چین میں حکم ران کمیونسٹ پارٹی کا تاریخی اجلاس

October 23, 2022

چین کی کمیونسٹ پارٹی کا ایک اہم ترین اجلاس اکتوبر کے وسط میں ہوا، جس میں صدر شی جن پنگ کو تیسری مرتبہ چین کا صدر منتخب کر لیا گیا۔صدر شی جن پنگ کے لیے یہ ایک غیر معمولی فیصلہ اور غیر معمولی اعتماد تھا، جو چین کے کسی حکم ران کے حصّے میں آیا۔ اِس سے قبل مائوزے تنگ کو، جو جدید چین کے انقلابی بانی تھے، یہ اعزاز حاصل ہوا۔ تیسری مرتبہ صدر منتخب کرنے کا مطلب یہ بھی ہوا کہ شی جن پنگ اب تاحیات اِس عُہدے پر فائز رہ سکتے ہیں۔اِس سے قبل صدور زیادہ سے زیادہ دو مرتبہ حکومت کے بعد رخصت ہوجاتے اور اُن کا جانشین منصب سنبھال لیتا۔

اس طرح مُلک کو یہ فائدہ ہوا کہ لیڈر شپ ایک نسل سے دوسری نسل تک کام یابی سے منتقل ہوتی رہی۔ شی جن پنگ پانچویں نسل کے نمایندے ہیں۔صدر کے لیے دو ٹرم کی شرط2018ء میں ختم کی گئی تھی۔ صدر شی جن پنگ پر اِس غیر معمولی اعتماد کی وجہ اُن کا وہ معاشی استحکام اور عالمی ویژن ہے، جو اُنہوں نے چین کو نہ صرف دیا بلکہ اُس پر عمل کرکے بھی دِکھایا۔اس ویژن کا بنیادی مقصد چین کا عالمی معاملات میں فیصلہ کُن کردار منوانا اور طاقت کو مزید وسعت دینا ہے۔

کمیونسٹ پارٹی کے گزشتہ اجلاس میں صدر شی جن پنگ نے دنیا پر واضح کردیا تھا کہ’’ اب وقت آگیا کہ چین کی عالمی حیثیت تسلیم کرتے ہوئے اسے دنیا کے اسٹیج پر اپنا کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔‘‘ بلکہ اُنہوں نے چینی نظام کی پیروی کی بھی بات کی، جو اِس سے پہلے کبھی نہیں کی گئی تھی۔ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ، جس کا ایک حصّہ سی پیک بھی ہے، اسی ویژن کا ایک بنیادی جزو ہے۔چین اِس منصوبے کے ذریعے کوشش کر رہا ہے کہ پہلے ایشیا اور پھر دنیا میں جہاں کہیں بھی ممکن ہو، ایسا ترقّیاتی جال بچھا دیا جائے، جس سے دنیا چین کے ساتھ اور مختلف ممالک ایک دوسرے سے منسلک ہوجائیں۔

اِس منصوبے نے مغربی طاقتوں کو خاصا پریشان کر رکھا ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ بھی اس کے مقابلے میں اربوں ڈالرز کا ایک منصوبہ سامنے لائے ہیں۔ کم ترقّی یافتہ ممالک کے لیے یہ بات خوش آیند ہے کہ امیر اور طاقت وَر مُمالک اُن کی ترقّی میں معاون بن رہے ہیں، لیکن دوسری طرف، اگر ترقّی و تعاون کا یہ جذبہ مخاصمت یا کسی تنازعے میں تبدیل ہوجاتا ہے، تو پھر اِن ترقّیاتی منصوبوں سے نئی مشکلات سامنے آئیں گی کہ بڑی طاقتوں میں ٹکرائو کا خوف سَروں پر منڈلانے لگے گا۔

چین کی کمیونسٹ پارٹی کے اِس اہم اجلاس کو’’نیشنل کانگریس آف کمیونسٹ پارٹی‘‘ کا نام دیا گیا۔یہ اجلاس16 اکتوبر کو بیجنگ کے گریٹ ہال آف پیپل میں شروع ہوا اور اس میں2296 مندوبین نے شرکت کی، جو کمیونسٹ پارٹی کے تقریباً9 کروڑ ارکان کی نمائندگی کر رہے تھے۔اس طرح کے اجلاسوں میں سینٹرل کمیٹی کا انتخاب کیا جاتا ہے، جو چین کا سب سے طاقت وَر فیصلہ ساز ادارہ ہے۔ اس کا یہ بھی مطلب ہوا کہ پارٹی اور اس کے سب سے طاقت وَر فیصلہ ساز ادارے نے صدر شی جن پنگ کی پالیسیز پر بھرپور اعتماد کا اظہار کیا۔

گویا وہ جس طرح عالمی سطح پر چین کو لائے اور اب اُسے مسلسل آگے بڑھا رہے ہیں، اُسے عوام اور پارٹی کی مکمل حمایت حاصل ہے۔ صدر شی جن پنگ کو عُہدہ سنبھالے9 سال ہوچُکے ہیں۔اس دوران کورونا جیسی وبا بھی آئی،تاہم اُنہوں نے مناسب حکمتِ عملی کے ساتھ چین جیسی بڑی آبادی کے مُلک کو کسی بڑے نقصان کے بغیر ترقّی کی راہ پر گام زَن رکھا۔ چین کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے اور اسے ماضی میں چینی ایمپائر کہا جاتا تھا۔ مارکو پولو کے سفر نامے پڑھیں، تو معلوم ہوگا کہ چین کی ہمیشہ سے یہ خواہش رہی ہے کہ وہ نہ صرف پڑوسیوں بلکہ دُور دراز کے ممالک سے بھی اچھے تعلقات رکھے، لیکن یہ مُلک آبادی اور رقبے کے لحاظ سے اِتنا بڑا ہے کہ یہاں کے حکم ران اپنے عوام اور اپنے معاملات ہی کو اولیت دیتے رہے۔

شاید اس کی ایک وجہ یہ بھی ہو کہ ماضی میں آمد ورفت کے ذرائع اِس قدر محدود تھے کہ دُور دراز کے ممالک کے معاملات میں دخل اندازی ایک مصیبت بن جاتی تھی۔سکندرِ اعظم نے یونان سے آ کے ہندوستان کے کئی علاقے فتح تو کر لیے، لیکن پھر خود اپنے ہی ساتھیوں اور فوجیوں کے دبائو میں آکر واپس چلا گیاکہ وہ یہاں مزید ٹھہرنے کو تیار نہیں تھے۔ چین کے حکم ران اِن معاملات سے اچھی طرح واقف تھے، اِسی لیے بیس ویں صدی تک اُن کا محور صرف چین ہی رہا اور اُنہوں نے نوآبادیاں نہیں بنائیں، باوجود یہ کہ وہ اس کی طاقت رکھتے تھے۔ گویا اِس معاملے میں وہ جاپان بنے، نہ فرانس اور نہ ہی جرمنی۔ لیکن 20 ویں صدی نے چین کو بھی تبدیل کردیا۔

اس کا پہلا اظہار تو اُس وقت ہوا، جب اُس نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کاؤنسل میں مستقل نشست حاصل کی،پھر اُس کے ساتھ ہی اُس کے رہنماؤں نے عالمی معاملات میں فعال کردار ادا کرنا شروع کردیا۔بدقسمتی سے60 ء اور70 ء کی دہائیاں چین کی اندرونی سیاسی کش مکش کی نذر ہوگئیں۔بعدازاں، ڈینگ زیائو پنگ جیسے مدبّر اور ویژنری لیڈر نے چین کی قیادت سنبھالی،جو پہلے ہی دن سے اِس بات کا یقین رکھتے تھے کہ چین میں ایک بڑی طاقت بننے کے تمام عناصر موجود ہیں۔ اُنہوں نے ان عناصر کو یک جا کر کے اقتصادی طاقت کے حصول میں سمو دیا اور چین کی کمیونسٹ پارٹی کو،جو حکم ران جماعت ہے، معاشی ترقّی کا ہدف دیا۔

یہ ڈینگ اور چین کے عوام کی خوش قسمتی ہے کہ عوام نے بھی جلد ہی جان لیا کہ اصل انقلاب، معاشی انقلاب ہوتا ہے اور موجودہ زمانے میں جو قوم ترقّی کی دوڑ میں پیچھے رہ جائے، وہ ناکام ہوکر غربت کے اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔انقلابی نعرے جوش تو دِلا سکتے ہیں، لیکن ہوش اور ترقّی نہیں، جو کسی بھی سُپر پاور کی اساس ہیں۔ اِسی لیے ڈینگ کے بعد کی تمام چینی لیڈر شپ انقلابی نہیں، اقتصادی اور ترقّیاتی لیڈرشپ رہی۔ ان کے یہاں انقلابیوں، نعرے بازوں، جذباتی فوجیوں یا بے وقوف سیاست دانوں کی بجائے اقتصادی مینیجرز کی قدر و توقیر ہے کہ یہی اُن کا اصل اثاثہ ہیں۔

علی بابا اور ہواوے جیسی عالمی کمپنیز ایک دن یا کسی ایک شخص کی محنت سے نہیں بنیں، بلکہ یہ ایک ویژنری سوچ کا نتیجہ ہے۔چینی قیادت اس معاشی و اقتصادی انقلاب کو اگلی قیادت تک منتقل کرتے رہےاور صدر شی جن پنگ ،لیڈر شپ کے اسی تسلسل کی بہترین مثال ہیں۔اُنہوں نے اس ترقّی کو قومی سطح سے بڑھا کر عالم گیر سطح تک پہنچا دیا،جس کے بعد اُنھیں اس اعلان کا حق حاصل تھا کہ’’اب چین کے عالمی کردار کا وقت آگیا ہے۔‘‘وہ دنیا کے ایک بڑے نیشنلسٹ لیڈر ہیں،جو اپنی قوم کو سب سے آگے دیکھنا چاہتے ہیں۔انہیں کسی غلامی کا ڈر ہے اور نہ ہی وہ سازشوں سے خوف زدہ ہیں۔

صدر شی جن پنگ کو معلوم ہے کہ ان کا سب سے بڑا مقابل امریکا اور مغرب ہے، لیکن اُنہوں نے کسی سے بھی براہِ راست ٹکرائو سے گریز کیا ہے۔بلاشبہ، آج چین کی فوجی طاقت تیس، چالیس سال کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔اس کے پاس جدید ٹیکنالوجی کا ہر عُنصر موجود ہے۔ وہ اسپیس میں ہے اور سمندری قوّت کا بھی حامل ہے۔نیز، اس کے سُپر کمپیوٹرز کی تعداد کسی سے کم نہیں۔اس کا مال سستا ہے اور دنیا کے ہر حصّے میں دست یاب بھی ہے۔صدر شی جن پنگ نے پارٹی کے گزشتہ اجلاس میں جدید ٹیکنالوجی کو مُلک کے کونے کونے تک پھیلانے کا عزم کیا تھا۔

گو کہ کورونا نے چین کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کیں،اس کے بڑے شہر لاک ڈائون کی لپیٹ میں رہے، جس کی وجہ سے اس کی اکانومی کی رفتار سُست ہوئی، تاہم شی جن پنگ نے جو ہدف مقرّر کیا ، اُسے حاصل کرنے کے لیے پوری قوم متحد ہے۔وہاں75 سال پہلے انقلاب آیا تھا اور اُسی وقت آزادی کی جنگ بھی ختم ہوگئی تھی۔ یہ نہیں کہ ہر دو سال بعد آزادی اور انقلاب کے نعرے لگا لگا کر وقت ضائع کرتے رہے ہوں۔ میر جعفر اور میر صادق کا وہاں کوئی تصوّر نہیں، ہاں، معاشی مقابل ایک سے بڑھ کر ایک ہیں۔چین کے رہنماؤں کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کب انقلاب کا وقت تھا اور کب اقتصادی ترقّی کا، اِسی لحاظ سے وہ اپنی لیڈر شپ بھی بدلتے رہے ہیں۔

یہ نہیں کہ ہر کچھ سال بعد نئے نظریات کا تجربہ کرنے لگیں۔ یہی وجہ ہے کہ ڈینگ سے لے کر شی جن پنگ تک اُن کی ترقّی میں تسلسل ہے اور وہ نت نئی بلندیوں کو چُھو رہی ہے۔وہ کام زیادہ اور بیانات کم دیتے ہیں۔اُن کے یہاں ہر وزیر حکومت کا ترجمان نہیں بنا پِھرتا، وہ اپنے محکمے کا ذمّے دار ہے،جس کی جواب دہی کرنی پڑتی ہے۔چینی قوم کا خواب ترقّی ہے اور وہ اسے حقیقت میں بدل رہے ہیں۔شی جن پنگ، لیڈرشپ کی بہترین مثال اور علامت ہیں، بلاشبہ اُنہوں نے مغرب کو ناکوں چنے چبوا دیے ہیں۔ اُن کا سب سے اہم ٹارگٹ چین کا عالمی کردار مستحکم کرنا ہے۔

اُنہوں نے اِس مقصد کے لیے پارٹی کو مضبوط بنیادوں پر استوار کیا اور ایک مصلح کا کردار اپنایا۔جلد بازی اُن کی کتاب میں موجود نہیں تاکہ اُن کے ویژن کو پارٹی سے عام لوگوں تک منتقل کرنا آسان ہو۔ڈینگ کے بعد سے اب تک چین کی سب سے بڑی کام یابی یک جہتی اور تسلسل ہے۔یہ سیاسی اقتدار کی منتقلی میں بھی واضح ہے اور اقتصادی ترقّی کے حاصلات سے بھی صاف پتا چلتا ہے۔ چین کا اصل کمال یہ ہے کہ اس نے ایک ارب چالیس کروڑ آبادی میں سے غربت تقریباً مٹا دی ہے۔40 کروڑ سے زاید افراد کی ایک متحرّک اور جدید علوم سے بہرہ ور مِڈل کلاس تیار کی ہے۔

چین کا ایک اور کمال یہ ہے کہ ایک پارٹی کی حکومت ہونے کے باوجود نفاق، باہمی اختلافات نہ ہونے کے برابر ہیں۔صدر شی جن پنگ بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کے پہلے مرحلے میں علاقائی، خاص طور پر ایشیائی ممالک کو اپنے ساتھ لے کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، جس کی مغرب کی طرف سے بہت مخالفت ہو رہی ہے۔بھارت مغرب کی اِنہی کوششوں کی وجہ سے اِس منصوبے کا حصّہ نہیں بنا۔شاید بھارت کا یہ بھی خیال ہے کہ وہ آبادی کے لحاظ سے چین سے تھوڑا ہی کم ہے۔

اس کے پاس بھی ایک ہنر مند اور خوش حال مِڈل کلاس ہے، مغرب کی مکمل سپورٹ حاصل ہونے کے ساتھ ،روس اور چین سے بھی اچھے تعلقات ہیں، اس لیے وہ اقتصادی میدان میں چین کا مقابلہ کرسکتا ہے۔صدر شی جن پنگ نے عالمی سطح پر ترقّی کا ایک اور منصوبہ بھی پیش کیا ہے، جسے اُنہوں نے’’global security initiative ‘‘کا نام دیا ہے۔ اس کے مقاصد میں جامع تعاون اور پائے دار ترقّی شامل ہے۔ اس منصوبے کے مطابق پوری انسانیت کو کسی تفریق کے بغیر سیکیوریٹی فراہم کی جانی چاہیے۔

اِس امر میں کوئی دو رائے نہیں کہ یوکرین کی جنگ نے چین کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کیں، جو صدر شی جن پنگ کے لیے مستقبل میں چیلنج بن سکتی ہیں۔اس کی ایک جھلک تائیوان کے مسئلے پر اُس کشیدگی میں دیکھی جاسکتی ہے، جب امریکی سینیٹ کی چیئرپرسن، نینسی پلوسی نے تائیوان کا دورہ کیا اور وہاں کی قیادت سے ملاقات کی۔ چینی اور روسی صدر کی ملاقاتوں میں دونوں نے اپنی قریبی دوستی کا اعادہ کیا، لیکن چین نے واضح طور پر روس کی حمایت سے گریز کیا۔

غالباً صدر شی جن پنگ سمجھتے ہیں کہ یہ نہ صرف امریکا سے براہِ راست ٹکرائو کا باعث ہوگا بلکہ یورپ میں بھی ان کے لیے سُود مند نہیں ہوگا، کیوں کہ یوکرین کے مسئلے پر یورپی ممالک نے برطانیہ سمیت جس یک جہتی کا مظاہرہ کیا، وہ دوسری عالمی جنگ کے بعد کبھی نہیں دیکھا گیا۔صدر پیوٹن کے یوکرین پر حملے نے چین کے لیے کچھ اور بھی مسائل پیدا کیے ہیں۔ایک تو یہ کہ مغربی ممالک کی طرف سے یہ پروپیگنڈا شروع کردیا گیا ہے کہ چین کی بڑھتی فوجی طاقت کے تناظر میں اِس امکان کو رَد نہیں کیا جاسکتا کہ صدر شی جن پنگ بھی کسی وقت ایسا ہی قدم تائیوان کے سلسلے میں اُٹھا سکتے ہیں۔

حالاں کہ چین نے’’ ایک ریاست، دو نظریات‘‘ کے تحت تائیوان کو اپنا حصّہ ماننے کے باوجود کبھی صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ اُس نے بیانات اور کچھ علامتی اقدامات کے سوا کوئی ایسی کارروائی نہیں کی، جس سے جنوب مشرقی ایشیا کا امن خطرے میں پڑتا۔ لیکن جب تک یوکرین کا مسئلہ سیٹل نہیں ہوتا، اُس وقت تک یہ باتیں مغرب کی طرف سے اُٹھائی جاتی رہیں گی۔اس سے ایک طرف عالمی امن اور سیکیوریٹی کے مسائل پیچیدہ رہیں گے، تو دوسری جانب، صدر شی جن پنگ کو فیصلہ سازی کے چیلنجز درپیش رہیں گے۔تاہم،حالیہ پارٹی اجلاس میں صدر شی جن پنگ پر جس اعتماد کا اظہار کیا گیا، اس سے ان کے لیے ان گمبھیر خارجہ اور فوجی معاملات سے نمٹنا آسان ہوجائے گا۔

چین کی عرصے سے خواہش تھی کہ امریکا ایشیا سے نکل جائے اور بڑی حد تک افغانستان سے اس کے فوجی انخلا کے بعد یہ خواہش پوری بھی ہوگئی، لیکن صدر پیوٹن نے یوکرین پر حملہ کر کے اس کے لیے پیچیدہ صُورتِ حال پیدا کردی ہے۔چین، روس کے موقف کی ادھوری حمایت کر رہا ہے، اُسے قریبی ساتھی تو کہہ رہا ہے، لیکن کوئی عملی قدم اُٹھانے پر آمادہ نہیں، سوائے اس کے کہ روس کا سستا تیل خرید کر اسے معاشی تباہی سے بچائے۔ وہ چاہتا ہے کہ روس کا عمل دخل یورپ میں کسی طور باقی رہے۔