وزیرِ اعلیٰ پنجاب کے الیکشن کیخلاف اپیل، حمزہ شہباز کے وکیل کے دلائل مکمل

June 29, 2022

—فائل فوٹو

لاہور ہائی کورٹ میں وزیرِاعلیٰ پنجاب کے الیکشن کے خلاف تحریکِ انصاف کی اپیلوں پر سماعت کے دوران وزیرِاعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز کے وکیل نے دلائل مکمل کر لیے۔

تحریکِ انصاف کی اپیلوں پر جسٹس صداقت علی خان کی سربراہی میں 5 رکنی بینچ نے سماعت کی۔

بینچ میں جسٹس شاہد جمیل، جسٹس شہرام سرور، جسٹس ساجد محمود سیٹھی اور جسٹس طارق سلیم شیخ بھی شامل ہیں۔

دورانِ سماعت اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی سبطین خان اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب شہزاد شوکت کمرۂ عدالت میں موجود تھے۔

عدالت نے صدرِپاکستان کے وکیل احمد اویس کو روسٹرم پر بلا لیا۔

جسٹس صداقت علی خان نے ان سے استفسار کیا کہ صدر سے متعلق جو ریمارکس سنگل بینچ نے دیے اس پر کیا کہیں گے؟

احمد اویس نے جواب دیا کہ استدعا ہے کہ عدالت سنگل بینچ کے صدر کے خلاف ریمارکس کو کالعدم قرار دے۔

جسٹس ساجد محمود سیٹھی نے کہا کہ کیا آپ یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ صدر کے خلاف ریمارکس ان کو سنے بغیر دیے گئے۔

عدالت نے کہا کہ احمد اویس صاحب! آپ اسے نوٹ کر لیں، آپ کو کچھ دیر میں سنتے ہیں۔

جسٹس شاہد جمیل نے کہا کہ پہلے ہم حمزہ شہباز کے وکیل کو سنیں گے، وکیل دلائل دیں کہ کیا سپریم کورٹ کے فیصلے کا اطلاق ماضی سے ہو گا یا نہیں؟

حمزہ شہباز کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ جب تک نہ کہے اس کے فیصلے کا اطلاق ماضی سے نہیں ہوتا، حقیقت یہ ہے کہ حمزہ شہباز کا بطور وزیرِاعلیٰ الیکشن چیلنج ہی نہیں ہوا، مختلف ایونٹس کو چیلنج کیا جاتا رہا لیکن الیکشن چیلنج نہیں ہوا۔

اس کے ساتھ ہی حمزہ شہباز کے وکیل نے اپنے دلائل مکمل کر لیے، جبکہ تحریکِ انصاف کے وکیل بیرسٹر علی ظفر روسٹرم پر آ گئے۔

پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ عدالت اس معاملے پر ماضی یا مستقبل کے نکتے پر نہ جائے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد کر دیا جائے۔

عدالت نے بیرسٹر علی ظفر سے کہا کہ آپ الیکشن کے فوری بعد عدالت میں نہیں آئے، آپ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آئے ہیں، اس کی وضاحت بھی ضروری ہے۔

جسٹس شاہد جمیل خان نے سوال کیا کہ کیا عدالت حمزہ شہباز کے وزیرِاعلیٰ بننے کا نوٹیفکیشن کالعدم کر سکتی ہے؟

جسٹس صداقت علی خان نے استفسار کیا کہ کیا یہ عدالت پریزائیڈنگ افسر کا کردار ادا کر سکتی ہے؟

بیرسٹر علی ظفر نے جواب دیا کہ منحرفین کے ووٹ شمار نہیں کیے جاتے تو پریزائیڈنگ افسر کو دوبارہ الیکشن کی ہدایت کرنا پڑے گی۔

جسٹس صداقت علی خان نے کہا کہ عدالت صرف پریزائیڈنگ افسر کو کہہ سکتی ہے کہ منحرفین کے ووٹ شمار کر کے غلط کیا گیا۔

بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ دوبارہ انتخاب ہو گا مگر حمزہ شہباز کا نوٹیفکیشن کالعدم ہو گا۔