عوام سدھریں گے، تو ہی مُلک سدھرے گا

February 19, 2023

اِن دنوں دنیا بَھر میں جو موضوع سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے، وہ منہگائی اور معاشی زبوں حالی ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے اور معاشی ماہرین روز نت نئے نئے تجزیے اور مسائل کے حل کے نسخے پیش کر رہے ہیں۔ بڑے ممالک نے تو کسی حد تک معاشی جھٹکے سہہ لیے، مگر کم زور ممالک کی حالت بہت ہی نازک ہے۔ پاکستان میں بھی ہر شخص یہی کہتا ملتا ہے کہ ’’منہگائی بہت ہوگئی ہے، اِتنے بُرے حالات پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔‘‘ یہ بات اِس حد تک تو درست ہے کہ ہوش رُبا منہگائی نے عوام کو دن میں تارے دِکھا دئیے ہیں۔ تاہم، یہ کہنا کہ ایسے بُرے حالات کبھی نہیں دیکھے، یہ بات اِس لیے درست نہیں کہ ایسی باتیں ہر چار، پانچ سال بعد دُہرائی جاتی ہیں۔

اِسی طرح ہم’’مُلک آزمائش سے گزر رہا ہے‘‘، ’’اب قربانی دینے کا وقت ہے‘‘، ’’قومی یک جہتی کی اشد ضرورت ہے‘‘ جیسی باتوں کے بھی عادی ہیں۔ دنیا کے اہم مالیاتی ادارے اور ماہرین اِس بات پر متفّق ہیں کہ رواں سال منہگائی کے لحاظ سے غیر معمولی رہے گا۔ غریب ممالک میں معیشت پر شدید دبائو ہوگا، جو معاشی عدم استحکام کا باعث بنے گا اور اس سے سیاسی نظام بھی متاثر ہوسکتا ہے۔ کچھ ماہرین کی رائے ہے کہ مُلک میں افراتفری کی سی کیفیت ہے، حالاں کہ یہاں ایک منتخب حکومت موجود ہے۔

برطانیہ میں بھی، جہاں12 لاکھ پاکستانی بستے ہیں، معاشی معاملات دگرگوں ہیں، کبھی نیشنل ہیلتھ سروس کے ورکرز ہڑتال پر ہیں، تو کبھی ریلوے کارکنان کے نہ آنے سے نظام رُک جاتا ہے۔ یہی حال یورپ کا ہے۔ تُرکی سے متعلق کہا جارہا ہے کہ وہاں ایسی منہگائی پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ جو پاکستانی وہاں آباد ہونے گئے تھے، اب اپنی جائیدادیں بیچ کرواپس آرہے ہیں، اُس پر قیامت خیز زلزلے نے مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ خُود پاکستان بھی کئی ماہ سےسیلاب کےنتیجے میں ہونے والی تباہ کاریوں کی لپیٹ میں ہے، جب کہ دوسری طرف، آئی ایم ایف کا پروگرام بھی اِس کے لیے ایک آزمائش بن گیا ہے۔

ایک قسط کا معاملہ ختم نہیں ہو پاتا کہ دوسرے کے لیے تگ و دو شروع ہو جاتی ہے۔ عالمی ادارہ ہر بار نئی اور پہلے سے کڑی شرائط عاید کردیتا ہے۔ دراصل، آئی ایم ایف سے ملنے والی رقم زیادہ اہم نہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ عالمی ادارے سے معاہدے کے بعد ہی مختلف ممالک اور ادارے سرمایہ کاری پر تیار ہوتے ہیں، اِس لیے آئی ایم ایف پروگرام میں آنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ آئی ایم ایف کا قرضہ تو ایک ارب ڈالر ہوتا ہے، مگر اس کی وجہ سے دوسروں سے کئی ارب ڈالرز مِل جاتے ہیں، جو کم زور معیشتوں کے لیے آکسیجن کا کام کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ دنیا کو یہ یقین دہانی کرواتا ہے کہ یہ مُلک دوسرے ممالک کےساتھ کاروبار کے قابل ہے اور اس پر مالیاتی اعتماد کیاجاسکتا ہے۔

آج کی معاشی دنیا چلتی ہی اعتبار پرہے،وگرنہ امریکااورفرانس جیسی معیشتیں بھی مقروض ہیں۔ اِس بات میں کوئی شک نہیں کہ بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا کسی لحاظ سے بھی اچھا قدم نہیں، اِسی لیے ماہرین اسےلانگ ٹرم کے لیے مناسب نہیں سمجھتے۔ اُن کا کہنا ہے کہ یہ خود انحصاری کی نفی ہے۔ بہت سےماہرین اِن قرضوں کو امریکا اور مغربی ممالک کی سازش سے بھی جوڑ دیتے ہیں، جس کے ذریعے مختلف ممالک کو گُھٹنے ٹیکنے پر مجبور کیا جاتا ہے، لیکن شاید وہ بھول جاتے ہیں کہ اِس عالمی ادارے میں چین اور روس بھی شامل ہیں، جب کہ سعودی عرب بھی اِس میں اپنا حصّہ ڈالتا ہے، تو کیا یہ سب ہمارے دشمن ہیں اور اگر واقعی ساری دنیا ہمیں ڈبونے پر تُلی بیٹھی ہے، تو وہ ماہرین بتائیں کہ اِن کے بغیر دنیا کے ساتھ کیسے چلا جائے۔ سابق وزیرِاعظم عمران خان اقتدار میں آنے سے قبل عوام سے وعدہ کیا کرتے تھے کہ وہ آئی ایم ایف کے پاس جانے کی بجائے خُودکشی کو ترجیح دیں گے، مگر شُکر ہے کہ اُنہوں نے ایسا نہیں کیا۔ وہ مُلک کو ایک بار پھر آئی ایم ایف کے پاس لے گئے بلکہ اُس کے دیئے ہوئے وزیرِ خزانہ اور گورنر اسٹیٹ بینک بھی قبول کیے۔ قابلِ غور بات یہ ہے کہ آخر آئی ایم ایف کے پاس جانا ہی کیوں پڑتا ہے۔

پاکستان ایّوب خان کے دَور سے اب تک 23 مرتبہ آئی ایم ایف پروگرام لےچُکا ہے۔اس میں پیپلز پارٹی، نون لیگ، تحریکِ انصاف اور فوجی حکومتیں گویا سب ہی شامل ہیں۔ کئی حکومتوں نےعالمی مالیاتی اداروں میں کام کرنے والوں کو اہم عُہدے بخشے اور اُن کی مہارت کے قصیدے بھی پڑھے گئے، تو سوال یہ ہے کہ جب قوم اور حکومتوں نے اُنہیں خوشی خوشی برداشت کیا، تو اب گلہ کس بات کا ہے۔ آئی ایم ایف نے گن پوائنٹ پر تو وہ افراد تعیّنات نہیں کروائے تھے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ ہمارے ماہرین، سیاسی جماعتیں اور عوام اُسی وقت بات سمجھ پاتے ہیں، جب چڑیاں کھیت چُگ گئی ہوتی ہیں۔

ماہرین کے مطابق، آئی ایم ایف کا اصرار ہے کہ اِتنا خرچ کریں، جتنی جیب اجازت دیتی ہے۔ اگر یہ بات درست ہے، تو پھر اسے ماننے میں کیا بُرائی ہے۔ اگر ہمیں اِس ادارے کی شرائط بُری لگتی ہیں، تو پھر ہم پُرتعیّش طرزِ زندگی تَرک کیوں نہیں کردیتے۔ مشکل یہ ہےکہ یہاں ہر شخص کاراورموٹر سائیکل پر سفر کرنا چاہتا ہے۔ گاڑی رکھنا اسٹیٹس سمبل بن چُکا ہے، حالاں کہ ترقّی یافتہ ممالک میں پیدل چلنے اور سائیکل کی سواری کو کوئی عیب نہیں سمجھتا جاتا۔ یہاں فُٹ پاتھ، دکانوں میں تبدیل کر دیئے گئے ہیں، جس کی وجہ سے بازاروں میں پیدل چلنامحال ہوگیا ہے۔

لوگ چار قدم بھی موٹر سائیکل یا گاڑی کے بغیر نہیں جاتے، شاید اُنھیں اندازہ نہیں کہ اس شوق پر کتنا پیٹرول ضائع ہوتا ہے اور قوم کو اس پر کتنے ڈالر ادا کرنے پڑتے ہیں۔ اِسی طرح شادی بیاہ اور دوسری تقریبات کی شان وشوکت دیکھ لیں، تو پرانے زمانے کے راجے مہاراجے یاد آجاتے ہیں، بس ہاتھیوں کی کمی رہ گئی ہے، باقی سب کچھ تو شادی ہالز میں محلّات ہی جیسا ہوتا ہے۔ اب تو مِڈل، بلکہ لوئر کلاس نے بھی ہوٹلنگ کو اپنی زندگیوں کا حصّہ بنا لیا ہے۔ کراچی میں سُپر ہائی وے پر قائم ہوٹلز میں رش کی وجہ سے قطاروں میں لگ کےانتظار کرنا پڑتا ہے۔ قصہ مختصر، جب تک قوم خود اپنےگریبان میں نہیں جھانکے گی،اُس وقت تک کوئی ماہرِ معیشت یا معاشی جادوگر مُلکی معیشت ٹھیک نہیں کرسکتا۔ یہ معیشت ہے، کوئی سوئچ نہیں کہ جب اور جس نے چاہا، آن، آف کردیا یا پھونک ماری اور دَھن برسنے لگا۔ ہر ایک کو کام کرنا پڑتا ہے،تب کہیں جا کر یہ مسائل حل ہوپاتے ہیں۔ لیکن قرضوں کو اپنے اللّے تللّوں میں اُڑا دینا کوئی ہم سے سیکھے۔

منہگائی کا مطلب کیا ہے؟ آسان الفاظ میں یوں سمجھ لیجیے کہ جب عام آدمی اپنی آمدنی سے اپنے ضروری اخراجات پورے نہ کر سکے، تو ہم کہتے ہیں کہ منہگائی ہوگئی ہے، یعنی وہ ضرورت کی عام اشیاء بھی بمشکل خرید پاتا ہے۔ اس میں خوراک، صحت، تعلیم اور روز مرّہ ضروریات شامل ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ منہگائی پر کیسے قابو پایا جائے یا اس کے دبائو کو اُس وقت تک کم رکھا جائے، جب تک معیشت بہتر نہیں ہو جاتی۔ تو صاف بات ہے، معاشی مسائل کوئی ماہر حل کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی حکومت یا سیاسی جماعت کے پاس الہ دین کا چراغ ہے، معیشت تو مُلک کے عوام ہی ٹھیک کرسکتےہیں۔

لہٰذا، سب سے پہلے عوام ہی کو یہ فیصلہ کرنا ہوگا کہ وہ چادر کے مطابق ہی پاؤں پھیلائیں گے۔ اُنھیں شاہانہ شادی بیاہ، شاپنگ کی بھرمار، بازاروں کے غیرضروری چکر اور رات گئے تک مارکیٹس کُھلی رکھنے جیسی عادات تَرک کرنی ہوں گی۔ اقتصادی اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ ہم بُری طرح لڑھک چُکےہیں۔ ہماری درآمدات زیادہ اور برآمدات بہت ہی کم ہیں۔ ہم35 بلین ڈالرز کی امپورٹس کرتے ہیں، جب کہ ہماری ایکسپورٹس صرف 22بلین ڈالرز ہیں۔ یعنی ہمارا سالانہ تجارتی خسارہ13 بلین ڈالرز ہے اور یہ خسارہ زیادہ تر اُن اشیا کی وجہ سے ہے، جنھیں تعیّش کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے۔

موجودہ حکومت نے اِن اشیا کی درآمد کم کرنے کی کوشش کی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے مطابق اِن اقدامات سے تجارتی خسارے میں مسلسل کمی آرہی ہے، جو ایک اچھی خبر ہے۔ ہماری درآمدات کا سب سے بڑا حصّہ توانائی پر مشتمل ہے کہ ہم تقریباً27 بلین ڈالرز کا تیل اور دیگر اسی نوعیت کی مصنوعات منگواتے ہیں۔ تیل پہلے عالمی مارکیٹ میں ایک سو ڈالر فی بیرل سے بھی زیادہ تھا، مگر اب 80 ڈالر میں مل رہا ہے، تو اگر ہم عقل مندی سے کام لیں، تو درآمدات میں فوری طور پر بیس فی صد تک کمی لاسکتے ہیں، یعنی تقریباً پانچ بلین ڈالرز، جو موجودہ حالات میں ایک بہت بڑی بچت ہوگی اور اس سے معیشت کو سہارا ملے گا۔

ہمیں سورج کی روشنی جیسی نعمت حاصل ہے، جس میں ہم اپنے کام کاج نمٹا سکتے ہیں، مگر دُکان داروں کو یہ بات سمجھ آتی ہے اور نہ ہی عوام اس پر دھیان دیتے ہیں۔ اگر کوئی چیز رات دس بجے کی بجائے شام چھے بجے یا دن کے اوقات میں خرید لی جائے، تو اس میں کیا مسئلہ ہے؟اور اگر باقی دنیا کی طرح ہمارے ہاں بھی مارکیٹس رات دس بجے کی بجائے شام چھے بجے بند ہوجائیں، تو کون سے مصیبت آجائے گی۔ ہاں، اِن چار گھنٹوں سےسالانہ اربوں ڈالرز کی بچت ضرور ہوگی۔ جب قومیں مشکل وقت سے گزر رہی ہوتی ہیں، تو وہ مشکل فیصلوں سے نہیں ہچکچاتیں، دو، چار گھنٹے پہلے شاپنگ کرلینا کون سا ایسا ہمالیہ پہاڑ ہے، جس پر نہیں چڑھا جاسکتا۔ عجب تماشا ہے کہ جسے دیکھو، بازار جلد بند کرنے کے خلاف اُٹھ کھڑا ہوتا ہے، جیسے یہ زندگی و موت کا مسئلہ ہو۔

ہماری ایک اور بُری عادت، حرص و لالچ ہے۔ ڈالر بحران دیکھ لیجیے، سب کو معلوم ہے کہ اِن دنوں مُلک کو ڈالرز کی کس قدر ضرورت ہے، مگر ڈالر کی قیمتوں میں اُتار چڑھائو کی وجہ سے اب تارکینِ وطن اُنھیں بینکنگ چینلز کی بجائے حوالہ ہنڈی کےذریعےبھیج رہےہیں، جس سےقومی معیشت کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ لوگ ڈالر سے منافع کمانے کےلیے اِس کی خرید و فروخت میں شامل ہوگئے، جس سے بحران میں اضافہ ہوا۔ اِس ضمن میں بینکس کے کردار پر بھی بہت کچھ کہا گیا، جس کی تفصیلی انکوائری ہونی چاہیے۔ ایسا ہی کچھ سونے کے ساتھ ہوا۔

اس طرح کے کام شارٹ ٹرم منافعے کا ذریعہ ہوتے ہیں، لیکن ان سے معیشت کو بڑے جھٹکے لگتے ہیں۔ اِسی طرح پڑوسی مُلک، افغانستان بھی ہمارے ہاں سے ڈالر اسمگل کرکے اپنی ضرورت پوری کرتا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان سے روزانہ پچاس لاکھ ڈالرز افغانستان جا رہے ہیں اور اس طرح وہ عالمی تنہائی اور پابندیوں کے نقصانات سے بچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ افغانستان میں ایک ڈالر 90 افغانی کا ہے اور ہمارے ہاں تقریباً پونے تین سو روپے کے برابر ہے۔ اِس اسمگلنگ کی روک تھام کےلیےسخت ترین انتظامی اقدامات کےساتھ طالبان حکومت کو بھی واضح پیغام دینےکی ضرورت ہے۔

اِس قسم کی بدانتظامی، لالچ اور بے جا منافع خوری جیسی عادات کی وجہ سے دوست ممالک تک یہ کہنے لگے ہیں کہ ہمیں آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنا چاہیے، پھر ہی کسی قسم کے قرضے یا امداد پر بات ہوسکتی ہے، کیوں کہ پاکستانیوں کو اپنا مُلک مینیج کرنا نہیں آتا۔ دوسرےالفاظ میں ہماری قومی عادات کا شہرہ اب ہم ہی تک محدود نہیں رہا، بلکہ دنیا جان چُکی ہے کہ یہ ایک فضول خرچ اور غیر قانونی حرکتوں میں ملوّث قوم ہے۔ اسے جتنے مرضی قرضے دے دو، یہ اُنھیں شاہ خرچیوں میں اُڑا دے گی۔ ایک مشکل یہ بھی ہے کہ ہم اپنی غلطی ماننے پر تیار نہیں، اسے فوراً دوسروں پر ڈال دیتے ہیں۔ اپنے مسائل کو کبھی کسی کی سازش قرار دیتے ہیں، تو کبھی غلام بنانے کے حربے کہتے ہیں۔ خُود کوئی ذمّے داری نہیں لیتے۔ یہ جملہ درست نہیں کہ ’’بے چارے عوام کیا کریں‘‘ ہم 22 کروڑ اور اس مُلک کا اصل اثاثہ ہیں،حالات کی بہتری کے لیے ہمیں ہی کچھ کرنا ہوگا۔

قوم کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ اُس کا معاشی ویژن کیا ہے، اس کی ترجیح کیا ہے، وہ کہاں جانا چاہتی ہے۔ اُسے واقعی ترقّی کرنی ہے یا وہ صرف قرض لے کر گلچھڑے اُڑانا چاہتی ہے۔ جب یہ طے کر لیا جائے گا کہ مُلک و قوم کو ہر حال میں اپنی معاشی کم زوری سے نجات حاصل کرنی ہے، تو پھرفوری اور طویل المدّتی اہداف مقرّر کیے جائیں۔ تاہم، اِن اہداف پر قومی اتفاق رائے ضروری ہے اور اس اتفاقِ رائےکا مطلب یہ نہیں کہ محض سیاسی جماعتوں کےسربراہ مِل بیٹھ کر کوئی اعلان جاری کردیں اور پھر سب ہنسی خُوشی اُٹھ کر چلتے بنیں کہ منصوبہ تو زبردست بن گیا، اب ترقّی خُودبخُود ہوجائے گی۔

ہمارے ماہرین اور سیاست دان یہ تو بتاتےرہتے ہیں کہ امریکا نےفلاں فلاں معاملے پر ساتھ نہیں دیا اور عرب دوستوں نے تعاون نہیں کیا، مگر کبھی یہ بھی بتادیں کہ خُود اِس مُلک کے عوام نے کیا، کیا؟ تمام اسٹیک ہولڈرز کو معیشت کی بہتری کے لیے ہر حال میں ایک پیج پر آنا ہوگا۔ مثال کے طور پر مُلک میں لاکھوں دُکان داروں میں سے صرف32 ہزار ٹیکس دیتے ہیں، اِسی طرح جاگیردار ٹیکس دیتے ہی نہیں کہ زراعت ٹیکس سے مستثنیٰ ہے، یہاں صرف تن خواہ دار اور کارپوریٹ سیکٹر ہی ٹیکس دیتےہیں اوراُنہی پرزیادہ سے زیادہ ٹیکس لاد دیا جاتا ہے۔

ضروت اِس امر کی ہے کہ کسی مناسب فارمولے کے تحت ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیا جائے تاکہ مُلک کی آمدنی میں اضافہ ہو۔ اِس سے حکومت کے بھی علم میں رہتا ہے کہ قومی آمدنی کے مستقل ذرائع کیا ہیں اور کتنا خرچ کرنا چاہیے۔ قوم کے ہر طبقے کو یہ احساس دِلانا ضروری ہے کہ اُسے قومی ترقّی میں اپنا حصّہ ڈالنا ہوگا، تب ہی معیشت سنبھلے گی۔ اِس ضمن میں میڈیا کا بھی ایک نہایت اہم کردار ہے کہ اُسے قومی مفاد میں کیے گئے مشکل فیصلوں کی ایسی رپورٹنگ کرنی چاہیے، جس سے عوام بدگمان نہ ہوں۔