نیشنل کمیونیکیشن فرنٹ اور اس کا ڈیزاسٹر

October 01, 2022

قارئین کرام! آئین نو کی سطور میں موضوع کی مناسبت سے یہ باور کرایا جاتا ہے کہ نظریہ، قیادت اور سیاسی پلیٹ فارم کے بعد ہر تین کو حاصل ’’مسلم صحافت‘‘ کی بھرپور اور نتیجہ خیز ابلاغی معاونت (کمیونیکیشن سپورٹ) وہ چوتھا عنصر تھا جو تقسیم ہند اور قیام پاکستان کی انہونی کے ہونے کا موجب بنا۔ اگرچہ ہمارے ہاں ایک مخصوص لابی اس ثابت شدہ تاریخی حقیقت کی اپنے تئیں یہ کہہ کر بھد اڑانے کی ناکام کوشش کرتی ہے کہ ’’لوجی صحافت بھی مسلم، ہندو اور کرسچین ہونے لگی‘‘ لیکن سیاسی تاریخ بارے محدود ذہن کے معدودے چند ہمارے یہ ’’موسمی تاریخی داں اور دانشوروں‘‘کا یہ مائنڈ سیٹ موجود ہے،جسے وہ یہ سوال اٹھا کر اپنے ذہنی جمود کو پختہ کرتے ہیں کہ صحافت یا کسی بھی نوعیت کی ابلاغی معاونت مذہبی رنگ میں کیسے ہو سکتی ہے؟ لیکن اب یہ برصغیر ہی نہیں عالمی تناظر میں ثابت شدہ ہے کہ بڑے ترقی یافتہ ممالک کے مخصوص و محدود ذرائع ابلاغ نے اہم ترین ابلاغی دھاروں کو مذہبی رنگ میں رنگ کر اپنی ہی ریاست اور عوام الناس کو بھی متعصبانہ مذہبی منافرت سے مسخ کردیا۔ اس سے قبل کہ ہم اس حوالے سے عالم اسلام میں حاصل آزادی اظہار رائے کی حامل سب سے بڑی اور آزاد مملکت، پاکستان کی موجود پوزیشن کا تجزیہ کریں ہمیں اس امر کا جائزہ لینا ہے کہ عالمی ابلاغی دھارے (گلوبل کمیونیکیشن فلو) میں مذہبی یا تہذیبی منافرت کا عنصر موجود ہے؟ تحقیقی مفروضے کی حد تک تو یہ ٹھوس حقائق کے ساتھ موجود اور اس کا غلبہ بڑھتا جا رہا ہے۔ محدود تحقیقی کام سے اس کے ثبوت بھی مل رہے ہیں۔اس کا منبع اور ذریعہ تو ریاستیں نہیں، آج کے بنیاد پر ست بھارت کے سوا سب کچھ ریاستی نظام سے بالا سماج کی رنگسازی سے ہی نکلتا ہے، جو ریاستوں اور ان کی گورننس اور آبادی کے ایک حصے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ رواں صدی شروع ہونے تک یورپ (خصوصاً مغربی اور شمالی) اور امریکہ کا یہ بھرم ہی نہیں بڑی حد تک حقیقت (ایٹ لارج) تسلیم شدہ تھی کہ ہر دوخطے عالمی ابلاغی دھارے مغربی کلچر کے غلبے کا بذریعہ گلوبل کمیونیکیشن اثر واضح ہے جس سے ترقی پذیر دنیا اور بند معاشرے اپنے ثقافتی تشخص کو ایک بڑا خطرہ محسوس کر رہے تھے۔ اس کے ازالے کیلئے غیروابستہ ممالک کی تحریک، مشرقی یورپ کے کمیونیکیشن تھنک ٹینکس اور یونیسکو کی علانیہ و غیر علانیہ معاونت اور سہولت کاری سے، عالمی ابلاغی دھارے پر مغربی کلچر کے غلبے کو روکنے کیلئے ’’نیو ورلڈ انفارمیشن آرڈر‘‘کا نظریہ پیش ہوا۔ جس پر 70 سے 90 کی دہائی کے اختتام تک میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سکالرز کی بھرپور برین سٹارمنگ اور بحث و تمحیص کے بعد یہ نئی صدی (رواں) شروع ہونے سے قبل دم توڑ گئی۔ لیکن 21ویں صدی کے اوائل میں ہی یورپ کی شرارتی لابیز کا درجہ شیطانیت کے درجے پر آگیا تو ’’کیری کیچر ایشو‘‘ نے مذہبی منافرت کے حوالے سے جدید یورپ کا چہرہ مسخ کرنا شروع کردیا حتیٰ کہ سکینڈے نیویا جیسا پرامن اور عالمی سیاست کے جھمیلوں سے آزاد خطہ بھی اس کی لپیٹ میں آگیا، پھر حالیہ سالوں میں اسکی انتہا دنیا میں فرانس کے سوال بنے ریاستی کردار پر ہوئی۔ وہ فرانس جس نے اپنے عظیم انقلاب (1789) کے بعد بظاہر دنیا بھر میں آزادی کی شمع روشن کرنے کیلئے مجسمۂ آزدی امریکہ کو تحفے میں بھیجا۔ تاریخ کے اس مرحلے میں روسو اور والٹئیر کی انقلابی تحریروں کی صورت میں عوامی احتجاج کو شروع کرانے اور جاری رکھنے میں جدید تاریخ میں مکمل عیاں ہے۔

قارئین کرام! غور فرمائیں، پاکستان کیلئے اپنے قیام کی تاریخ کے حوالے سے یہ باب کتنا سنہری اور تاریخ ساز ہے کہ متحدہ اور غلام ہندوستان کی مسلم سول سوسائٹی نے علی گڑھ کی علمی تحریک کے حوالے سے اپنے سیاسی و مذہبی تشخص کے تحفظ کیلئے یکے بعد دیگرے جو علمی و ابلاغی و سیاسی اقدامات اپنی سیاسی حیثیت کی بحالی کیلئے کئے۔ ان کا پہلا بڑا حاصل دو قومی نظریہ، مسلم لیگ کا قیام، حضرت قائد اعظم کی بے مثال قیادت اور مسلم صحافت کا وہ قافلہ تھا جو تحریک پاکستان کا سب سے بنیادی پوٹنیشل ثابت ہوا۔ ہندوستانی سول مسلم سوسائٹی نے یہ کارنامہ تب انجام دیا جب ہندوستان اور عالمی سیاسی ماحول پر مغربی نو آبادیاتی نظام کا سیاسی غلبہ اپنے عروج پر تھا۔ اسلئے یہ گمراہ کن تصور بے بنیاد اور لغو ہے کہ تحریک پاکستان دوسری جنگ عظیم کا شاخسانہ تھی اور پاکستان کے قیام کا اصل محرک سیاسی نہیں معاشی تھا۔ آل انڈیا کانگریس سمیت مغربی سامراجی نوآبادیاتی طاقتوں میں اس وقت کوئی ایسی سیاسی علمی و ابلاغی تحریک نہیں تھی، جو برصغیر کی سول مسلم سوسائٹی جیسے حکیمانہ انداز سے آزاد مملکت کے حصول کیلئے چل رہی ہو اور وہ بھی بھاری ہندو اکثریت کی حامل سب سے بڑی فرنگی کالونی میں ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہندوستانی تاریخ کے اس مرحلے میں مسلم لیگ کو حاصل اس مسلم صحافت کی ابلاغی معاونت کے متوازی ہندوستانی اکثریت کی حامل کانگریس بھی مسلم لیگ سے اختلاف رکھنے والی مسلم اشرافیہ کے ایک حصے کے اشتراک سے فرنگی راج سے آزادی کی تحریک چلا رہی تھی اور متحدہ ہندوستان میں ظہور صحافت کا فائدہ مسلم لیگ سے بھی زیادہ اٹھا رہی تھی، گویا برصغیر میں ابلاغی معاونت سے سیاسی بیداری و آزادی کی تحریک کا طلاطم اسٹیٹس کو کے جمود میں ڈوبی نو آبادیاتی دنیا میں مثالی تاریخ ساز تھا جو جدید جمہوری سیکولر انڈیا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے قیام جیسے عظیم تر نتائج پر منتج ہوا۔

ہمیں اپنی نئی نسل کو یہ باور کرانا ہے کہ جب کانگریس کو اپنی آزادی کی جنگ کو آزادی کے ساتھ ساتھ ’’ایک قومی نظریہ‘‘ (سب ہندوستانی) کے تحفظ کیلئے بھی وقف کرنا پڑا، جس میں مسلم لیگ کی ابلاغی معاونت، ہندوستانی مسلم صحافت نے کانگریس کی بھرپور ابلاغی معاونت کے حامل ہندوپریس کو تاریخی علمی اور پیشہ ورانہ شکست سے دو چار کیا۔ (جاری ہے)