مدینہ منورہ... عہدِ قدیم سے دورِ جدید تک (قسط نمبر 1)

November 27, 2022

مغربی سعودی عرب کے خطّہ حجاز کا شہر، مدینہ منوّرہ اسلام کا دوسرا مقدّس ترین شہر ہے۔ اس کا پُرانا نام یثرب تھا، لیکن حضرت محمّدﷺکی ہجرتِ مبارکہ کے بعد اس کا نام مدینۃ النبیﷺ رکھ دیا گیا، جو بعدازاں مدینہ بن گیا۔ اس شہرِمقدّس کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہاں مسجدِ نبوی ؐ اور حضور نبی کریمﷺ کا روضۂ مبارک ہے، جس کی زیارت کے لیے ہر سال لاکھوں فرزندانِ توحید یہاں پہنچتے ہیں۔

تاریخِ اسلام کی پہلی مسجد، مسجد ِقباء بھی اِسی شہر میں موجود ہے۔ مکّہ مکرّمہ کی طرح مدینہ منوّرہ میں بھی صرف مسلمانوں کو داخلے کی اجازت ہے اور اس کی ایک اور خصوصیت جو بیان کی جاتی ہے، وہ یہ ہے کہ اس کے چاروں اطراف باقاعدہ فرشتے مقرر ہیں اور یہاں دجّال داخل نہیں ہو سکے گا۔ بلاشبہ دنیا بھر کے تمام مسلمان اس شہر سے خصوصی دلی لگائو رکھتے ہیں۔

جنگ، سنڈے میگزین کے قارئین کی دل چسپی و آگہی کے لیے ’’مکّہ مکّرمہ :ماضی و حال کے آئینے‘ میں جیسے خُوب صُورت سلسلے کی اشاعت کے بعد، شہر مقدّس، مدینہ منوّرہ کی تاریخ، تہذیب و تمدّن اور تعمیر و ترقی کے ضمن میں ’’مدینہ منورہ.... عہدِقدیم سے دورِ جدید تک‘‘ کے عنوان سے یہ نیا سلسلہ شروع کیا جا رہا ہے۔ مضمون کی پہلی قسط پیشِ خدمت ہے۔

……٭٭……٭٭……٭٭……

یثرب سے مدینہ تک

آنحضرتﷺ کی دو اہم سہاروں سے محرومی: کوہِ ابو قبیس کی سنگلاخ گھاٹیوں میں سے ایک گھاٹی، شعب ابی طالب میں تین سالہ سخت ترین مقاطعہ اور اذیت ناک محصوری نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی دو عزیز ترین ہستیوں جناب ابو طالب اور حضرت خدیجہؓ کی صحت پر بُرے اثرات مرتّب کیے۔ اسیری کے خاتمے کے چھے ماہ بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سرپرست، حامی و مددگار چچا، سرداربنو ہاشم، جناب ابو طالب وفات پاگئے۔ ابھی کچھ دن ہی گزرے تھے کہ آپؐ کی اہلیہ، مونس و غم گسار، سچی رفیق اور بہترین مشیر، حضرت خدیجہؓ بھی داغِ مفارقت دے گئیں۔ ان پے در پے الَم ناک سانحات نے آنحضرت صلی اللہ علہ وسلم کے مصائب میں بے انتہا اضافہ کردیا۔ ان اہم سہاروں سے محرومی نے قریشِ مکّہ کو مزید بے باک کردیا تھا۔

وہ جو اذیّتیں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابو طالب کی زندگی میں نہیں پہنچاسکتے تھے، اُن کے بعد پہنچانی شروع کردیں۔ بیہقی نے عروہ بن زبیرؓ کی روایت نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’قریش، ابو طالب کی وفات تک بزدل بنے رہے۔‘‘ قریش مکّہ خوش تھے کہ اب محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا پشتیبان کوئی نہیں رہا۔ چناں چہ نفرتیں، دشمنیاں، تکالیف اور اذیّتیں اس قدر شدّت اختیار کرگئیں کہ دینِ اسلام کا دشمن ابولہب بھی آپؐ کی حمایت پر مجبور ہوگیا۔

ابنِ سعدؒ نے لکھا ہےکہ ’’مکّہ میں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ لوگوں کی بدسلوکیاں حد سے بڑھ گئیں، تو ابولہب سے برداشت نہ ہوسکا۔ اس نے قریش سے کہا۔ ’’تم لوگ محمدؐ پر مظالم اس لیے توڑتے ہوکہ اُن کا کوئی سرپرست باقی نہیں رہا، مگر میں اب اپنے بھتیجے کی حمایت کروں گا۔‘‘ لیکن پھر چند روز بعد ہی حق کا حامی بننے والا دشمنِ خدا اپنی اصلیت کی طرف پلٹ گیا۔ (سیرتِ سرور عالمؐ، 2/626)۔

اللہ تعالیٰ نے اہلِ مکّہ کے دِلوں اور کانوں پر مہر لگا دی: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ معمول تھا کہ آپؐ بعد نمازِ فجر مکّہ کے بازاروں میں تشریف لے جاتے اور اہلِ مکّہ کو دین کی دعوت دیتے، لیکن ابو طالب اور امّاں خدیجہؓ کی وفات کے بعد تو یوں لگا کہ جیسے اہل ِمکّہ اجنبی اور بیگانے ہوگئے۔ جو پہلے رُک کر آپؐ کی بات سُن لیا کرتے تھے، اب اُ س کے بھی روادار نہیں رہے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بات کا اندازہ ہوچکا تھا کہ مکّہ مکرّمہ کی بنجر زمین پر فی الحال کسی بھی قسم کی آب یاری ممکن نہیں… اور پھر ابھی چند روز ہی گزرے تھے کہ جبرائیل امین علیہ السلام پیغامِ الٰہی لے کر نازل ہوگئے۔ اللہ نے اپنے محبوب نبیؐ سے فرمایا۔ ’’(اے محمدؐ!) اِن کافروں کو تم نصیحت کرو یا نہ کرو، یہ ایمان لانے والے نہیں، اللہ نے ان کے دلوں اور کانوں پر مُہر لگا رکھی ہے اور اُن کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے، اور اُن کے لیے بڑا عذاب تیار ہے۔‘‘ (سورۃ البقرہ، آیت 6،7)۔

رسول اللہؐ کے خواب اور ہجرت کی ترغیب: یہی وہ دن تھے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ کھجوروں کے لہلہاتے باغات کی ایک سرزمین کی طرف آپؐ ہجرت فرمارہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے خیال فرمایا کہ شاید یہ جگہ ’’یمامہ‘‘ یا ’’ہجر‘‘ ہے، لیکن وہ سرزمینِ ’’یثرب‘‘ تھی۔ (صحیح بخاری،3622/3896)۔ اس خواب کے بعد ایک رات پھر آپؐ نے دیکھا کہ پتھریلی چٹانوں کے درمیان ایک ایسی بستی کی جانب ہجرت فرما رہے ہیں کہ جہاں کھجور کے باغات ہیں۔ اب آپ ؐکو یقین ہوگیا کہ وہ یثرب ہے۔ (صحیح بخاری، 3905)۔ حضرت عمرو سے روایت ہے کہ ’’میں نے عبید بن عمیرؓ سے سنا ہے کہ انبیاء کے خواب بھی وحیِ الٰہی ہوتے ہیں۔‘‘ (صحیح بخاری، 138)۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ہجرت کی اجازت پہلے ہی فرمادی تھی۔

قرآنِ کریم میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ ’’(اے نبیؐ!) کہو کہ اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو۔ اپنے ربّ سے ڈرو، جن لوگوں نے اس دنیا میں نیک رویّہ اختیار کیا ہے، اُن کے لیے بھلائی ہے اور خدا کی زمین وسیع ہے۔ صبر کرنے والوں کو تو اُن کا اجر بے حساب دیا جائے گا۔‘‘ (سورۃالزمر، آیت 10)۔ایک اور جگہ ارشاد فرمایا۔ ’’اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو۔ میری زمین وسیع ہے۔ پس، تم میری ہی بندگی بجا لائو۔‘‘ (سورۃ العنکبوت، آیت، 56) قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ اپنے نبیؐ اور اہلِ ایمان کو ہدایت فرما رہا ہے کہ ’’اگر اللہ کی بندگی کے لیے ایک جگہ تمہارے لیے تنگ پڑگئی ہے، تو فکر کیوں کرتے ہو، اللہ کی زمین تو بہت وسیع ہے۔ اپنا دین بچانے کے لیے کسی اور طرف نکل کھڑے ہو۔‘‘

چچا ابو طالب کی وصیّت: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد آیا کہ چچا ابو طالب نے بھی یثرب چلے جانے کی وصیّت کی تھی۔ ابنِ سعدؓ نے امام محمّد بن سیرین کے حوالے سے لکھا ہے کہ ابو طالب نے انتقال سے قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا۔ ’’بھتیجے! میرے انتقال کے بعد تم اپنے اخوال یعنی اپنے دادا کی ننھیال بنونجار کے پاس یثرب چلے جانا، کیوںکہ وہ اپنے گھر والوں کی حفاظت دوسروں سے بڑھ کر کرتے ہیں۔‘‘ اس وصیّت سے معلوم ہوتا ہے کہ ابو طالب کیسے دانا اور صاحبِ بصیرت تھے، اُ ن کی نگاہ کتنی دوررس تھی۔

خصوصاً ہجرت کے معاملے میں انہوں نے تین سال پہلے جو رائے دی تھی، وہ بالآخر نہایت صحیح ثابت ہوئی۔ حالاںکہ اُس وقت کسی کے گمان میں بھی یہ بات نہ تھی کہ جزیرہ نمائے عرب کا ایک بیمار شہر ’’یثرب‘‘ محمّدِ عربی صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے جاںنثاروں کو اپنی آغوش میں پناہ دے کر دنیا کی وہ پہلی عظیم الشّان ریاست بن جائے گا، جہاں سے آفتاب ِرسالت کی مقدّس شعاعیں دنیا کو روشن و منوّر کردیں گی۔ (سیرت سرور عالم،625/2)۔

ہجرت کا اِذنِ عام: ابنِ ہشام نے لکھا ہے کہ ذی الحجہ 13میں بیعتِ عقبہ ثانی کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مکّے کے مسلمانوں کو مدینے کی طرف ہجرت کا حکم فرمایا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ’’بےشک اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے بھائیوں اور گھر کا انتظام کردیا ہے، جہاں تم پُرامن طور پر سکون سے رہ سکو گے۔‘‘

شہرِ یثرب کی تاریخ

محلِ وقوع، موسم: یثرب، مدینہ منوّرہ کا قدیم نام ہے۔ مکّہ مکرّمہ سے 450 کلومیٹر شمال میں سنگلاخ پہاڑی سلسلوں سے ذرا آگے کھجوروں کے سرسبز و شاداب باغات کی آغوش میں ایک پُرفضا و خوش نُما وادی ہے۔ یہ شہر مکّہ مکرّمہ اور شام کے وسط میں واقع ہے۔ مغرب میں سمندر سے ایک سو تیس میل دُور اور سطحِ سمندر سے619میٹر بلندی پر آباد یہ شہر جاناں سرزمینِ عرب کا رُوح پرور اور صحت افزا مقام ہے۔ یہاں سردیوں میں سخت سردی اور گرمیوں میں سخت گرمی پڑتی ہے۔ بارشیں عموماً موسمِ سرما میں ہوتی ہیں۔

یہاں کی صبحیں نہایت حسین و جمیل، دن روشن و منور، شامیں بابرکت و پُررونق، راتیں بقعہ نور ہیں، تو یہاں کے باشندے ٹھنڈے مزاجوں کےحامل ہنس مکھ، ملن سار اور مہمان نواز ہیں۔ یاد رہے، یثرب کو ہجرتِ نبیؐ سے پہلے ’’شہر ِبیمار‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب ہجرت فرما کر مہلک امراض کے حامل، وبائوں اور بیماریوں کے اس شہر ِبیمار میں رونق افروز ہوئے، تو یہاں کی آب و ہوا صحابہ کرامؓ کو بھی راس نہیں آئی۔ اکثر مہاجرین بیماریوں میں مبتلا ہوکر صاحبِ فراش ہوگئے۔

امّ المومنین سیّدہ عائشہ صدیقہ بیان فرماتی ہیں کہ ’’جب یہاں ہجرت کرکے آئے تو یہ اللہ کی زمین میں سب سے زیادہ بیماریوں والا شہر تھا۔ اس کے درمیان میں بطحان نامی ایک نالہ تھا، جس میں ہر وقت بدبودار پانی بہتا رہتا تھا۔‘‘ ام المومنینؓ فرماتی ہیں کہ ’’میرے والد ابوبکرؓ اور حضرت بلالؓ بخار میں مبتلا تھے اور شدّت سے کراہ رہے تھے۔ چناں چہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اُن کی تکلیف کی شدّت سے آگاہ کیا۔

میری بات سُن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دُعا کے لیے دستِ مبارک بلند فرمائے اور یہ دُعا فرمائی:’’اے بارِ الٰہی، ہمارے لیے مدینہ کو بھی اُسی طرح محبوب بنادے، جیسے مکّہ محبوب ہے یا اس سے بھی زیادہ کردے، مدینے کی فضائوں کو صحت بخش کردے، اس کے بازاروں اور غلّے کے پیمانوں میں برکت عطا فرمادے اور اس میں موجود بخار کو جحفہ منتقل کردے۔‘‘ (صحیح بخاری حدیث، 3926)۔ اس دُعا کے بعد اللہ نے اس شہر پر اپنا فضل فرمایا اور یہاں کے حالات یک سر تبدیل ہوگئے۔

یثرب..... وجۂ تسمیہ: قومِ عمالیق کے ایک خاندان بنو عبیل کے سردار ’’یثرب بن قانیہ‘‘ کے نام پر اس جگہ کو یثرب کہا جانے لگا۔ یثرب، مصری زبان کا لفظ ہے، جس کے معنی ملامت، فساد، گناہ پر عار اور ذلیل کرنے کے ہیں۔ اللہ کے نبیؐ ہمیشہ بُرے ناموں کو اچھے ناموں سے تبدیل فرما دیا کرتے تھے۔ چناں چہ آپؐ نے شہر میں داخل ہوتے ہی اس کا نام یثرب سے ’’مدینہ منوّرہ‘‘ رکھ دیا۔

سیّدنا جابرؓ بن سمرہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں اس شہر کا نام مدینۂ طیبہ رکھوں۔ (سنن ابو دائود، 204/2)۔ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر عمل اور ہر ہدایت اللہ کی رضا، مرضی اور حکم کے تابع ہوتی ہے۔ یہ صحیح بخاری کی حدیثِ مبارکہ ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’منافق اسے یثرب کہتے ہیں، حالاںکہ اس کا نام مدینہ ہے۔‘‘ (صحیح بخاری، 252/1)۔ مسندِ احمد کی حدیثِ مبارکہ کے مطابق، رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ ’’اب جو مدینہ منوّرہ کو یثرب کہے گا، اس کے نامۂ اعمال میں ایک گناہ لکھ دیا جائے گا۔‘‘ (تاریخِ مدینہ منوّرہ، ص، 27)۔

طوفانِ نوح ؑکے بعد پہلا شہر ’’بابل‘‘: حضرت عبداللہ بن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ طوفانِ نوح ؑ کے دوران حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی میں 80 خاندان مقیم تھے۔ یہ کشتی150دن تک پانی میں رہی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کا رُخ بیت اللہ شریف کی جانب کردیا۔ اس نے چالیس دن وہاں طواف کیا۔ پھر باری تعالیٰ کے حکم سے یہ جبلِ جُودی کے ساحل پر لنگر انداز ہوئی۔ حضرت نوح علیہ السلام نے ان لوگوں کی رہائش کے لیے ایک بستی تعمیر کروائی، جسے تاریخ میں ’’سوق الثمانین‘‘ (80خاندانوں کی بستی) کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

اسی دوران اللہ تعالیٰ نے ان سب کی زبانوں کو بدل دیا، یعنی کُل 80زبانیں ہوگئیں، جن کی ترجمانی کے فرائض حضرت نوح علیہ السلام انجام دیا کرتے تھے۔ جب ان کی نسل میں اضافہ ہوا، تو یہ بستی سے نکل کر قُرب و جوار میں پھیل گئے، اس طرح بابل شہر آباد ہوا، جو96مربع کلو میٹر میں تھا۔ ان کی افزائشِ نسل کا سلسلہ جاری رہا، حتیٰ کہ آبادی ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔ پھر ان لوگوں نے نمرود بن کنعان بن سماریب بن نمروز بن کوش بن حام بن نوح علیہ السلام کو اپنا بادشاہ مقرر کرلیا۔

ابتدا میں ان کی زبان سریانی تھی، لیکن جلد ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں عربی زبان کا فہم بھی عطا فرمادیا۔ سب سے پہلے ’’عاد‘‘ اور ’’عبیل‘‘نے عربی زبان میں کلام کیا۔ (تاریخِ مدینہ منوّرہ، محمّد عبدالمعبود، صفحہ70) علّامہ طبریلکھتے ہیں کہ قبیلہ عمالیق کے بانی عملیق بن لاود بن سام بن نوح ؑنے سب سے پہلے عربی زبان میں کلام کیا۔ سوق الثمانین کی بستی جبل نہاوند کے قریب عراق کے شہر موصل میں تھی۔

سرسبزو شاداب آبادی، یثرب: آبادی میں اضافے کی وجہ سے مختلف خاندانوں نے سرزمین ِعرب کے دیگر علاقوں میں ہجرت شروع کردی۔ قبیلہ بنو عبیل مغرب کی سمت ایک ایسی سرسبز و شاداب وادی میں ہجرت کی، جہاں ہریالی بھی تھی اور میٹھے پانی کے چشمے بھی۔ قبیلے کے سردار ’’یثرب بن قانیہ‘‘ کو یہ جگہ بڑی پسند آئی۔ یہاں چوپایوں کے لیے قدرتی چراگاہیں بھی موجود تھیں، چناں چہ قبیلے نے یہیں رہائش اختیار کرلی اور اس جگہ کو یثرب کے نام سے پکارا جانے نے لگا۔

مورخین لکھتے ہیں کہ شہرِ یثرب2200قبلِ مسیح میں آباد ہوا۔ جب کہ قوم عمالقہ کے باشندے بابل شہر سے یمن کی جانب کُوچ کرگئے۔ یہ لوگ نہایت قوی ہیکل، دیوپیکر، زبردست طاقت وَر اور جفاکش تھے۔ خُوب صُورت عمارتیں بنانا اور باغ بانی و زراعت اُن کا پیشہ بھی تھا اور مشغلہ بھی۔ اُنہوں نے اپنے زورِ بازو سے یمن کے اطراف تمام علاقوں پر قبضہ کرکے اپنی حکومت قائم کرلی، یہاں تک کہ یثرب سے بنو عبیل کو بھی بے دخل کردیا، جس کے بعد ایک وقت وہ آیا کہ مدینہ منوّرہ، مکّہ مکرّمہ سمیت سرزمینِ عرب پر قوم عمالقہ کی حکومت قائم ہوگئی۔ (کتاب المحبر، صفحہ 385)۔

یثرب میں بنی اسرائیل کی آمد

یہودی یثرب میں پہلی مرتبہ کب آئے: مدینہ منوّرہ میں یہودی کس کس دَور میں آکر آباد ہوئے،یہ جاننے کے لیے ماضی کے کچھ ادوار کا جائزہ لیتے ہیں۔ اصفہان کے مشہور ادیب علی بن حسین ابو الفرج اصفہانی20جلدوں پر مشتمل اپنی شہرئہ آفاق کتاب ’’الاغانی‘‘ میں یہودیوں کے مدینہ منوّرہ میں آمد کے بارے میں تفصیل کے ساتھ تحریر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ بنی اسرائیل کے مدینہ منوّرہ میں آمد سے پہلے مدینہ کے تمام علاقوں یعنی تیماء سے فدک تک تمام سرسبز و شاداب باغات، کھیت کھلیان، چراگاہوں سمیت مدینہ منوّرہ اور اس کے اطراف کے تمام علاقوں پر قومِ عمالقہ کے مختلف قبائل کا قبضہ تھا۔ یہ لوگ نہایت طاقت ور، سرکش اور جنگجو تھے۔

حضرت موسیٰ علیہ السلام نے قوم عمالقہ سے جہاد کرنے کے لیے بنی اسرائیل کی ایک بڑی فوج حجاز روانہ کی اور حکم دیا کہ بادشاہ سمیت تمام مردوزن کو قتل کردیا جائے، چناں چہ اسرائیلی فوج نے بھرپور حملہ کرکے وہاں کے بادشاہ سمیت تمام لوگوں کو موت کی نیند سلا دیا، مگر ایک حسین و جمیل شہزادے کو زندہ رہنے دیا کہ اس کے قتل کا فیصلہ حضرت موسیٰ علیہ السلام خود کریں گے۔ یہ لوگ جب اپنے ملک واپس پہنچے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام انتقال فرماچکے تھے۔

قوم کے ذمّے داروں نے جب یہ دیکھا کہ ان لوگوں نے حضرت موسیٰ کے حکم کی خلاف ورزی کی ہے، تو اس غلطی کو ناقابلِ معافی جرم قرار دے کر ملک بدر کردیا۔ چناں چہ یہ لوگ حالات سے مجبور ہوکر حجاز کی جانب لوٹ گئے۔ ان میں سے ایک دو قبیلے مدینہ منوّرہ میں آباد ہوئے۔ یوں 1400 قبلِ مسیح میں یہ یہود کا پہلا لشکر تھا، جو پہلی مرتبہ مدینہ میں آباد ہوا۔ یہ لوگ زمانۂ دراز تک مدینہ منوّرہ میں قلعے، محل اور جاگیریں بناکر عیش و عشرت اور امن و سکون کی زندگی گزارتے رہے۔ (کتاب الاغانی، جلد19، ص969.94)۔ (جاری ہے)