نسلوں کی امین

August 14, 2022

قا نتہ رابعہ، گوجرہ

ساجدہ پروین بھی اپنی برادری یا محلّے ہی میں نہیں، شہر بَھر میں اپنے نام کی ایک ہی تھیں۔ کبھی کبھار میاں جل کر کہتے ’’دنیا گھوم لو، لیکن ساجدہ بیگم جیسا پیس ڈھونڈے سے نہیں ملے گا۔‘‘ وہ نیکوں میں بہت نیک اور بُروں میں بھی بہت نیک تھیں۔ نہیں ہوتا ناں آج کل کوئی ایسا، پر وہ تھیں۔ بُرائی کا جواب بھلائی سے دینے والی، دشمنوں کو سینے سے لگانے والی، حد درجہ نرم دل، ہم درد، ہر کسی کے دُکھ درد میں کام آنے والی۔ پھر اوپر والا بھی اُن پر مہربان رہتا کہ وہ راہِ خدا میں ایک دیتیں، تو اوپر والا پلٹا کر دُگنا، چوگنا دیتا۔

گھر میں مال و دولت کی کمی نہ تھی، مگر سادگی کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا تھا۔ گھر میں دن بھرملنے جُلنے والوں کا آنا جانا لگا رہتا، خاطر مدارات میں بھی کسی سے پیچھے نہ رہتیں۔ مدد ایسے چُپکے سے کرتیں کہ حقیقتاً دوسرے ہاتھ کو بھی پتا نہ چلتا۔ بند مُٹّھی سے یوں رقم ضرورت مند کے ہاتھ پہنچتی کہ کسی کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوتی ۔ وہ اپنے، پرائے سب سے یک ساں محبّت کرتیں۔ غریبی، امیری ان کے نزدیک کم ظرفوں کے پیمانے تھے، وہ تو بس مخلوقِ خدا کی خدمت میں آگے نکلنے والوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھتیں۔

ان کے ہاں غریب بھی اُتنی ہی عزّت و مہمان نوازی کا حق دار ٹھہرتا، جتنا امیر۔ وہ ہر لحاظ سے بہت مخلص اور محبّت کرنے والی خاتون تھیں، لیکن ان میں ایک بات اور ان کےگھر کا ایک اصول تھا، جس پر سختی سے عمل درآمد ہوتا، جس سے کبھی کبھار ان سے ملنے جلنے والے بھی نالاں ہوجاتے اور وہ یہ کہ ان کے گھر میں بھارتی مصنوعات کے استعمال، فلمیں، ڈرامے دیکھنے اور گانے سُننے پر مکمل پابندی تھی، گویاوہ حبّ الوطنی کا چلتا پھرتا نمونہ تھیں۔

ساجدہ پروین کے پانچ بچّے (تین بیٹے اور دوبیٹیاں) تھے۔ پانچوں کی شادیاں خُوب دھوم دھام سے ہوئیں، کسی چیز کی کوئی کمی نہ رکھی گئی، یہاں تک کہ مہمانوں کو ریٹرن گفٹس تک دیئے گئے، لیکن رشتے طے کرتے وقت ساجدہ پروین نے دو ٹوک انداز میں بتادیا تھا کہ شادی میں کوئی ہندوانہ رسم ہوگی، نہ ناچ گانا۔ یہی نہیں، اگر کبھی ان کا کوئی بچّہ کسی بھارتی اداکارہ یا اداکار کا نام بھی لے لیتا، تو امّاں اس سے ہفتوں بات نہ کرتیں۔ انہیں تو جیسے بھارت، ہندو بنیے سے نفرت ہی نہیں، کوئی اللہ واسطے کا بَیر تھا۔

ایک بار محلّے کی ایک شادی میں جب ایک لڑکی نے کسی بھارتی گانے پر ڈانس کیا، تو وہ خود پر قابو نہ رکھتے ہوئے چیخ ہی پڑیں کہ ’’میری بات بھلے نہ مانو، اپنے ربّ کی تو مان لو۔ تم لوگ کس نافرمان قوم کی اندھی تقلید میں لگ گئے ہو، بچھڑے کو پوجنے والی قوم، جو شرک کرتی ہے۔ ارے بھئی، تفریح کے نام پر یہ کیسا نشہ سوار ہوجاتا ہے تم لوگوں پر، جو اپنا مذہب، تہذیب، درخشاں روایات سب فراموش کر بیٹھتے ہو۔ یہ کون سی خوشیاں منائی جا رہی ہیں، جن کی ابتدا ہی اللہ کی نافرمانی سے ہوتی ہے۔‘‘ بات بہت گہری تھی، تو کسی کی مجال نہ ہوئی کہ آگے سے چوں بھی کرے۔

انہوں نے اپنے بچّوں کی پرورش بھی کچھ اس انداز سےکی تھی کہ اُنہیں بھی ہندوانہ تہذیب سے کوئی رغبت نہ تھی۔ بھلے زمانہ پینڈو کہے یاکم عقل انہوں نے کبھی پروا نہیں کی، البتہ جب بچّوں کے بچّے پیدا ہوئے، اور بے حیائی کا عفریت میڈیا کے ذریعے گھروں میں داخل ہونا شروع ہوا، تو پہلی مرتبہ ساجدہ بیگم کو بے بسی کا سامنا کرنا پڑا کہ اپنی اولاد تو چھے فٹ سے اوپر کی ہو کر بھی امّاں کی تابع دار ہی رہی، کبھی امّاں کے سامنے آواز بلند کی، نہ بھارت سے نفرت کا کوئی جواز مانگا، لیکن ان کی اولاد، یہ نئی نسل ’’مَیں نہ مانوں‘‘، کی عملی تفسیر تھی۔ انہیں ہر معاملے میں ستّر مَن وزنی دلائل چاہیے تھے، وہ دنیا میں رہ کر دنیا کے مگر مچھ سے بیر نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ ان کا تو کہنا تھا کہ ’’اگر ساری دنیا بالی ووڈ اداکاروں کی باتیں کرتی، فلمیں دیکھتی ہے، تو ہم کیوں نہ دیکھیں، ہم کیوں زمانے کے ساتھ نہ چلیں، ہم کیوں کسی سے پیچھے رہیں…‘‘

’’بتائیں ناں دادو، ہم کیوں پیچھے رہیں، ہم کیوں بالی ووڈ فلمیں نہیں دیکھ سکتے، ہمارے گھر کا ماحول باقی محلّے والوں، ہمارے دوستوں کے گھروں سے اتنا مختلف کیوں ہے؟‘‘ سعدیہ نے اپنی دادی سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا۔ ’’بیٹا! ہم نے اُن سے اس لیے آزادی نہیں چھینی تھی کہ دوبارہ اُن کے غلام بن جائیں۔ اصل میں تم لوگوں نے غلامی کی زندگی دیکھی ہی نہیں ہے، اس لیے یہ سوال کرتے ہو۔‘‘ ساجدہ پروین نے پوتی کی چوٹی باندھتے ہوئے بہت پیار سے سمجھایا، لیکن اُسے بات سمجھ نہیں آئی۔ خیر، کچھ ہی روز بعد عیدالاضحی کی تیاریاں شروع ہوگئیں۔

اُن کے گھر بھی قربانی کے جانور آچُکے تھے، نواسے نواسیاں، پوتے، پوتیاں سب بہت خوش تھے۔ تو ساجدہ بیگم نے موقع غنیمت جان کر بات نکالی، ’’مَیں سوچ رہی ہوں کہ اس بار ان جانوروں کی قربانی کے بجائے، انہیں فروخت کرکے اس پیسے سے کسی غریب کی مدد کردیتے ہیں اور اب سے ہم سب گوشت نہیں کھائیں گے کہ اب ان معصوم جانوروں کا قتلِ عام بند ہونا چاہیے۔ ارے بھئی، یہ تو سراسر ناانصافی ہے کہ مذہب کے نام پر بےزبانوں کا خون بہایا جائے۔ ٹھیک کہہ رہی ہوں ناں مَیں؟‘‘ دادو/نانو کی باتیں سُن کر تو جیسے سب بچّوں پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ’’لیکن دادو! یہ تو سنّتِ ابراہیمیؑ ہے، ہم صاحبِ حیثیت بھی ہیں، تو ہم پر تو قربانی فرض ہے۔ اگر ایسا نہ کیا، تو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ہوگی۔‘‘

حمنہ نے جذباتی ہوتے ہوئے کہا، تو باقی بچّے بھی اس کی ہاں میں ہاں ملانے لگے۔ ’’لیکن تم جس مُلک سے دوستی کی دُہائیاں دیتے نہیں تھکتے، جن لوگوں کی تقلید تمہیں، وہ کیا کہتے ہیں، ’’کُول‘‘ بناتی ہے، وہ تو جانوروں کی قربانی کو ظلم و زیادتی سمجھتے ہیں۔ رات، دن جس مُلک کے نغمے، گانے تمہاری زبانوں پہ رہتے ہیں، جس سے آزادی حاصل کرنا تمہیں غلط، جذباتی فیصلہ لگتا ہے، وہاں تو گائے کو ’’گاؤ ماتا‘‘ کہا جاتا ہے، اس کا پیشاب تک متبرّک سمجھتے ہیں، تو اب تم لوگ کیا کروگے؟ کیوں بیٹا محسن! تم ہی تو پچھلے ہفتے کہہ رہے تھے کہ قیامِ پاکستان ایک جذباتی فیصلہ تھا۔

دونوں ممالک کے عوام بھائی بھائی ہیں، تو ذرا بتاؤ، وہاں رہتے ہوئے تم اپنے مذہبی عقائد پر کیسے عمل کرتے، کیا تم لوگوں کو معلوم ہے کہ بھارت میں رہنے والے مسلمانوں کو اقلیت سمجھا جاتا ہے، وہ کُھلے عام ذبیحہ کر سکتے ہیں، نہ اپنے اسلامی شعائر پر عمل۔ وہاں کے کچھ تعلیمی اداروں میں تو سر ڈھانپنے تک کی اجازت نہیں، پھر کس منہ سے کہتے ہو کہ آزادی حاصل کرنا ایک جذباتی، جلدبازی میں کیا گیا فیصلہ تھا…؟؟‘‘ ساجدہ بیگم آج دلائل پہ دلائل دئیے جارہی تھیں، جب کہ ہر بات پر جواز مانگنے والے بچّوں کو چُپ لگی تھی۔ ’’میرے بچّو! بات یہ ہے کہ فلمی دنیا اور حقیقی دنیا میں زمین ،آسمان کا فرق ہوتا ہے۔

تم لوگ جو بات کرتے ہو، وہ بھارتی ڈرامے، فلمیں دیکھ کر کرتے ہو، جہاں سب ’’اچھا اچھا ‘‘دکھایا جاتا ہے، لیکن حقیقت اس کے بالکل برعکس ہے۔ مَیں تم لوگوں کو نصیحت نہیں، وصیت کررہی ہوں کہ ہندو بنیے کے دھوکے میں ہرگزمت آنا۔ میرے بس میں ہو تو کفن کے ساتھ پاکستان کا پرچم قبر میں لے جاؤں۔ تم لوگ کہتےہو ناں کہ’’ مَیں دقیانوسی سوچ کی حامل ہوں، اپنی اولاد سے بڑھ کر پاکستان کے لیے دُعائیں مانگتی ہوں، ‘‘ارے تم کیا جانو کہ تمہاری دادو کون ہیں، کہاں سے آئی ہیں؟ ‘‘ یہ کہتے کہتے ساجدہ بیگم کی آواز بھرّا گئی، آنسو بہہ نکلے اور ہچکیاں بندھ گئیں۔ ’’ مَیں ہندو ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھی۔ہمارے پڑوس میں مسلمان رہتے تھے، مجھے اُن کے گھر جانا، اُن کی نماز، روزہ بہت اچھا لگتا۔

بہت چھوٹی عُمر میں مجھے ہندو دھرم سے زیادہ اسلام کے بارے میں معلومات حاصل ہوگئی تھی۔ مَیں شاید آٹھ ، نو برس کی تھی کہ ایک روز خواب میں چاروں طرف آسمان سے نور کی برسات دیکھی ،ہر طرف درود و سلام کی صدائیں گونج رہی تھیں۔ جیسے مَیں کسی باغ میں تھی اور ٹھنڈا، میٹھا مشروب پینے ہی والی تھی کہ ماتا جی کی آواز سے میری آنکھ کُھل گئی۔ ابھی مَیں اس خواب کے سحر سے نکل بھی نہ پائی تھی کہ ماتا جی نے ایک پیالا پکڑایا اور کہا’’یہ پی لے…‘‘ ،اُس سے اُٹھنے والی بدبو بتا رہی تھی کہ وہ گاؤ موتر ہے، جسے ہمارے گھر میں متبرّک سمجھ کرپیا جاتا تھا۔ جب مَیں نے وہ پینے سےانکار کیا، تو امّاں نےخُوب ماراپیٹا اور سزا کے طور پر گائے کے ساتھ باندھ دیا۔ مَیں سارا دن بھوکی پیاسی رہی۔

اُس رات جیسے سچ مُچ آسمان سے نُور کی بارش ہوئی، پاکستان بننے کا اعلان ہو چُکا تھا، ہمارے مسلمان پڑوسی، اپنا سب کچھ چھوڑ کرایک آزاد مُلک، اپنے وطن جارہے تھے، میرا دل اللہ کی وحدانیت سے منوّر ہو چُکا تھا۔ مَیں ہزار جتن کرکے طبیلے سے نکل کر پڑوس جا پہنچی اور اُن کی منّت سماجت کی کہ ’’مجھے بھی اپنے ساتھ لے چلیں، مَیں اس غلاظت میں نہیں، شرک سے پاک ماحول میں رہنا چاہتی ہوں۔ اور اُن لوگوں نے بھی اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے، مجھے نہ صرف پناہ دی، بلکہ اپنے ساتھ پاکستان لے آئے۔ تمہارے دادا مجھے پناہ دینے والے اسی مسلمان خاندان کے بھتیجے ہیں۔ اب تم لوگ خود سمجھ دار ہو ، خود دیکھو کہ ایک ہندو کی بیٹی کو مسلمانوں نے کس قدر عزّت دی کہ اپنی نسلوں کی امین بنا دیا۔

تم لوگوں کو اپنی حقیقت بتانے کا مقصد آزادی کی قدروقیمت سمجھانا تھا۔ میرے بس میں ہو تو ہر دن جشنِ آزادی مناؤں۔ کاش! کہ مَیں تم لوگوں کو وہ مناظر الفاظ میں بتا پاتی ، جو مَیں نے ہجرت کے وقت دیکھے تھے، اےکاش! تم لوگ سمجھ پاؤ کہ یہ مُلک کس قدر قربانیوں کے بعد حاصل کیا گیا ہے، اے کاش! تم لوگ میری ان اذیّتوں کا اندازہ لگا سکو، جو مجھے بھارتی گانے سُن کر ہوتی ہے۔ جس وقت مَیں اس مُلک کی حدود میں داخل ہوئی، آزاد فضاؤں میں سانس لی، تو مجھے زندہ ہونے کا احساس ہوا۔ میرے بس میں ہو تو جہاں بیٹھوں، سجدۂ شکر ادا کروں کہ مجھے یہاں کوئی گائے کا پیشاب پینے پر، گائے کا گوبر خرید نے پر مجبور نہیں کرتا، یہ مُلک ، صرف مُلک نہیں، میرے ربّ کا انعام ہے۔‘‘ساجدہ بیگم یہ سب بتاتے بتاتے نم دیدہ ہوگئیں، جب کہ سارے بچّوں کے سر شرم سے جُھکے ہوئے تھے۔