عرفان صدیقی کے شعری مجموعے ’’گریز پا موسموں کی خوشبو‘‘ کی تقریبِ رونمائی

January 29, 2023

عرفان صدیقی کی موجودہ شہرت تو ایک سیاست دان کی ہے اور وہ اِس وقت نہ صرف مسلم لیگ نون کے سینیٹر ہیں بلکہ سینیٹ کی اسٹینڈنگ کمیٹی برائے تعلیم کے چیئرمین بھی ہیں۔ صدرِ پاکستان محمّد رفیق تارڑ(مرحوم) کے پریس سیکریٹری اور وزیرِ اعظم، میاں محمّد نواز شریف کے مشیر برائے قومی ثقافت و وَرثہ ڈویژن بھی رہے۔ وہ ماضیٔ قریب میں ایک کالم نگار کے طور پر معروف رہے۔ اُن کے کالمز مُلک کے مؤقر اخبارات و رسائل میں چَھپتے رہے اور اب بھی شایع ہو رہے ہیں۔

اِس سے پہلے وہ پچیس برس تک شعبۂ تدریس سے وابستہ تھے اور اس دوران کئی نام وَر شاگرد تیار کیے، جن میں سابق چئیرمین جوائنٹ چیفس آف اسٹاف جنرل زبیر حیات، حال ہی میں ریٹائر ہونے والے آرمی چیف، جنرل قمر جاوید باجوہ، اعجاز الحق اور سابق وزیرِ اعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکریٹری، فوّاد حسن فوّاد جیسے لوگ شامل ہیں۔ آپ ایک علمی و ادبی خانوادے سے تعلق رکھتے ہیں۔ معروف شاعر، ادیب، مفکّر، سیرت نگار اور صحافی، نعیم صدیقی آپ کے ماموں تھے۔

عرفان صدیقی کی پہلی محبّت اُردو ادب، بالخصوص شاعری ہی ہے، یہ الگ بات کہ وہ ادبی محافل اور مشاعروں سے ہمیشہ دُور رہے۔ اس کی وجوہ خواہ کچھ بھی رہی ہوں، لیکن اس طرزِ عمل نے اُن کی شاعرانہ حیثیت کو خاصا نقصان پہنچایا۔ وہ جتنے اچھے شاعر تھے، بطور شاعر اُنھیں وہ شہرت نہ مل سکی اور نئی نسل تو اُن کی شخصیت کے اِس پہلو سے بالکل ہی بے خبر ہے۔ مقامِ شُکر ہے کہ کچھ پرانے احباب کے اصرار پر اُنھوں نے اپنا شعری مجموعہ مرتّب کیا، جو’’گریز پا موسموں کی خُوشبو‘‘ کے نام سے کچھ ہی عرصہ پہلے شائع ہوا ہے۔

اِس مجموعے کی تقریبِ رونمائی گزشتہ دنوں اکادمی ادبیات پاکستان اور ادبی و ثقافتی تنظیموں’’ادبی پروار‘‘ اور ’’زاویہ‘‘ کے اشتراک سے اکادمی کے فیض احمد فیض آڈیٹوریم میں منعقد ہوئی۔ تقریب کی صدارت اردو کے ممتاز و معروف شاعر، افتخار عارف نے کی، جب کہ پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر اور پروفیسر جلیل عالی مہمانانِ خصوصی تھے۔ اظہارِ خیال کرنے والوں میں ڈاکٹر رؤف پاریکھ، ڈاکٹر فہمیدہ تبسّم، ڈاکٹر حمیرا اشفاق، فوّاد حسن فوّاد، ڈاکٹر جمال ناصر اور ساجد ملک کے اسمائے گرامی شامل ہیں۔ چیئرمین اکادمی، ڈاکٹر یوسف خشک نے اظہارِ تشکّر کے کلمات ادا کیے، جب کہ نظامت کے فرائض رباب تبسّم نے انجام دیئے۔

افتخار عارف نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ’’ عرفان صدیقی کے شعری مجموعے کا حصّہ اوّل نظموں پر مشتمل ہے۔ یہ نظمیں ایک کہانی بیان کرتی ہیں، جو محبّت کے سارے موسموں پر محیط ہے۔ جذبے کی شدّت اور احساس کا وفور پہلے مصرعے سے آخری تک، عہد و پیمان کے مہربان موسموں سے ہجر و فراق کے الم انگیز زمانوں تک، سارا ماحول افسانہ در افسانہ بیان ہوا ہے۔ غزلوں کا غالب مزاج احتجاج، اضطراب اور مزاحمت کا ہے، جو اپنی دھرتی اور اپنے لوگوں کے حالات پر تشویش اور اس ظلم و جبر کے خلاف جدوجہد کے جذبے کے ساتھ اس بے لحاظ و بے مہر نظام کی آئینہ دار ہیں۔

جب کہ نظموں کی فضا میرا جی، مجاز اور ساحر کی ترقّی پسند روایت سے جُڑی ہے۔‘‘ اُنہوں نے مزید کہا کہ ’’قاری کو یہ انداز مانوس بھی لگے گا اور خوش گوار بھی۔ لغتِ شعر کی انفرادیت کی داد بھی اہلِ ذوق پر لازم ہے۔ عرفان صدیقی زندگی اور محبّت کے مشکل مراحل سے گزرا ہے، وفا اس کی سرشت اور شاعری میں شامل ہے۔‘‘پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر نے عرفان صدیقی کی منتخب نظموں کا حوالہ دیتے ہوئے خُوب صُورت تجزیہ کچھ یوں پیش کیا’’عرفان صدیقی کی رومانی نظمیں اُن کی شخصیت کا اصل بھید کھولتی ہیں۔‘‘ پروفیسر جلیل عالی نے کہا کہ’’ عرفان صدیقی اچھے شاعر ہونے کے ساتھ بہت اچھے ڈراما نگار اور کالم نگار بھی ہیں۔

ان کی نظموں، غزلوں کا ایک معیار، پیمانہ اور شاعری کی کئی جہتیں ہیں، البتہ رومانس ایک غالب عنصر ہے، جو ایک رویّے کے طور پر سامنے آتا ہے۔‘‘ صاحبِ کتاب، عرفان صدیقی نے کہا کہ ’’میری شاعری کا فکر و فلسفے کی موشگافیوں اور حکمت و دانش کی نکتہ آفرینیوں سے دُور کا بھی واسطہ نہیں۔ اس میں بنی نوعِ انسان کے ازلی و ابدی مسائل کا کرب ہے،نہ اپنے وقت کی رعونتوں کے خلاف برسرِ پیکار جرّی سپاہیوں کو خراجِ تحسین اور نہ ہی بندۂ مزدور کے تلخ اوقات کی نوحہ گری ہے۔

میری شاعری بنیادی طور پر خوابوں، رنگوں، خوش بُوؤں، تتلیوں اور جگنوؤں کی شاعری ہے۔ یہ محبّت کے اُس سرمدی جذبے کی شاعری ہے، جس کی کونپل ہر دل میں پھوٹتی ہے۔ اُس ٹھنڈی، سُکون بخش چاندنی کی شاعری ہے، جو ہر دل کے آنگن میں ضرور اُترتی ہے۔ اُن شبنمی رُتوں کی شاعری ہے، جو ہر قلبِ حسّاس پر دستک دیتی ہیں۔ یہ اس جذبے کی نغمگی ہے، جو ہر انسان کی سماعتوں میں رَس گھولتی اور اس کی آنکھوں میں خوابوں کے دئیے جلاتی ہے۔‘‘ اُنہوں نے کہا کہ’’ مجھے اعتراف ہے کہ میری شاعری کسی قومی، بین الاقوامی یا آفاقی انسانی مسئلے سے کم کم ہی واسطہ رکھتی ہے۔

یہ محبّت کے رومانی عہد کی مسافتوں، رفاقتوں، قربتوں اور فرقتوں کی کہانی ہے۔‘‘ ڈاکٹر رؤف پاریکھ نے ان کلمات سے داد دی کہ’’ عرفان صدیقی نے معاشرے کو آپس میں جوڑنے کا کام کیا ہے۔ سچّائی کے تمام موسم ان کی کتاب میں موجود ہیں۔‘‘ ڈاکٹر فہمیدہ تبسّم نے عرفان صدیقی کی معروف نظم ’’نظم میں اکثر سوچتا ہوں‘‘ پیش کی، تو ڈاکٹر حمیرا اشفاق نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ’’ عرفان صدیقی نے اپنی شاعری میں تتلیوں اور جگنوؤں کے ساتھ سماجی شعور کو بھی جھنجھوڑا ہے اور اس کی شاعری میں تصوّرِ وقت کا حوالہ نمایاں ہے۔‘‘

فوّاد حسن فوّاد کا کہنا تھا کہ’’ عرفان صدیقی کے ساتھ 5دہائیوں سے احترام کا رشتہ ہے۔ اُنھوں نے کالج کے دَور میں نہ صرف ہماری تربیت کی، بلکہ ہر سطح پر سرپرستی بھی کی۔ یہ نے نہ صرف خُوب صُورت شاعری کرتے ہیں، بلکہ اُنھوں نے ریڈیو کے لیے لازوال ڈرامے بھی لکھے اور دونوں اصناف میں معیار قائم کیا، نئی جہات سے آشنا کیا، ان کے ہاں رومانیت اور مزاحمت دونوں عناصر نمایاں ہیں۔‘‘ ڈاکٹر جمال ناصر نے کہا کہ’’ عرفان صدیقی کی رومانی شاعری میں ہجر وفراق کا ذکر ہے، لیکن محبّت کا ملاپ نظر نہیں آتا۔‘‘

اُنہوں نے عرفان صدیقی کے چیدہ چیدہ اشعار بھی سُنائے۔ ڈاکٹر انعام الحق جاوید کا کہنا تھا کہ’’ عرفان صدیقی نہایت خوش مزاج انسان ہیں۔ یہ اُن کی تیسری کتاب ہے اور اُنہوں نے علمی و ادبی اداروں کی ہمیشہ سرپرستی کی۔‘‘ ساجد ملک نے کہا کہ’’ عرفان صدیقی کی شاعری میں زندگی کے تجربات مشاہدات، ہجر و وصال، خیالات کی بلندی اور حالاتِ حاضرہ کا عکس نمایاں ہے اور اُنہوں نے یاس و اُمید کو بہت خُوب صُورتی سے شاعری میں سمویا ہے۔‘‘

تقریب کے آخرمیں چیئرمین اکادمی، ڈاکٹر یوسف خشک نے اظہارِ تشکّر کے کلمات ادا کرتے ہوئے کہا کہ’’ عرفان صدیقی اُن گنے چُنے سیاست دانوں میں سے ہیں، جو نہ صرف ہماری سیاسی تاریخ پر گہری نظر رکھتے ہیں، بلکہ اپنے سینے میں ہماری تہذیبی، سماجی اور علمی تاریخ بھی سموئے ہوئے ہیں۔ ان کے وسیع مطالعے نے اُن کی شخصیت میں سوز وگداز پیدا کیا ہے، مَیں عرفان صدیقی کا شُکر گزار ہوں کہ اُنہوں نے ہمیں اپنی شاعری، اپنی یادوں،باتوں میں شریک کیا۔‘‘

تقریب میں جڑواں شہروں کی علمی و ادبی شخصیات کے علاوہ زندگی کے دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے بھی کثیر تعداد میں شرکت کی۔یاد رہے، بعدازاں اسی نوعیت کی ایک تقریب کا انعقاد آرٹس کاؤنسل،کراچی کے تحت بھی کیا گیا، جس میں شہر کراچی کی معروف شخصیات محمود شام، شکیل عادل زادہ، ڈاکٹر فاطمہ حسن، عقیل عباس جعفری، ناصرہ زبیری، رخسانہ صبا اور محمّد احمد شاہ نے عرفان صدیقی کی اس بےمثال کاوش کو شان دار خراجِ تحسین پیش کیا۔