پاکستان ہمارے عمل کا منتظر

August 14, 2022

روبینہ فرید، کراچی

آج سے 75سال قبل دُنیا نے ایک خواب کو حقیقت بنتے دیکھا، جب ایک نظریے پر ایمان نے ایک قوم کو جنم دیا اور اُس قوم نے اپنے نظریےپر عمل کی خاطر لازوال قربانیوں کے عوض ایک خطہ ٔ زمین حاصل کر لیا۔ رمضان المبارک کے بابرکت مہینے اور عظمت والی رات میں اللہ تعالیٰ نے برِّصغیر کے مسلمانوں کی نیّت اور قربانیاں کو قبول فرما کے ایک تحفۂ آزادی ’’پاکستان‘‘کی شکل میں عطا کیا،جومحض ایک خطّۂ زمین نہیں، عشق و جنون کی ایک لازوال داستان کا نام ہے۔ قوموں کا عروج و زوال ایک دِن کی بات نہیں ہوتی کہ یہ عمل برسوں پر محیط ہوتا ہے۔

جس قوم کے حکم ران عادل، بہادر، باکردار اور عوام النّاس بنیادی اخلاقی صِفات پر عمل پیرا ہوں، تو وہی قومیں دُنیا میں ترقّی کی منازل طے کرتی ہیں۔اس کے برعکس جہاں حکم ران ذاتی حیثیت و آرام کے خوگر ہو جائیں، ریاست کے تحفّظ کے لیے چوکنّا نہ رہیں اور عدل کی جگہ ظلم رواج پانے لگے، تو ریاست کے ستون بھی کم زور ہونے لگتے ہیں۔ نیز، اگر ان حالات میں عوام النّاس بھی حکم رانوں کو متنبہ کرنے کی بجائے خود ذاتی مفادات کے اسیر اور اخلاقی کم زوریوں میں مبتلا ہوجائیں، تو پھر ایسی قومیں زوال کی ڈھلان پر پھسلنے لگتی ہیں۔

برِّصغیر میں مغلوں کے دَور سے انگریزوں کی حکم رانی تک اِسی فلسفے کی کارفرمائی نظر آتی ہے۔ اس طویل دَورِ غلامی میں اگرچہ مسلمان رہنمائوں نے آزادی کی شمعیں جلانے کی کوشش کی، لیکن کام یاب نہ ہوسکے، یہاں تک کہ قوم کو محمّد علی جناح جیسا رہنما مل گیا، جس نے بجا طور پر ’’قائدِاعظم‘‘ ہونے کا حق ادا کرتے ہوئے برِّصغیر کے مسلمانوں کو یقین، اتحاد اور تنظیم کا سبق دیا اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے یہ قوم اپنے رہنما کے پیچھے صف بستہ ہو گئی ،یہاں تک کہ اُن علاقوں کے مسلمان بھی آزادی کا نعرہ لگانے لگے ،جہاں اقلیت میں ہونے کے سبب اُن کا پاکستان میں شامل ہونا ممکن ہی نہ تھا۔

بہرحال، قراردادِ پاکستان سے یومِ آزادی تک کا یہ سفر ایمان، اُمنگوں، آرزئوں، قربانیوں، جدوجہد اور عزم و ہمّت کا سفر تھا۔ یہ ایک ایسی انوکھی جنگ تھی، جو اسلحےکی بنیاد پر نہیں، بلکہ دین و سیاست کی بنیاد پر جیتی گئی اور بالآخر 14اگست 1947ء کے سورج نے اقوامِ عالم میں ایک نوزائیدہ مملکت اُبھرتے دیکھی۔ لیکن جب ’’پاکستان کا مطلب کیا، لااِلہ الااللہ‘‘ کے نعرے لگانے والی قوم ، اُس خطّے کی جانب عازمِ ہجرت ہوئی، تو ظلم و ستم، قتل و غارت گری کا گویا ایک بازار گرم ہوگیا۔ برسوں کی ہم سائیگی بھی حقوقِ ہم سائیگی ادا کرنے پر آمادہ نہ کر سکی۔ جانیں گئیں، مال لُٹے، عِصمتیں تاراج ہوئیں، تب جاکر لاکھوں مہاجرین بے سروسامانی کے عالم میں اِس پاک سرزمین پر سجدہ ریز ہوئے۔ درحقیقت، یہ وطن اَن گنت قربانیوں کا ثمر ہے اور ہم ان کی قربانیوں کے آج تک مقروض ہیں۔

آج جب اس خواب کو حقیقت بنے75برس گزر چُکے ہیں، تو بحیثیت قوم ہمیں اپنا احتساب ضرور کرنا ہوگا۔ ہمیں یہ سوچنا ہوگا کہ اگرآزادی نام ہے ،اپنی مرضی سے زندگی کے فیصلے کرنے ،اپنی خواہشات کے مطابق جینے کا،تو کیا ہم اپنے مُلک و قوم کے فیصلے کرنے میں آزاد ہیں، کیا ہم اپنی خواہشات کے مطابق زندگی گزار رہے ہیں؟ سچ تو یہی ہے کہ جس ’’یقین، اتحاد اور تنظیم‘‘نے ہمیں آزادی کا تحفہ عطا کیا تھا،آج ہم اُن ہی اصولوں کو بہت پیچھے چھوڑ کر اس نعمت کی ناقدری پر اُتر آئے ہیں۔ پاکستان کا قیام تو ایک سنگِ میل تھا اور اگلا سنگِ میل اس زمین پر کلمۂ حق کا نفاذ ہونا چاہیے تھا۔

ہم نے آئینِ پاکستان میں تو قراردادِ مقاصد کی شکل میں قرآن و سنّت کی برتری کا عزم شامل کردیا، مگر افسوس کہ ہمارا انفرادی و اجتماعی عمل اس کے خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہماری معیشت قابو میں ہے ،نہ سیاست۔اخلاقی صُورتِ حال بھی خراب سے خراب تر ہوتی جا رہی ہے۔ ہمارے حکم رانوں میں قول و عمل کا تضاد ہے، تو ہماری قوم بھی جھوٹ پر عمل پیرا ہے۔ صداقت، دیانت، امانت گویا گم گشتہ چیزیں ہوگئیں۔ ذاتی مفاد اور ذاتی معیار ہی زندگی کا مقصد قرار پاگیا ۔ غربت، جہالت، کرپشن، ناانصافی، ظلم اور بے حیائی نے پورے معاشرےکو داغ دار کر دیا ہے۔

ان حالات میں پاکستان کے لیے فکر مند ہر فرد پر یہ ذمّے داری عائد ہوتی ہے کہ وہ قوم کو بے حسی و غفلت کی اس دلدل سے نکالے۔ ’’صرف میرے ٹھیک ہونے سے کیا ہوگا؟ ‘‘ کی جگہ ’’میرے ہی ٹھیک ہونے سے سب کچھ ہوگا‘‘ کی سوچ عام کریں۔ یقین، اتحاد اور تنظیم کے اصولوں کو پھر سے اپنا شعار بنائیں۔ ہمارے مُلک کے 60 فی صد نوجوان اس قوم کی اُمید ہیں، انہیں بُجھنے نہ دیں، مُلک و قوم کا اثاثہ بنائیں۔ انہیں اپنے کردار و عمل سے پاکستان سے محبّت کا سبق دیں، آزادی کی نعمت کا احساس دلائیں۔

قوموں کی زندگی میں75سال کوئی بڑی مدّت نہیں۔ اگر آج بھی ہمیں اپنی ذمّے داری کا احساس ہو جائے اور ہم اپنے پیارے وطن کی بہتری کے لیے اپنا کردار انجام دینے پر آمادہ ہو جائیں ،تو اگلے بیس پچیس سال میں ترقّی کی منازل باآسانی طے کر سکتے ہیں۔ بس، عزمِ صادق اور صبر و استقامت شرط ہے۔ پاکستان ہمارے عمل کا منتظر ہے، آئیے عہد کریں کہ اس کا انتظار رائیگاں نہیں جائے گا۔