام اور یوٹیوب جیسی سہولتوں نے اب کام بہت آسان کردیا ہے۔ خواتین اپنے ڈریس ڈیزائننگ کے نمونے واٹس ایپ پر بھیج دیتی ہیں اور مَیں ان خواتین کو گروپ میں شامل کرکے کاروباری افراد سے ملوا دیتی ہوں۔ یوں گھر بیٹھے ان کی مصنوعات کی مارکیٹنگ کا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ الحمدللہ، یہ سلسلہ روز بروز وسعت اختیار کر رہا ہے۔

س: آج کل فیشن نگری میں کون سا اسٹائل ان ہے؟

ج: اب چوں کہ دُنیا ایک گلوبل ویلیج بن چُکی ہے، تو کسی ایک مُلک کا فیشن راتوں رات پوری دُنیا میں مقبولیت حاصل کرلیتا ہے۔ ویسے، آج کل بھارت میں چکن کاری کا فیشن مقبول ِعام ہے، جسے وہ پوری دُنیا میں ایکسپورٹ کر رہا ہے۔

حالاں کہ ہاتھ کی سلائی کڑھائی اور کشیدہ کاری وغیرہ بہاولپور، ملتان اور جنوبی علاقوں کی ہنر مند خواتین کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اور اگر ان خواتین کی سرکاری سطح پر سرپرستی اور حوصلہ افزائی کی جائے، تو ہم ملبوسات اور فیشن انڈسٹری میں بھارت سے کہیں زیادہ زرِمبادلہ کما سکتے ہیں، لیکن اکثر سرکاری محکموں کو اس طرف توجّہ دینے کی فرصت ہی نہیں۔بہرحال، میری زندگی کا ایک مقصد یہ بھی ہے کہ ہنر مند خواتین کے ٹیلنٹ کو منظرِعام پر لاکر انہیں خوش حال زندگی کے ہر ممکن مواقع فراہم کروں۔

س: خواتین کے لیے کون سا کام زیادہ منافع بخش ثابت ہوسکتا ہے؟

ج: خواتین کے لیے کئی ایسے کاروبار ہیں، جو سوچ سے کہیں زیادہ منافع بخش ثابت ہوتے ہیں۔ جیسا کہ پنجاب کے ایک دور دراز شہرکی رہایشی خاتونِ خانہ نے بہاول پور، ملتان اور ڈیرہ اسماعیل خان سے ہاتھ کی کڑھائی والے ملبوسات، پردے، کراکری اور کھلونےخرید کر ان کی فروخت شروع کی اورچند ہی دِنوں میں کاروبار چمک اُٹھا۔ اب تو گھر میں اچار، دہی بڑے، فروٹ چاٹ، سموسے، کچوریاں، رشین سلاد بنانا بھی عام سی بات ہے۔

کئی خواتین گھروں سے کھانا بنا کر دفاتر کو سپلائی کررہی ہیں اور گھر بیٹھے تن خواہ دار افراد سے زیادہ اچھا کمالیتی ہیں۔ آرٹ ورک اور گرافک ڈیزائننگ کی آن لائن بہت مانگ ہے۔ اسی طرح مصنوعی زیورات گھر میں تیار کرکے یا مارکیٹ سے خرید کر آگے فروخت کیے جا سکتے ہیں۔ پھر آج کل کشیدہ کاری ، خاص طور پر سلائی کڑھائی کا کام تو بہت منافع بخش ثابت ہورہا ہے، کیوں کہ خواتین، پیشہ ور درزیوں کے تاخیری حربوں اور سلائی کی ہوش رُبا قیمتوں سے بہت تنگ ہیں۔

ڈریس ڈیزائننگ کی بھی ایک الگ دُنیا ہے۔ نیز، زیرِ تعلیم اور پڑھی لکھی خواتین ٹیوشنز پڑھا کر اچھا کما سکتی ہیں۔ غرض کہ منہگائی کے اس دَور میں ہر خاتون اپنے ماحول اور دستیاب سہوتوں کو مدِّنظر رکھتے ہوئے گھر چلانے میں اپنا حصّہ ڈال سکتی ہے۔ تجارت انبیاء ؑ کا پیشہ ہے اور اس میں برکت بھی ہے۔ حضرت خدیجہؓ تجارت ہی سے وابستہ تھیں، تو اس ضمن میں انؓ کے رہنا اصول بھی اپنائے جاسکتے ہیں۔

س: آپ مختلف النّوع سرگرمیوں سے منسلک ہیں، تو ذرا اُن پر بھی روشنی ڈالیں؟

ج: مَیں نے ہومیوپیتھک کا 4 سالہ کورس صرف اس لیے کیا،تاکہ مستحق علیل خواتین کا علاج کر سکوں۔ اس کے علاوہ ایک معروف فارما فیکٹری کے اشتراک سے عام امراض کے کمپاؤنڈ خود تیار کروائے ہیں، جن کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ پھر مجھے اَن پڑھ، نادار گھریلو ملازمین کو چاہے مَرد ہوں یا خواتین پڑھانے کا بھی شوق ہے اور اب تک کئی افراد کو پڑھا لکھا کر اس قابل کردیا ہے کہ وہ اخبار اور کتابیں پڑھ سکیں۔

بعض گھریلو ملازمین نے بعد ازاں اپنے شوق کی بناپر میٹرک اور ایف اے کا امتحان بھی پاس کیا۔ مَیں اپنے حلقے میں تمام خواتین کو مسلسل قائل کرتی رہتی ہوں کہ وہ اپنے یا دیگر گھروں میں کام کرنے والے ان پڑھ گھریلو ملازمین کو لکھنا پڑھنا سکھائیں۔ کاش کہ حکومت پھر سے اس قانون پر سختی سے عمل کروائے کہ جس کے تحت بی اے کی ڈگری سے قبل کسی ایک ان پڑھ کو پڑھانا لازم تھا۔

مستحق اور نادار خواتین کو آسان قرضے دے کر انہیں اپنے پائوں پر کھڑا کرنا بھی ہمیشہ سے میرانصب العین ہے۔ اس کے علاوہ اپنے حلقے سے وابستہ خواتین کو اچھے رشتے طے کروانے کی طرف بھی مائل کرتی ہوںکہ یہ آج کل ہر دوسرے فرد کا، چاہے وہ کسی طبقے سے تعلق رکھتا ہو، دیرینہ مسئلہ ہے۔ میری نظر میں گھر بیٹھی لڑکی کا اچھارشتہ تلاش کرنا ایک بڑی نیکی ہے۔اور اگر یہ نیک کام دیانت داری سے کیا جائے، تو اُن پیشہ وَر شادی دفاتر سے جان چھوٹ سکتی ہے، جن کے چنگل میں اِس وقت بھی لاکھوں سفید پوش خاندان پھنسے ہیں۔

شادی شدہ ورکنگ ویمن کے بچّوں کے لیے نرسریز کا قیام بھی میری زندگی کا ایک اہم مقصد ہے، مگر یہ کام سرکاری معاونت کے بغیر ممکن نہیں۔ البتہ مَیں نجی اداروں کو تو کسی حد تک قائل کرنے میں کام یاب رہی ہوں۔ چوں کہ خواتین کی کثیر تعداد سرکاری اور نیم سرکاری دفاتر میں کام کرتی ہے، جہاں دفتر جانے سے قبل شیرخوار بچّوں کو دوسروں کے حوالے کرنا پڑتا ہے اور اکثر خواتین مطمئن نہیں ہوتیں، تو اس مقصد کے لیے حکومت کو وسیع پیمانے پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگرچہ کاغذوں کی حد تک یہ سہولت دستیاب ہے، مگر عملی طور پرنہیں۔

س: وفاقی محتسب برائے انسدادِ ہراسانی شعبے سے بھی وابستہ رہیں، تو اس سے متعلق بھی بتائیں؟

ج: جی بالکل، مَیں نے بطور ممبر کئی ایسے کیسز دیکھے، جن میں دفاتر میں کام کرنے والے خواتین، مَردوں کے ہاتھوں ہراسانی کی شکایات کرتی ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق 2020ء کے ابتدائی تین ماہ میں جنسی ہراسانی کے واقعات میں دو سو گنا اضافہ دیکھا گیا اور بعد میں بھی کم و بیش یہی شرح رہی۔

اصل میں جوں جوں خواتین ورکرز کی تعداد میں اضافہ ہورہا ہے، مَردوں کی جانب سے ہراسانی کے واقعات کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔ چوں کہ اب خواتین پہلے سے زیادہ باشعور ہوگئی ہیں اور وہ کسی ڈر و خوف کے بغیر اپنی شکایات درج بھی کرواتی ہیں، تو اُمید تو یہی ہے کہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات میں کمی واقع ہوگی۔

س: آپ نے دورانِ تعلیم اپنی ماں کا ہاتھ بٹایا، تو کیا یہ روایت آپ کے بچّوں نے بھی قائم رکھی ہے؟

ج: جی بالکل، میرا بڑا بیٹا حمزہ عثمان گلوبل سائنسز میں ماسٹرز کررہا ہے، جب کہ بیٹی ماہم عثمان او لیول میں ہے۔ اور دونوں ہی میرا ہاتھ بٹاتے ہیں۔ ماہم کو کووِڈ-19کے وبائی ایّام میں گورنر پنجاب کی جانب سے ’’کووِڈ چیمپئن‘‘ کا اعزاز بھی مل چُکا ہے کہ اس نے کورونا وائرس کے وبائی ایّام میں گھر میں کھانے بناکر آن لائن فراہم کیے اور دیگر خواتین کو بھی اس کام کی جانب راغب کیا۔

اگرچہ فی الوقت صنعت و تجارت پر مَردوں کی اجارہ داری ہے، مَیں اسے چیلنج نہیں کرنا چاہتی، لیکن مجھے اتنا یقین ہے کہ خواتین بھی اس شعبے میں مَردوں سے کسی طور کم نہیں۔

س: کوئی پیغام دینا چاہیں گی؟

ج: خواتین کو یہ پیغام دینا چاہوں گی کہ وہ تعلیم کے ساتھ کوئی نہ کوئی ہنر ضرور سیکھیں، اپنی صلاحیتوں پر بھروسا رکھیں، محنت سے جی نہ چرائیں کہ محنت ہی میں عظمت ہے۔