• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مکّہ مکرّمہ خلفائےراشدینؓ کے عہد میں.....

نبی کریم، حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد زمام ِخلافت سیّدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ نے سنبھالی۔ اُس وقت شرپسند عناصر نے عرب کے پُرسکون ماحول کو خراب کرنے کی کوشش کی۔ بعض نومسلم قبائل نے نہ صرف زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کیا، بلکہ مُرتد ہونے اور دوبارہ پُرانا مذہب اختیار کرنے کا عندیہ دیا۔ اضطراب اور انتشار کے اس نازک موقعے پر حضرت سہیل بن عمروؓ نے اہلِ مکّہ کو جمع کرکے فرمایا۔ ’’اے مکّہ کے لوگو! اے اہلِ قریش…! تم وہ لوگ ہو، جو سب سے آخر میں مسلمان ہوئے ہو، جب کہ تم سے بہت پہلے اہلِ مدینہ نے اسلام قبول کیا۔ 

تمہارے عزیز و اقارب کو اُس وقت پناہ دی، جب تم اُن کے جانی دشمن ہوگئے تھے۔ اگر اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکّہ فتح نہ فرماتے، تو شاید تم لوگ مشرک ہی رہتے۔ تم لوگ سب سے آخر میں اسلام لانے کے بعد، اب سب سے پہلے مُرتد ہونے کا گناہ اپنے نام کرنا چاہتے ہو۔ اللہ کی قسم! مجھے پورا یقین ہے کہ جس سرزمین سے سورج طلوع ہوتا اور جہاں غروب ہوتا ہے، وہاں تک صرف حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا دینِ اسلام ہی ہوگا۔‘‘ اس پُرجوش خطاب نے اہلِ مکّہ کے دِلوں میں ایمان کی رُوح تازہ کردی۔ مکّہ کے لوگوں نے نہ صرف ثابت قدم رہنے کا عہد کیا، بلکہ یہ لوگ جہاد کا ہراول دستہ بنے اور اسلامی فتوحات کا دائرہ شام و عراق تک پھیل گیا۔

23؍جمادی الثانی 13؍ہجری کو سیّدنا حضرت ابوبکر صدیقؓ کی وفات کے بعد حضرت عُمر فاروقؓ نے خلافت کی ذمّے داریاں سنبھالیں۔ آپؓ کا عہدِ خلافت فتوحات، خوش حالی اور امن کا دَور تھا۔ فتوحات کا یہ عالم تھا کہ 22؍لاکھ 51؍ہزار 30؍مربع میل رقبے پر اسلامی پرچم لہرا چُکا تھا۔ مدینہ منورہ میں مالِ غنیمت کے ڈھیر لگ چکے تھے۔ مکّہ مکرّمہ میں بھی امن و خوش حالی اپنے عروج پر تھی۔ حضرت عُمر فاروقؓ کی شہادت کے بعد 4؍محرم الحرام 24؍ہجری کو سیّدنا حضرت عثمان بن عفانؓ کو خلیفہ منتخب کیا گیا۔ آپؐ کے عہد میں اسلامی فتوحات کا سلسلہ مزید وسیع ہوگیا۔

مسلمانوں کے پاس مال و دولت کی خُوب فراوانی تھی۔ اُس دَور میں مکّہ مکرّمہ میں زبردست ترقیاتی کام ہوئے۔ مکّہ مکرّمہ کی بندرگاہ جو شعیبہ میں تھی، اسے جدّہ منتقل کیا گیا۔ مکّہ کے نواحی علاقے میں بہت سے باغات وجود میں آگئے۔ الغرض، عہدِ خلافتِ راشدہ میں مکّہ مکرّمہ میں امن و سلامتی، تعمیر و ترقی، خوش حالی و فراوانی کا دَور دورہ رہا۔ عہدِ خلافتِ راشدہ کے آخری برسوں میں بعض مسائل نے سر اٹھایا۔ اختلافات بھی سامنے آئے۔ تاہم، ان حالات کا اثر مکّہ مکرّمہ پر نہیں پڑا۔ (تاریخِ مکّہ مکرّمہ، محمود محمّد حمو، صفحہ18)۔

مکّہ مکرّمہ.....بنو اُمیّہ کے عہد میں

اموی خاندان میں سب سے پہلے حضرت امیر معاویہؓ نے مکّہ مکرّمہ اور اہلِ مکّہ کی ترقی، خوش حالی اور فلاح و بہبود پر توجّہ مبذول کی۔ پینے کے پانی کے لیے چشمے جاری کیے، کنویں کھدوائے، پانی کے ذخیرے کے لیے بڑے بڑے حوض بنوائے اور اہلِ مکّہ کے دل جیتنے کی بھرپور کوشش کی۔ 60؍ہجری میں حضرت امیر معاویہؓ کی وفات کے بعد اُن کے نااہل بیٹے یزید نے حکومت سنبھالی۔ اُس شخص نے نواسۂ رسولؐ، امامِ عالی مقام حضرت امام حسینؓ، اہلِ بیت اور اُن کے جاں نثاروں کو کربلا کے میدان میں نہایت بے دردی سے شہید کروایا۔ 

یہ سانحۂ عظیم 61؍ہجری میں وقوع پذیر ہوا۔ 64؍ہجری میں یزید نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے مقابلے کے لیے ایک بڑی فوج مکّہ مکرّمہ روانہ کی۔ مسلم بن عقبہ اس فوج کا سربراہ تھا، راستے میں وہ فوت ہوگیا اور کمان حصین بن نمیر نے سنبھالی۔ اُس نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو یزید کی اطاعت کا پیغام بھیجا، انکار پر مکّہ کا محاصرہ کرلیا اور کوہِ ابوقبیس پر منجنیق نصب کرکے خانۂ کعبہ پر سنگ باری شروع کردی۔ یہ محاصرہ اور سنگ باری تین ماہ تک جاری رہی، جس سے خانۂ کعبہ کی دیواریں شکستہ و سیاہ ہوگئیں۔ اس اثناء میں یزید کی موت کی خبر آئی، جسے سُن کر حصین بن نمیر واپس چلا گیا۔ مکّے اور مدینے کے لوگوں نے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کو اپنا امیر منتخب کرلیا۔ حجاز، یمن اور خراسان کے لوگوں نے بھی آپ کے ہاتھ پر بیعت کرلی۔ مکّہ مکرّمہ میں امن و امان ہوگیا۔ جس کے بعد حضرت عبداللہ بن زبیرؓ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے طرز پربیت اللہ شریف کی ازسرِنو تعمیر کروائی۔

73؍ہجری میں اموی خلیفہ عبدالملک بن مروان نے چالیس ہزار جنگجوئوں کے ایک لشکرِ کے ساتھ اپنے سفّاک جرنیل حجّاج بن یوسف کو حضرت عبداللہ بن زبیرؓ سے جنگ کے لیے مکّہ مکرّمہ روانہ کیا۔ حجاج بن یوسف نے کئی ماہ تک مکّہ مکرّمہ کا محاصرہ جاری رکھا، اسی دوران منجنیقوں سے کعبہ شریف پر بم باری کرواتا رہا، یہاں تک کہ ایک روز وہ شجاعت و بہادری کے پیکر، سیّدنا عبداللہ بن زبیرؓ کو شہید کرنے میں کام یاب ہوگیا۔ اس اندوہ ناک سانحے کے بعد مکّہ مکرّمہ پر بھی بنو اُمیّہ کا قبضہ ہوگیا۔ اس کے بعد حجّاج بن یوسف نے کعبۃ اللہ کو ازسرِنو اسی طرح تعمیر کروایا، جیسا عہدِ نبوتؐ میں تھا۔

مکّہ مکرّمہ..... عباسی دورِ حکومت میں

مؤرخین نے عباسی دَورِ خلافت میں مکّہ مکرّمہ کی تاریخ کو تین ادَوار میں تقسیم کیا ہے۔

پہلا دَور (عباسیوں کی خلافت)132 : ؍ہجری مطابق 749؍عیسوی میں بنو عباس نے خلافت سنبھالی۔ اُن کے ابتدائی دَور میں علویوں کی متعدد بار تحریک کی وجہ سے مکّہ مکرّمہ میں سیاسی اضطراب بڑھا۔ خلافتِ عباسیہ میں دمشق، شام اور بغداد اسلامی ریاست کے مراکز تھے، جس کی وجہ سے مکّہ معظمہ میں صرف ایک گورنر تعینات کیا جاتا۔ بعض اوقات تو امیرِ حج ہی کو عارضی گورنر بنا کر اُنھیں حج کے دِنوں میں نظم و نسق چلانے کا اختیار دے دیا جاتا تھا۔ معاشی بدحالی عروج پر ہونے کی بِنا پر مکّہ کے بہت سے باشندے دوسرے شہروں میں منتقل ہوگئے تھے، البتہ حج کے دنوں میں مکّہ مکرّمہ میں وقتی طور پر کچھ خوش حالی نظر آتی۔ ابو جعفر منصور اور مہدی نے اپنے دَور میں حرم شریف کی توسیع و تزئین کروائی، اہلِ علم کو مستقل بنیادوں پر وظائف دیئے۔ 

خلیفہ ہارون الرشید کے دَورِ خلافت میں اہلِ مکّہ پر بے دریغ روپیا خرچ کیا گیا، یہاں تک کہ مکّہ سے مُفلسی دور ہوگئی۔ ہارون رشید کی اہلیہ زبیدہ جب حج پر آئیں اور اُنھوں نے مکّہ کے لوگوں کو پانی کی کمی کا شکار پایا، تو اپنے ذاتی خرچ سے 36؍کلومیٹر طویل نہر کھدوائی۔ اس نہر سے بارہ سو سال تک وہاں کے باشندوں کی ضروریات پوری ہوتی رہیں۔ یہ نہر ’’نہرِزبیدہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے، جس کے آثار آج بھی موجود ہیں۔ 317؍ہجری بمطابق 930؍عیسوی، قرامطہ کے پیروکار حج کے دنوں میں مکّہ مکرّمہ پر قابض ہوگئے اور حجرِاسود نکال کر اپنے ساتھ لے گئے۔ بعدازاں، 339؍ہجری میں اس مقدّس پتھر کو واپس لایا گیا۔ یعنی 22؍برس تک حجرِاسود اپنی جگہ سے غائب رہا۔ (تاریخ حجرِ اسود، علی شبیر، صفحہ55)

دوسرا دَور (فاطمیین کی حکومت): مکّہ مکرّمہ پر فاطمیین کی حکومت 358؍ہجری سے 546؍ہجری تک رہی۔ 358؍ہجری بمطابق 969؍عیسوی کو فاطمیوں نے مکّہ مکرّمہ کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے کر مکّہ مکرّمہ کی ولایت، شرفاء کے رئیس جعفر بن محمدکے سپرد کردی۔ اس نے مکّہ میں مستقل اشراف کی حکومت قائم کی اور اپنی اس ولایت کو مصر میں فاطمیوں کے ماتحت کردیا۔ اشراف کی یہ حکومت تقریباً دو سو سال تک چلتی رہی، اس دوران حالات کبھی سازگار ہوجاتے، کبھی بدتر۔ اشراف کے دَور میں حجّاج پر ٹیکس عائد کردیئے گئے۔ علمی سرگرمیاں تقریباً مفقود ہوگئیں، اہلِ علم مجبوراً مکّہ مکرّمہ سے نقل مکانی کرگئے۔ مکّہ میں منہگائی اور معاشی حالات ابتر رہے، لیکن قلعوں کی تعمیرکے علاوہ شہر کی فصیلیں بھی بنائی گئیں۔ (مکّہ مکرّمہ از محمود و محمد حمو)۔

تیسرا دَور( زنگیوں اور ایوبیوں کے ماتحت) 546:؍ہجری سے 652؍ہجری تک دراصل زنگیوں اور ایّوبیوں کا دورِ حکومت تھا، جو اہلِ مکّہ کے لیے خوش حالی اور امن و امان کی نوید لے کر آیا۔ نور الدین زنگیؒ نے اہلِ مکّہ کے مالی، معاشی، ترقیاتی اور امن و امان سے متعلق معاملات پر خصوصی توجّہ دی۔ اہلِ علم کے وظائف مقرر کیے، حجّاجِ کرام پر عاید تمام ٹیکس ختم کرکے اُن کے لیے مزید سہولتیں اور آسانیاں پیدا کیں۔ بعدازاں، صلاح الدین ایوبیؒ حکمران مقرر ہوئے، تو انہوں نے نورالدّین زنگی کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے مکّہ مکرّمہ کے حالات و معاملات پر خصوصی توجّہ دی۔

مکّہ معظمہ کے قبائل کی مالی امداد، تجارتی قافلوں اور حجّاجِ کرام کی حفاظت سے مشروط کردی۔ صلاح الدین ایوبیؒ نے ایک بڑا کام یہ کیا کہ اہلِ مکّہ کو اُن کے آبائی پیشے یعنی تجارت کی جانب راغب کیا اور دل کھول کر اُن کی مدد کی۔ نتیجتاً وہاں کے شہری جلد ہی خودکفیل و خوش حال ہوگئے۔ نیز، اہلِ علم کے وظائف مقرر کرکے انہیں تحقیق و تحریر کی جانب مائل کیا، چناں چہ اِس دَور میں علمی ذخائر میں خاطرخواہ اضافہ ہوا۔

مکّہ مکرّمہ..... عہد ممالیک میں

 (652؍ہجری سے 923؍ہجری)

اشراف نے مکّہ مکرّمہ پر اپنی ولایت، مصر میں قائم ممالیک حکومت کے تابع کردی۔ مصر میں ایوبیوں نے زمامِ حکومت سنبھالی۔ فاطمیوں کے خاتمے کے بعد اشرافِ مکّہ نے اپنی ولاء ایوبیوں کے ماتحت کردی۔ سلاطینِ نے مکّہ مکرّمہ میں امن و امان، خوش حالی اور ترقیاتی کاموں پر خصوصی توجّہ دی۔ اشراف نے آپس کے اختلاف ختم کروائے۔ عہدِ ممالیک ہی میں سلطان قاتیبائی نے 882؍ہجری میں ایک مدرسہ، کتب خانہ اور یتیموں کے لیے رباط بنانے کا حکم دیا۔ (تاریخِ مکّہ مکرّمہ، محمود محمّد حمّو)۔

مکّہ مکرّمہ..... عثمانی دَور حکومت میں

923؍ہجری میں ترکی کے عثمانی خلیفہ سلیم اول عثمانی نے مصر میں ممالیک حکومت کا خاتمہ کردیا۔ مکّہ کے حکمراں شریف برکات نے فوری طور پر معتبر بزرگوں کے ایک وفد کو مکّہ معظمہ سے سلطان سلیم کی خدمت میں روانہ کیا، جس نے سلطان کو اپنی امارت کی جانب سے مکمل وفاداری اور تابع داری کا یقین دلایا۔ چناں چہ سلطان سلیم نے شریف برکات کو مکّہ کی امارت پر برقرار رکھا اور اُسے تحفے تحائف بھی بھجوائے۔ 

ادھر اشرافِ مکّہ میں اقتدار پر قبضے کے لیے باہمی رقابت و کشمکش روز بروز بڑھتی چلی جارہی تھی، چناں چہ 1099؍ہجری میں سلطنتِ عثمانیہ نے اشرافِ مکّہ کی اسی رقابت و دشمنی کے خاتمے کے لیے شریف احمد بن غالب کو مکّہ کا امیر مقرر کردیا۔ 1186؍ہجری /1772؍ء میں مکّہ مکرّمہ کی امارت شریف سرور کے ہاتھ میں آئی۔ اُس کا دَور امن و امان اور خوش حالی کا دَور ثابت ہوا۔ اجیاد قلعے کی تعمیر اُس کے اہم کاموں میں شامل ہے۔ (مکّہ مکرّمہ از محمود محمد حمو)۔

سعودی دَور کا آغاز

1139؍ہجری بمطابق 22؍فروری 1727؍عیسوی ایک تاریخی دن تھا کہ جب سعودی جدّاعلیٰ محمد بن سعود بن محمد آل مقرن نے ’’ریاض‘‘ کے شمال مغرب میں ’’امارتِ درعیہ‘‘ کا اقتدار سنبھالا۔ اس کے 17؍سال بعد1157؍ہجری بمطابق 1744؍عیسوی کو محمد بن سعود اور نجد کے مشہور عالمِ دین، محمد بن عبدالوہاب کے درمیان امربالمعروف اور نہی عن المنکر پر عمل پیرا ہونے کا عہد و پیمان ہوا۔ اس معاہدے کے بعد محمد بن سعود کی تلوار اور شیخ محمد بن عبدالوہاب کی تبلیغ نے ایسے جوہر دکھائے کہ تھوڑے ہی عرصے میں ریاست کی حدود میں توسیع ہوتی چلی گئی۔ آلِ سعود ترقی و کام رانی کی راہ پر گام زن تھے کہ 1178؍ہجری بمطابق 1765؍عیسوی کو محمّد بن سعود انتقال کرگئے۔ 

محمّد بن آل سعود کی پیرانہ سالی کے سبب شیخ محمّد بن عبدالوہاب کے مشورے پر 1163؍ہجری بمطابق 1750؍عیسوی کو عبدالعزیز بن سعود کو ولی عہد نام زد کیا گیا۔ ماہ شوال 1206؍ہجری بمطابق 1791؍عیسوی کو شیخ عبدالوہاب نجدی بھی 92؍سال کی عُمر میں رحلت فرما گئے۔ رجب 1218؍ہجری بمطابق جون 1803ء کو امام عبدالعزیز بِن سعود کو نمازِ عصر کے دوران سجدے کی حالت میں عثمان نامی ایک شخص نے شہید کردیا۔ چناں چہ سعود بن عبدالعزیز بِن محمد آلِ سعود نے حکومت کے سربراہ کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور اسی سال بغیر کسی قتل و قتال کے مکّہ مکرّمہ کی امارت سنبھالی گئی۔ یوں 1218ہجری کو مکّہ مکرّمہ سے عثمانی دَور کا خاتمہ اور سعودی دَور کا آغاز ہوا۔1220؍ہجری بمطابق 1805ء یعنی مکّہ مکرّمہ پر قبضے کے دو سال بعد مدینہ منوّرہ پر بھی سعودی حکومت قائم ہوگئی۔ سلطنتِ سعودیہ کے دَور میں مکّہ مکرّمہ میں امن و سکون رہا، لیکن ابھی سات سال ہی گزرے تھے کہ 1228ہجری کو محمد علی پاشا نے مکّہ مکرّمہ پر قبضہ کرکے سلطنتِ سعودیہ کا خاتمہ کردیا۔

مکّہ مکرّمہ پر محمد علی پاشا کی حکومت

(1228؍ہجری سے 1256؍ہجری )

محمد علی پاشا کے بیٹے ابراہیم پاشا نے سعودی حکومت کا خاتمہ کرکے مکّہ مکرّمہ پر قبضہ کیا تھا، چناں چہ محمد علی پاشا نے مکّہ کی امارت، ابراہیم کے حوالے کردی۔ مجموعی طور پر اس دور میں مکّہ مکرّمہ کے حالات بہتر رہے۔ تجارت کو فروغ ملا، لیکن پھر اندرونی اختلافات، عُہدوں کی تقسیم اور اقتدار کی کشمکش اُبھر کر سامنے آنے لگی۔ دوسری طرف محمد علی پاشا نے نجد میں قائم سعودی حکومت پر حملے شروع کردیئے۔ چناں چہ مکّہ پر بیرونی حملوں کے خوف اور اندرونی و بیرونی بگڑتی صورتِ حال کے پیشِ نظر 1256؍ہجری بمطابق 1840ء میں محمد علی پاشا نے مکّہ مکرّمہ کی ولایت کا سلطنتِ عثمانیہ سے الحاق کردیا۔ یوں مکّہ مکرّمہ پر دوسرے عثمانی دَور کا آغاز ہوا۔ (جاری ہے)