غیرت کے نام پر قتل

June 10, 2016

ملک میں قانون سازی کے بعد غیرت کے نام پر قتل اور کاروکاری جیسے گھنائونے جرائم کا تدارک نہیں ہوسکا اور یہ دونوں سنگین جرائم جاری و ساری ہیں۔ اگرچہ حکومت کی جانب سے قانون سازی کر کے سخت سزائیںتجویز کی گئیں ہیں اسکے باوجود یہ سلسلہ جاری ہے اور پولیس آہنی ہاتھ سے اس کے تدارک اور روک تھام کےلئے کوئی ٹھوس قدم اٹھانے سے یوں قاصر ہے کہ غیرت کے نام پر قتل ایک ایسا مسئلہ ہے جس میں خاندان کے لوگ نہ صرف شریک بلکہ اس میں ملوث بھی ہوتے ہیں چاہئے تو یہ ہے کہ ایسے واقعات میں ملوث افراد کو سخت ترین سزائیں دے کر نشان عبرت بنا دیا جائے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران ایسے دو المناک واقعہ ہوئے ہیں جو قانون نافذ کرنے والے اداروں ہی نہیں معاشرہ کے لئے بھی لمحہ فکریہ ہیں۔ گزشتہ روز لاہور کے علاقہ چونگی امرسدھو میں ایک ایسا ہی ہولناک واقعہ ہوا جس میں پسند کی شادی کرنے پر 18سالہ زینت نامی لڑکی کی والدہ اور اس کے بیٹوں نے تیل چھڑک کر اسے زندہ جلا دیا۔ زینت نے 29مئی کو کورٹ میرج کی تھی۔ اس کے چچا، کزن اور دیگر رشتہ داروں نے اس کے شوہر کو یہ یقین دہانی کرائی کہ عزت و احترام سے شادی کردی جائے گی اور اس کے بعد لڑکی کو گھر لے گئے جہاں اسے بے دردی سے غیرت کے نام پر قتل کردیا گیا۔ ایسا ہی ایک اور واقعہ گزشتہ ماہ ایبٹ آباد میں ہوا جس میں ایک لڑکی کو اس الزام میں قتل کر کے جلا دیا تھا کہ اس لڑکی نے اپنی ایک سہیلی کو پسند کی شادی کرنے کے بعد فرار ہونے میں مدد دی تھی۔ مقامی جرگہ بٹھا اوراسے سنگین جرم قرار دے کر اس لڑکی کو پہلے گلہ گھونٹ کر مار دیا اور اس کے بعد بیہمانہ طور پر جلا دیا۔ پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کا سلسلہ ہے کہ سخت قانون سازی کے باوجود اسے روکا نہیں جاسکا۔ ایک سروے کے مطابق گزشتہ سال گیارہ سو معصوم بچیاں غیرت کے نام پر بھینٹ چڑھائی گئیں۔ ضرورت ہے کہ اول دور دراز علاقوں میں جرگہ سسٹم ختم کیا جائے اور ایسے جرائم کے خاتمہ کے لئے فوری اقدام کئے جائیں کہ کسی بھی مہذب معاشرہ میں اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔