غزلیات: یہ جسم و روح بھی جلتے ہیں، خواب جلتے ہیں ...

November 27, 2022

یہ جسم و روح بھی جلتے ہیں، خواب جلتے ہیں

غموں کی آگ سے ہم بھی جناب جلتے ہیں

چلی ہیں ایسی ہوائیں کہ موسمِ گُل میں

چمن اداس ہے، دل کش گلاب جلتے ہیں

سکون دیتی ہے اُن کو ہماری بربادی

ہماری خوش بوؤں سے خانہ خراب جلتے ہیں

کیا ہے اس طرح برباد وحشتوں نے مجھے

وفا و پیار کے سارے نصاب جلتے ہیں

بس اس کی یادوں پہ ہی منحصر نہیں ہے سحرؔ

کتابِ زیست کے سارے ہی باب جلتے ہیں

(محمّد علی سحر، محمود آباد، کراچی)

٭٭٭

رہا دل گرفتہ سدا سے میں، میری ہم سفر سے بنی نہیں

ہیں ہزار غم تو میرے لیے، مگر ایک لفظِ خوشی نہیں

مجھے تجھ سے کوئی گلہ نہیں، مجھے غم بھی تیرا عزیز ہے

یہی زندگی میں ملال ہے، میرے دل کی دنیا بسی نہیں

کہا جانِ عشق جو آپ کو تو اُسے نبھائوں گا عمربھر

ہے یہ اور بات کہ آپ سے میری کوئی بات نبھی نہیں

کبھی تم نے آنے میں دیر کی، کبھی منتظر مَیں نہ رہ سکا

یوں سبب بنے ہیں جدائی کے، تیری دید اب تک ہوئی نہیں

کبھی شوق سے جو نظر اٹھی، تو نقاب رُخ پر گرا لیا

یہ میرے نصیب کی بات ہے، تیری دید مجھ کو ہوئی نہیں

غمِ زندگی کا شکار ہے، نہ سکون ہے، نہ قرار ہے

کہ نصیبِ جوہرِؔ زار میں ہے ملال و رنج، خوشی نہیں

(سیّد سخاوت علی جوہر)