مکہ مکرمہ: ماضی و حال کے آئینے میں (قسط نمبر11)

November 06, 2022

سلطنتِ عثمانیہ کا عہدِ ثانی

مکّہ مکرّمہ میں سلطنت ِترکیہ عثمانیہ کے عہدِ ثانی میں بہت زیادہ خوش حالی آئی۔ ترقی کی نئی راہیں کُھلیں، آمدورفت کے ذرائع بہتر کیے گئے، نئی سڑکیں تعمیر ہوئیں، تجارت اور کاروبار اپنے عروج پر رہا، متعدد ترقیاتی و تعمیراتی کام ہوئے، حرمین شریفین کی تعمیر و توسیع اور آرایش پر خصوصی توجّہ دی گئی۔ بیت اللہ شریف کے صحن مطاف کے چاروں جانب سلطنتِ عثمانیہ کے دَور کی پتّھر سے بنی خُوب صُورت محرابیں اور گنبد اس کا بیّن ثبوت ہیں۔1326؍ہجری بمطابق 1908ء، سلطان عبدالحمید نے ریلوے کا افتتاح کیا اور پہلے مرحلے میں دمشق سے مدینہ منورہ تک ریل چلنا شروع ہوئی۔

دوسرے مرحلے میں اسے مکّہ مکرّمہ سے مدینہ منورہ اور جدّہ تک توسیع دینے کا پروگرام تھا۔ یہ تجارت کے فروغ اور حجّاجِ کرام کے سفر میں آسانیاں پیدا کرنے کی جانب ایک بڑا انقلابی قدم تھا۔ مدینہ منورہ میں آج بھی عثمانیہ دَور کا ریلوے اسٹیشن ماضی کی یاد دلاتا ہے۔ بہرحال، ایک صدی سے زیادہ وقت گزر جانے کے بعد سعودی حکومت نے جدید ترین، تیز رفتار ٹرین سروس کا آغاز کردیا، جو مکّہ مکرّمہ سے مدینہ منورہ اور مکّہ سے عرفات تک حجّاج و زائرین کو خدمات فراہم کررہی ہے۔

دنیا کی عظیم مسلم سلطنت کا خاتمہ یہود و نصاریٰ کی زندگی کا سب سے بڑا مقصد تھا۔ مکّہ کے حاکم، شریف حسین بن علی کو مملکتِ برطانیہ نے ملّتِ اسلامیہ کا بادشاہ اور خلیفۃ المسلمین مقرر کرنے میں مدد دینے کا وعدہ کرلیا۔ چناںچہ شریف حسین علی نے سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف بغاوت کا اعلان کردیا۔ 9؍شعبان 1334؍ہجری بمطابق جون 1916؍ء، حسین بن علی نے انگریز کی ایماء پر ’’شاہ حجاز‘‘ ہونے کا اعلان کردیا۔ چناںچہ ترک حکومت کو حجاز میں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا۔

سلطنتِ عثمانیہ کے خلاف سازشیں عروج پر تھیں۔ ان ہی سازشوں کے نتیجے میں 1342؍ہجری بمطابق 3؍مارچ 1924؍ء کو خلافتِ عثمانیہ ترکیہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے حجاز سے ختم ہوگئی۔ جس کے بعد شریف حسین کے لیے بادشاہت کے خواب کی تکمیل بہت آسان ہوگئی۔ چناںچہ اس نے ’’خلیفتہ المسلمین‘‘ ہونے کا اعلان کردیا، جس سے پورے عالمِ اسلام میں کہرام مچ گیا۔ تاہم، یہی اس کے زوال کا سال بھی تھا۔ اس کی قسمت کا ستارہ گردش میں آچکا تھا۔ ہر محاذ پر شکست و ناکامی اس کا مقدر بن چکی تھی۔ 3؍اکتوبر 1924ء کو 70؍سال کی عمر میں وہ اپنے بیٹے کے حق میں دست بردار ہوکر پہلے عقبہ اور پھر قبرص چلا گیا، جہاں 4؍جون 1931ء کو دنیا سے رخصت ہوگیا۔ (تاریخِ مکّہ مکرّمہ، محمد عبدالمعبود، صفحہ286,285)۔

آلِ سعود کا دوسرا دَور

15؍ربیع الاول 1343؍ہجری بمطابق 18؍اکتوبر 1924؍ء کی ایک صبح سلطان عبدالعزیز بن عبدالرحمٰن آلِ سعود اپنے فوجی جرنیلز اور علمائے کرام کے ساتھ احرام باندھے فاتحانہ شان و شوکت سے مکّہ مکرّمہ میں داخل ہوئے۔ سلطان کی دلی خواہش اور علمائے کرام کے فتوے کے مطابق اس مقدّس سرزمین پر خون کا ایک قطرہ تک نہیں بہایا گیا۔ سعودی افواج کے مکّے میں داخلے سے پہلے ہی امیر علی بن حسین بھاگ کر جدّہ چلا گیا۔ 6؍جنوری 1925ء کو جدّہ کا محاصرہ کیا گیا، جو دسمبر تک جاری رہا۔ 5؍دسمبر 1925؍ء کو سعودی فوج نے مدینہ منورہ پر قبضہ کرلیا اور 18؍دسمبر 1925؍ء کو طویل محاصرے سے تنگ آکر امیر علی بن حسین نے دست برداری کا اعلان کردیا۔ بالآخر 7؍جمادی الثانی 1344؍ہجری بمطابق 25؍دسمبر 1925؍ء، پورے حجازِ مقدّس پر سعودی حکومت کا آفتاب پوری آب و تاب سے چمکنے لگا۔ (تاریخِ مکّہ مکرّمہ، محمد عبدالمعبود، صفحہ287)۔

خادم الحرمین الشریفین: 23 ستمبر 1932ء کو شاہ عبدالعزیز نے مملکتِ حجاز و نجد کا نام تبدیل کرکے ’’مملکت العربیہ السعودیہ‘‘ رکھا۔ جس کے بعد سے ہر سال یہ 23ستمبر کو سعودی عرب کے قومی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ سعودی حکمران خود کو ’’خادم الحرمین الشریفین‘‘ کی حیثیت سے متعارف کروانے پر فخر محسوس کرتے ہیں۔ 1986ء میں شاہ فہدبن عبدالعزیز نے ایک شاہی فرمان کے ذریعے اس خطاب کو سعودی حکم رانوں کے لیے مخصوص کردیا۔ سعودی حکومت نے حجازِ مقدّس اور خاص طور پر مکّہ معظّمہ اورمدینہ منورہ میں جو اقتصادی، معاشی، معاشرتی اور ثقافتی اعتبار سے انقلابی اصلاحات متعارف کروائیں، اُنھیں دیکھ کے ترقی یافتہ ممالک کے حکم ران بھی انگشتِ بدندان رہ گئے۔

پچھلے پچاس برسوں میں مکّہ مکرّمہ کی تعمیر و ترقی میں جو انقلابی پیش رفت ہوئی اور جس برق رفتاری کے ساتھ ترقیاتی منصوبوں کو پایۂ تکمیل تک پہنچایا جارہا ہے، اس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ حرم شریف کے گردونواح میں سنگلاح پہاڑوں کا سینہ چیر کرجو دنیا کےجدید ترین تجارتی مراکز، عظیم الشّان رہائشی کمپلیکس اور خُوب صُورت ترین کثیر المنزلہ ہوٹلز بنائے گئے ہیں، وہ دنیا بھر کے زائرین کو اپنی طرف متوجّہ کرتے ہیں۔

پورے شہر میں صاف و شفّاف، روشن اور چوڑی سڑکوں کا جال، پہاڑوں کے اندر سے بَل کھاتی ہوا دار سرنگیں، دن رات کے کسی بھی حصّے میں نہ چوری کا ڈر اور نہ لُوٹے جانے کا خوف، حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دُعا کی قبولیت کی بدولت دنیا کے ہر پھل اور ہر غذا کی مکّہ کے بازاروں میں موجودگی، حفظانِ صحت کے اصولوں پر سختی سے عمل پیرا صاف ستھرے ریسٹورینٹس کا قیام، حرم شریف کی عظیم الشّان توسیع، غرض یہ کہ حجّاجِ کرام کے آرام اور سہولت کے لیے دن رات کوشاں، سعودی حکم رانوں نے خادم الحرمین الشریفین ہونے کے اپنے اعزاز کا حق ادا کردیا ہے۔

حرم مکّہ کی حدود (میقات):حرم مکّہ کی حدود کا دائرہ 127کلومیٹر پر محیط ہے۔ جس کی پیمائش 550کلو میٹر بنتی ہے۔ یہ تمام حدود اللہ تعالیٰ کی طرف سے متعین کردہ ہیں۔ پہلی مرتبہ حضرت جبرائیلِؑ امین نے ان حدود سےمتعلق حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آگاہ فرمایا، تو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان پر علامتیں نصب فرمائیں۔ فتحِ مکّہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت تمیمؓ بن اسید خزاعی کو حدود کی تجدید کے کام پر مامور فرمایا۔ یاد رہے کہ حج یا عمرے کی نیّت سے مکّہ مکرّمہ کا قصد کرنے والوں کے لیے واجب ہے کہ جس سمت سے مکّہ جارہے ہوں، اُسی سمت میں واقع میقات سے احرام باندھیں۔ مشہور میقات درجِ ذیل ہیں۔

٭ ذوالحلیفہ: اسے ابیار بھی کہتے ہیں۔ یہ اہلِ مدینہ کی میقات ہے۔ مکّہ مکرّمہ سے اس کا فاصلہ 405 کلومیٹر اور مسجدِ نبویؐ سے 10 کلومیٹر ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حج کے موقعے پر یہاں سے احرام زیب تن فرمایا تھا۔ ٭یلملم: یہ اہلِ یمن اور جنوب سے آنے والوں کی میقات ہے۔ پاکستان سے جانے والوں کی میقات بھی یہی ہے۔ اسے مقامِ سعدیہ بھی کہتے ہیں۔ مکّہ مکرّمہ سے اس کا فاصلہ 95کلو میٹر ہے۔ ٭ذاتِ عرق:یہ اہلِ عراق اوراُس سمت سے آنے والوں کی میقات ہے۔ مسجدِ حرام سے اس کا فاصلہ 90کلو میٹر ہے۔ اس کے مقابل مقامِ ضربیہ سے احرام باندھا جاتا ہے۔-٭ جحفہ:یہ اہلِ شام، مصر اور ترکی والوں کی میقات ہے۔ اس کے آثار مِٹ چُکے ہیں، لہٰذا اس کے مقابل واقع شہر رابغ سے احرام باندھتے ہیں۔ یہ مقام مکّہ مکرّمہ سے 185کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔٭قرن منازل:یہ اہلِ نجد اور اس جانب سے آنے والوں کی میقات ہے۔ مکّہ مکرمہ سے اس کا فاصلہ 75 کلو میٹر ہے۔ حرم کی حدود میں کسی قسم کا شکار کرنا، خودرو گھاس، پودے اور درخت کاٹنا یا توڑنا منع ہے۔ صرف ’’ازخر گھاس‘‘ کاٹنے کی اجازت ہے۔ (صحیح بخاری حدیث 1834-1833)۔

حرمِ مکّہ مکرّمہ میں جس طرح ہر نیکی کا اجر و ثواب کئی گُنا زیادہ ہے۔ اسی طرح برائی کا گناہ بھی کئی گُنا زیادہ ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد باری تعالیٰ ہے۔ ترجمہ ’’اور جو بھی ظلم کے ساتھ وہاں الحاد کا ارادہ کرے، ہم اسے درد ناک عذاب چکھائیں گے۔‘‘ (سورۃ الحج 25:)۔ یارد رہے کہ صرف ارادے پر یہ وعید، دوسری جگہوں پر نہیں ہے۔

مکّہ مکرّمہ کے مشاعرِ مقدّسہ

منیٰ: یہ وادی بیت اللہ شریف کے مشرق میں واقع ہے۔ حرم شریف سے اس کا فیصلہ 6کلو میٹر جب کہ سرنگ کے راستے سے پیدل 4کلو میٹر ہے۔ یہاں حجاج قیام کرتے ہیں۔

جمرات: جمرات، جمرہ کی جمع ہے اور اس کے معنیٰ چھوٹی کنکری کے ہیں۔ جب کہ ’’رَمی جمرات‘‘ کے معنیٰ کنکریاں مارنا ہے۔ رمی کرنا حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سنّت اور حج کے واجبات میں سے ہے۔ منیٰ کے مغربی حصّے میں تین جمرات واقع ہیں۔ جمرئہ صغریٰ، جمرئہ وسطیٰ اور جمرئہ عقبہ۔ دس ذی الحجہ کو مزدلفہ سے واپسی پر حجّاجِ کرام جمرئہ عقبہ (عرفِ عام میں بڑا شیطان) کو کنکریاں مارتے، یعنی رَمی کرتے ہیں۔ باقی ایّامِ تشریق میں تینوں جمرات کو کنکریاں مارتے ہیں۔ ہر جمرہ کو سات سات کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ جمرات پر بسا اوقات حادثات پیش آجاتے تھے، چناںچہ شاہ عبداللہ بن عبدالعزیز نے جمرات کو چار منزلہ بنانے کا حکم دیا اور حجّاج کے آنے جانے کے راستے بھی جدا کردیئے۔

مسجدِ خیف: وادئ منیٰ میں جمرئہ صغریٰ کے قریب ایک خُوب صُورت تاریخی مسجد ہے۔ اس مسجد میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ سے قبل بہت سے انبیائے کرامؓ نمازیں ادا کرچکے ہیں۔ 1407ہجری میں شاہ فہد نے اس کی نئی تعمیر و توسیع کروائی۔ اب اس مبارک مسجد کے اندر 35 ہزار نمازیوں کی گنجائش ہے۔

عرفات:مکّہ مکرّمہ کے جنوب مشرق میں بیت اللہ شریف سے 20کلو میٹرکے فاصلے پر یہ وسیع و عریض وادی ہے، جس کا کُل رقبہ تقریباً18کلو میٹر پرمحیط ہے۔ یہ جگہ حدودِ حرم سے باہر ہے۔ ہر سال 9ذی الحجہ کو حجّاجِ کرام اس میدان میں وقوف کرتےہوئے غروبِ آفتاب تک دُعا و استغفار میں مصروف رہتے ہیں۔ وقوف، حج کا رکنِ اعظم ہے، جس کے چُھوٹ جانے سے حج فوت ہوجاتا ہے۔

مسجدِ نمرہ: میدانِ عرفات میں یہ ایک نہایت خُوب صُورت مسجد ہے۔ مسجد کے قبلے کی سمت کا حصّہ عرفات سے باہر ہے، جب کہ پچھلا دو تہائی حصّہ عرفات میں ہے۔ امامِ کعبہ اس مسجد سے حج کا خطبہ دیتے ہیں اور ظہر اور عصرکی نمازیں جمع اور قصر کے ساتھ پڑھاتے ہیں۔ اس مسجد کے اندر ساڑھے تین لاکھ نمازیوں کی گنجائش ہے۔

جبلِ رحمت:میدانِ عرفات کی مشرقی سمت 65میٹر بلند ایک پہاڑی ہے۔ مسجدِ نمرہ سے اس کا فاصلہ 1.5میٹر ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے پہلو میں وقوف فرمایا اور غروب آفتاب تک دعائیں فرماتے رہے۔ حضرت آدم و حضرت حوّا علیہما السلام جنّت سے زمین پر اتارے گئے، تو ایک دوسرے سے کافی دُور تھے۔ یہ وہی جگہ ہے، جہاں حضرت جبرائیل علیہ السلام نے ان دونوں کو ملایا تھا۔ حجّاجِ کرام میدانِ عرفات میں مغرب کی نماز ادا کیے بغیر غروبِ آفتاب کے ساتھ ہی مزدلفہ روانہ ہوجاتے ہیں۔

مزدلفہ : منیٰ اور عرفات کے درمیان ایک وادی کا نام ہے۔ دس ذی الحجہ کو رات یہاں قیام، حج کے واجبات میں سے ہے۔ حجّاجِ کرام عرفات سے غروبِ آفتاب کے بعد اس وادی میں آتے ہیں۔ یہاں مغرب و عشاء کی نماز ادا کرتے ہیں، یہیں سے کنکریاں بھی چُن لیتے ہیں۔ نمازِ فجر کے بعد قبلہ رُخ ہو کر تکبیر و تہلیل اور دعائیں مانگتے ہیں اور صبح کی روشنی پھیلنے پر منیٰ کی جانب روانہ ہوجاتے ہیں۔

مسجد مشعر حرام:یہ مسجد مزدلفہ میں ٹھیک اس جگہ واقع ہے، جہاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقعے پر مزدلفہ کا وقوف فرمایا تھا۔ یہ مسجد شارع نمبر5پر واقع ہے۔ اس میں ایک وقت میں بارہ ہزار افراد نماز ادا کرسکتے ہیں۔

وادی محسّر: منیٰ اور مزدلفہ کے درمیان وہ جگہ ہے، جہاں اللہ تعالیٰ نے ابرہہ اور اس کے ہاتھیوں کا لشکر تباہ کیا تھا۔ اس کا ذکر سورئہ فیل میں ہے۔ یہاں سے حاجیوں کو تیزی سے گزرنے کی ہدایت ہے۔ حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وادئ مُحسّر سے گزرے، تو آپ نے اپنی رفتار تیز کردی تھی۔ (صحیح مسلم کتاب الحج،1218)۔

وادی عرنہ:میدانِ عرفات اور نمرہ کے درمیان وادی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے وقوفِ عرفہ سے پہلے خطبۂ حج ارشاد فرمایا، پھر ظہر اور عصر کی نمازیں ظہر کے وقت جمع اور قصر کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عرفات میں جبلِ رحمت کے پاس تشریف لے گئے اور غروبِ آفتاب تک وقوف فرمایا۔

معلیٰ قبرستان: یہ مکّہ مکرّمہ کا قدیم اور مشہور قبرستان ہے، یہ محلّہ حجون میں مسجدالحرام کے شمال میں700میٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس قدیم قبرستان میں اہلِ مکّہ کی ایک بڑی تعداد کے علاوہ امّ المومنین حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی اللہ عنہا، حضرت عبداللہ بن زبیر،ؓ ان کی والدہ حضرت اسماء بنتِ سیّدنا ابوبکر صدیق ؓکی قبورِ مبارکہ بھی ہیں۔ حافظ الہیثمی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس ؓ نے فرمایا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس قبرستان میں تشریف لائے تو فرمایا ’’نعم المقبرۃ ہٰذا‘‘ ترجمہ: کیا ہی اچھا ہے یہ مقبرہ۔(مجمع الزوائد 297/3)

امّ المومنین حضرت میمونہ کی قبر: ذی قعدہ 7ہجری میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عمرئہ قضا کے لیے مکّہ مکرّمہ تشریف لے گئے، مکّہ میں تین دن قیام کے دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے چچا حضرت عباس کی درخواست پر حضرت میمونہ سے نکاح فرمایا، جو حضرت عباس کی اہلیہ امّ الفضل کی حقیقی بہن تھیں اور بیوہ ہوچکی تھیں۔ پھر مکّہ سے10کلو میٹر دُور سرف کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوتِ ولیمہ دی۔

حضرت میمونہ ؓرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری زوجہ محترمہ تھیں۔ اُن کا انتقال51ہجری میں80سال کی عُمر میں سرف کے مقام پر ہوا۔ (صحیح بخاری 4258,4259)۔ مقامِ سرف مدینہ منورہ سے مکّہ مکرّمہ جانے والے راستے میں دائیں جانب ہجرت روڈ پر واقع ہے۔ حضرت خدیجہ اور حضرت میمونہ کے علاوہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی باقی سب ازواجِ مطہراتؓ بھی مدینہ منورہ میں مدفون ہیں۔ (جاری ہے)