محنت کشوں، ملازمت پیشہ افراد کا سماجی تحفظ

June 04, 2023

انسان ابتدائے آفرینش ہی سے تحفّظ کی تلاش میں سرگرداں ہے، بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ تحفّظ کی تلاش اُس کی فطرت میں شامل ہے۔ بچپن میں اسے ماں، باپ اور دیگر عزیز واقارب کا تحفّظ درکار ہوتا ہے، جس کے بغیر اس کی بقا اور نشوونما ممکن نہیں۔ پھر جوں جوں وہ پرورش پاتا ہے، اس کے تحفّظ کا دائرہ بھی وسیع ہوتا چلا جاتا ہے۔

یہاں تک کہ وہ پورے معاشرے سے تحفّظ کا متقاضی ہوتا ہے، کیوں کہ یہ ایک طے شدہ امر ہے کہ کوئی بھی شخص، خواہ اُس کے قبضے میں کتنے ہی وسائل کیوں نہ ہوں، تنِ تنہا اُن خطرات اور حالات کا مقابلہ نہیں کرسکتا، جو اُسے روزمرّہ کی زندگی میں پیش آتے ہیں۔ شاید اِسی لیے یونانی فلسفی، ارسطو نے انسان کو سماجی حیوان(Social Animal) کہا تھا۔دراصل، ارسطو نے انسان کو سماجی حیوان قرار دے کر اجتماعیت کی خواہش کو انسان کا فطری وصف قرار دیا ، جو سماج کے بغیر زندگی نہیں گزار سکتا۔

دنیا میں سماجی تحفّظ کا آغاز

18ویں صدی میں رُونما ہونے والے صنعتی انقلاب کے بعد کارکنان کے لیے سماجی تحفّظ کا نظام رائج کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی کہ معاشرے میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع ہوگئی تھی۔ صنعتی انقلاب سے قبل یورپ میں مشترکہ خاندانی نظام رائج تھا، جس میں لوگوں کے گزر اوقات کا دارومدار زراعت پر تھا، جو بتدریج ختم ہوتا جا رہا تھا اور صنعتی انقلاب کے نتیجے میں کارخانوں میں کام کرنے والوں کا ایک نیا طبقہ اُبھر رہا تھا، جس کی گزر اوقات اُجرتوں کی باقاعدہ ادائی پر تھی۔ لیکن بعض اوقات رُونما ہونے والے خطرات اور ناگہانی صُورتِ حال کے باعث خاندان کے کمانے والے فرد کی آمدنی سے محرومی نہ صرف اُس فرد کے لیے بلکہ اُس کے خاندان کے لیے بھی مصیبت اور پریشانی کا سبب بن جاتی تھی۔

اِسی طرح صنعتی کارکن بیماری، بے روزگاری اور معذوری کے باعث بھی مصائب سے دوچار ہونے لگے تھے۔ اپنی قلیل آمدنی اور محدود وسائل کی بنا پر اس کم زور طبقے میں ناگہانی حالات سے نمٹنے کی سکت نہیں تھی۔ اگرچہ اُس دَور میں بھی کچھ ایسے ڈھیلے ڈھالے قوانین موجود تھے کہ جن کے ذریعے متاثرہ کارکنوں کو برائے نام مدد مہیّا کی جاتی تھی، لیکن پھر بھی یہ قوانین اِتنے جامع اور مکمل نہ تھے کہ متاثرہ کارکن اپنی معاشی اور سماجی فلاح کے لیے ان پر کلی انحصار کرسکتے۔ تاہم، یہی بنیادی قوانین آگے چل کر دنیا میں سماجی تحفّظ کے نظریے کی بنیاد بنے۔

بسمارک، سماجی تحفظ کا’’ باوا آدم‘‘

فارسی زبان کا مقولہ ہے کہ’’مزدور خوش دل کند کار بیش‘‘ یعنی آسودہ حال مزدور زیادہ کام کرتا ہے۔ اس مقولے پر سب سے پہلے ایک یورپی مُلک، جرمنی میں عمل کیا گیا، جہاں چانسلر ،اوٹو وان بسمارک نے پہلی مرتبہ صنعتی کارکنان کے لیے سماجی تحفّظ کو باقاعدہ عملی شکل دی۔ بسمارک نے مارچ 1884ء میں اپنے ایک تاریخی اعلان میں صنعتی کارکنان کے عدم تحفّظ پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ’’ مزدور کی اصل شکایت معاشرے میں اس کے وجود کے عدم تحفّظ کا احساس ہے۔ اُسے یقین نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ اِسی طرح کام کرتا رہے گا، اسے یہ بھی یقین نہیں ہے کہ وہ ہمیشہ صحت مند رہے گا اور وہ یہ بھی پیش بینی کرتا ہے کہ وہ ایک دن بوڑھا ہوجائے گا اور کام کے قابل نہیں رہے گا۔

اگر وہ غربت کا شکار ہوتا ہے، یہاں تک کہ وہ طویل بیماری سے بھی گزرتا ہے، تو اس صُورتِ حال میں وہ مکمل بے یارومددگار اور اپنے وسائل تک محدود ہو جاتا ہے۔ ایسے میں معاشرہ اپنی اصل ذمّے داری نہیں نبھاتا۔سوائے اس کے کہ ایک غریب انسان سمجھ کر اُس کی عمومی مدد کر دی جائے،جب کہ وہ کارکن ہمیشہ ایمان داری اور تن دہی سے اپنے ہاتھوں سے کام انجام دیتا رہا ہے۔ لہٰذا، غریب سمجھ کر اس کی مدد کرنے سے اس کی مطلوبہ ضرورت پوری نہیں ہوتی، خصوصاً بڑے شہروں میں جہاں دیہات کے مقابلے میں حالات بہت زیادہ خراب ہیں‘‘۔

بسمارک نے اپنے مُلک کے صنعتی کارکنوں کی حالتِ زار کا مشاہدہ کرتے ہوئے اُن کے لیے لازمی سماجی بیمہ نظام (Compulsory Social Insurance System) کو تین مراحل میں نافذ کیا۔ بسمارک ہی نے دنیا میں سب سے پہلے جرمن پارلیمنٹ کے سامنے سماجی بیمہ (Social Insurance)کا ایک مکمل خاکہ پیش کیا اور 1880ء کی دہائی میں جرمنی کو یورپ کی پہلی جدید فلاحی ریاست قرار دیتے ہوئے 1883ء میں قومی صحت دیکھ بھال منصوبہ،1884ء میں حادثے کے بیمے کا منصوبہ اور 1889ء میں بڑھاپے کی پینشن کا منصوبہ متعارف کروایا۔ جرمنی کے بعد آسٹریا نے اپنے مُلک میں سماجی تحفّظ کا نظام نافذ کیا اور تقریباً40 برس بعد برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک اور پھر روس، جاپان، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ نے بھی اس عمل کی تقلید کی۔

واضح رہے، ایشیا میں جاپان وہ پہلا مُلک ہے، جس نے اپنے ہاں سماجی تحفّظ کا نظام رائج کیا۔اِسی طرح1930ء کے بعد عالمی کساد بازاری کے زیرِ اثر امریکا اور دیگر لاطینی ممالک نے بھی اپنے کارکنوں کی فلاح و بہبود کے لیے سماجی تحفّظ کا نظام اختیار کیا۔ البتہ، دنیا بَھر میں سماجی تحفّظ کی اصطلاح 1935ء کے بعد اُس وقت عام ہوئی، جب امریکی صدر، روز ویلٹ نے’’ سوشل سیکیوریٹی ایکٹ‘‘ کی منظوری دی۔امریکا کے مستقل باشندوں کی روزمرّہ زندگی میں سوشل سیکیوریٹی نمبر انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ جہاں تعلیمی ادارے میں داخلے سے لے کر علاج معالجے، گھر کی خریداری، کرائے پر مکان کے حصول اور ڈرائیونگ لائسنس کے لیے سوشل سیکیوریٹی نمبر طلب کیا جاتا ہے۔

یہ امریکی حکومت کا ایک فلاحی پروگرام ہے، جس کے تحت وہاں کے ہر مستقل باشندے کو سماجی تحفّظ کی سہولتوں سے مستفید ہونے کے لیے مقررہ شرائط و ضوابط کے مطابق ذاتی سوشل سیکیوریٹی نمبر جاری کیا جاتا ہے۔ جنگِ عظیم دوم کے بعد اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی نے1948ء میں حقوقِ انسانی کے عالمی منشور کی قرار داد منظور کی، جس کی دفعہ22کی رُو سے معاشرے کا ہر کارکن سماجی تحفّظ کا حق دار ہوتا ہے۔ چناں چہ، حقوقِ انسانی کے اِس عالمی منشور کے تحت سماجی تحفّظ کو انسان کے بنیادی حق کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، جس میں کارکنوں کو بیماری، زچگی، معذوری، بڑھاپے، کام کی جگہ لگنے والی چوٹ اور وفات کی صُورت میں سماجی تحفّظ کی سہولتوں کی فراہمی شامل ہے۔

سماجی تحفّظ ایک وسیع اصطلاح ہے، جس کے تحت سماجی بیمہ (Social Insurance) اور سماجی معاونت (Social Assistance) کے منصوبے بھی شامل ہیں، جیسے کارکنوں کو درپیش سماجی خطرات اور ناگہانی حالات، کارکن کی کام کی صلاحیت نہ ہونا، کام ڈھونڈنے میں ناکامی اور طبّی دیکھ بھال کی ضرورت وغیرہ۔واضح رہے، سماجی بیمے کی سہولت صرف اُن مخصوص کارکنوں ہی کو فراہم کی جاسکتی ہے، جو اس مقصد کے لیے اپنی جیب سے ماہانہ زرِ اعانت (Contribution) متعلقہ ادارے کو ادا کرتے ہیں، جیسے پراویڈنٹ فنڈ کی سہولت کے لیے اپنے حصّے کی ادائی کرنا۔ جب کہ سماجی معاونت کے تحت مختلف سہولتیں کسی زرِ اعانت کی ادائی کے بغیر ہی مستحق شہریوں کو مفت فراہم کی جاسکتی ہے۔ پاکستان عالمی ادارۂ محنت کے رُکن کی حیثیت سے اب تک اُس کے منظور شدہ36 عہد ناموں(Conventions) کی توثیق کرچکا ہے، جن میں سے6کے علاوہ30عہد نامے نافذ ہوچکے ہیں۔اِس وقت دنیا میں کارکنوں کو سماجی تحفّظ کی فراہمی کے لیے کئی نظام کام کر رہے ہیں۔

سماجی تحفّظ(Social Security)

یہ کارکنوں کے لیے سرکاری نگرانی میں چلنے والا فلاحی منصوبہ ہے، جس میں شامل کارکنوں کو ریٹائرمنٹ، معذوری، زچگی اور خدانخواستہ اُن کی وفات کی صُورت میں مختلف سہولتیں اور اُن کے لواحقین کو بھی طبّی دیکھ بھال کی سہولت کے ساتھ مالی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ اس فلاحی منصوبے کے تحت مُلک کے چاروں صوبوں میں’’ ادارہ سماجی تحفّظ برائے ملازمین‘‘ مقرّرہ قواعد و ضوابط کے مطابق لاکھوں رجسٹرڈ کارکنوں اور اُن کے اہلِ خانہ کو طبّی سہولتوں اور مالی فوائد بہم پہنچانے کے لیے کوشاں ہے۔

سماجی بیمہ(Social Insurance)

اِس فلاحی منصوبے کے تحت سرکاری نگرانی میں آجروں اور کارکنوں کی جانب سے ادا کیے جانے والے ماہانہ زرِ اعانت(Contribution) کے ذریعے کارکنوں کو اُن کی ریٹائرمنٹ، معذوری کی تاحیات پینشن اور خدانخواستہ وفات کی صُورت میں شریکِ حیات کو یک مشت مالی امداد یا تاحیات پس ماندگان پینشن فراہم کی جاتی ہے۔ آئینِ پاکستان کی دفعہ38(c) کے مقاصد پورے کرنے کی غرض سے اپریل 1976ء میں لازمی سماجی بیمہ نظام نافذ کیا گیا۔

اِس نظام کو کام یابی سے چلانے کے لیے وفاقی سطح پر ایمپلائیز اولڈ ایج بینی فٹس انسٹی ٹیوشن (EOBI) نام کا قومی ادارہ قائم کیا گیا، جو اس قانون کے دائرہ کار میں آنے والے مُلک بھر کے نجی شعبے کے آجران اور اُن کے ہر نوعیت کے ملازمین کو پینشن منصوبے میں رجسٹر کرکے اور رجسٹرڈ آجران سے کم از کم اجرت کے6فی صد کے مساوی ماہانہ کنٹری بیوشن وصول کرکے مقرّرہ شرائط و ضوابط کے مطابق ان بیمہ دار افراد(Insured Persons) کو ریٹائرمنٹ، معذوری کی صُورت میں تاحیات پینشن اور وفات کی صورت میں شریک حیات کو تاحیات پس ماندگان پینشن ادا کرتا ہے۔

اِسی طرح کارخانوں کے جفاکش کارکنوں اور اُن کے اہلِ خانہ کی فلاح و بہبود کے لیے ایک اور وفاقی ادارہ ورکرز ویلفیئر فنڈ (WWF) بھی1971ء سے خدمات انجام دے رہا ہے، جس کے تحت رجسٹرڈ کارکنوں کے لیے رہائشی سہولتیں، بچّوں کے تعلیمی وظائف کے علاوہ، بچیوں کی شادی کے موقعے پر چار لاکھ روپے شادی گرانٹ اور کارکن کی ناگہانی موت کی صورت میں آٹھ لاکھ روپے کی وفات امداد بھی ادا کی جاتی ہے۔

سماجی معاونت(Social Assistance)

اس فلاحی منصوبے کے تحت مُلک میں غربت کی لکیر کے نیچے زندگی بسر کرنے والے مستحق باشندوں کو خصوصی قوانین کے تحت مختلف قسم کے مالی فوائد بہم پہنچائے جاتے ہیں اور اس کے عوض ان سے کسی قسم کا زرِ اعانت وصول نہیں کیا جاتا۔ کم زور اور مستحق طبقے کی مالی امداد کے لیے بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام، پاکستان بیت المال اور صوبائی سطح پر محکمۂ زکوۃ بھی خدمات انجام دے رہے ہیں۔

پاکستان میں سماجی تحفّظ منصوبے کا آغاز

پاکستان میں سماجی تحفّظ منصوبے کا آغاز عالمی ادارۂ محنت کی معاونت سے یکم مارچ 1967 ء کو کیا گیا اور حکومتِ مغربی پاکستان نے اس مقصد کے حصول کے لیے مغربی پاکستان سماجی تحفّظ برائے ملازمین 1965 ء کے دسویں آرڈیننس کے تحت اسے نافذ کیا ، جس کا اطلاق ماسوا قبائلی علاقوں کے پورے مغربی پاکستان پر کیا گیا۔

سندھ سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کا قیام

ادارہ سماجی تحفّظ برائے ملازمین سندھ (SESSI)کا قیام یکم جولائی 1970ء کو اُس وقت عمل میں آیا، جب مُلک میں وَن یونٹ نظام کے خاتمے کے بعد سماجی تحفّظ منصوبے کی صوبائی سطح پر تشکیلِ نو کی گئی۔ ابتدا میں یہ فلاحی منصوبہ صرف کراچی اور حیدرآباد کی ٹیکسٹائل کی صنعت سے وابستہ کارکنوں کے تحفّظ (Coverage)کے لیے تیار کیا گیا تھا، لیکن کارکنوں کی جانب سے اس فلاحی منصوبے کے حوصلہ افزا نتائج سامنے آنے کے بعد اس کا دائرۂ کار صوبے کی تمام صنعتوں، کاروباری اور تجارتی اداروں تک وسیع کردیا گیا۔

جب کہ صوبہ سندھ کے علاوہ دیگر صوبوں میں بھی سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کے علیٰحدہ علیٰحدہ محکمے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ سندھ ایمپلائیز سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کا صدر دفتر ’’ایوانِ محنت کش‘‘ گلشنِ اقبال، کراچی میں ہے۔ اپنی تشکیل کے لحاظ سے سندھ ایمپلائیزسوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن ایک خود مختار ادارہ ہے ۔ ادارے کے انتظامی اور مالیاتی معاملات کی نگرانی ایک گیارہ رکنی گورننگ باڈی کے سپرد ہے۔ سندھ ایمپلائیزسوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کے سربراہ کمشنر کہلاتے ہیں۔ جوادارے کے چیف ایگزیکٹیو کی حیثیت رکھتے ہیں اورگورننگ باڈی کی جانب سے تفویض کردہ اختیارات استعمال کرتے ہیں۔

انتظامی معاملات میں وائس کمشنر اور طبّی معاملات میں طبّی مشیر (Medical Advisor) اُن کی معاونت کرتے ہیں۔جب کہ گورننگ باڈی کے تحت مختلف کمیٹیز بھی قائم ہیں، جن میں فنانس کمیٹی، سلیکشن/پروموشن کمیٹی، اپیلیٹ کمیٹی، سروے کمیٹی، پینشن، گریجویٹی اور جنرل پراویڈنٹ کمیٹی، ادویہ اور طبّی آلات کی خریداری کمیٹی،انویسٹمنٹ کمیٹی اور نئی تنظیم سازی کمیٹی شامل ہیں۔ادارہ سماجی تحفّظ برائے ملازمین سندھ (SESSI) اپنے ذرائع آمدن خود پیدا کرنے والا ایک خود مختار ادارہ ہے اور اس کا واحد ذریعۂ آمدن رجسٹرڈ آجران سے وصول شدہ ماہانہ سوشل سیکیوریٹی کنٹری بیوشن کی رقم ہے۔

آجران اور ملازمین کی رجسٹریشن کا طریقہ کار

قانون کے مطابق 25ہزار تا 30ہزار روپے ماہانہ اجرت پانے والے کارکنان سندھ سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کے تحت اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی رجسٹریشن کے اہل ہیں، جس کے لیے اُن کے متعلقہ آجران سندھ سوشل سیکیوریٹی کو اُن کی اجرت کے 6فی صد کے مساوی ماہانہ کنٹری بیوشن کی ادائی کے پابند ہیں۔

اس منصوبے کے تحت پہلے مرحلے میں اس کے قانون کے دائرۂ کار میں آنے والے صنعتی، تجارتی اور کاروباری اداروں کا سروے کرکے اُن کی اور اُن کے ملازمین کی رجسٹریشن کی جاتی ہے۔ اس کے انتظامی اور طبّی مراکز کراچی کے علاوہ دھابے جی (ضلع ٹھٹھہ)، نوری آباد، کلو کوہر، حیدرآباد، ٹنڈو جام، ٹنڈو آدم، میرپورخاص، نواب شاہ، شہداد کوٹ، شکارپور، جیکب آباد، لاڑکانہ، روہڑی اور سکھر میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔

کارکنان کی اکثریت کی عدم رجسٹریشن

یہ امر باعثِ حیرت ہے کہ سندھ سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کے قیام کے58 برس گزر جانے کے باوجود یہ ادارہ صوبے کے کارکنوں کی اکثریت کو سماجی تحفّظ (Social Security) کے تحت جملہ سہولتوں کی فراہمی میں بُری طرح ناکام ثابت ہوا ہے، جو یقیناً ایک مایوس کُن اور تشویش ناک بات ہے۔ ایک جائزہ رپورٹ کے مطابق، اِس وقت صوبے میں سندھ سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کے دائرۂ اختیار میں آنے والے کارکنان کی تعداد 30لاکھ کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے، جب کہ اس کے برعکس سندھ سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کے تحفّظ یافتہ (Covered) کارکنان کی کُل تعداد محض 6لاکھ کے قریب ہے۔

گویا صوبے کے 25لاکھ سے زائد کارکنان اور اُن کے اہلِ خانہ رجسٹریشن نہ ہونے کے باعث اپنے سماجی تحفّظ کے آئینی اور قانونی حقوق اور سہولتوں سے محروم ہیں۔ بے شمارصنعتی، پیداواری، کاروباری اور تجارتی اداروں میں خدمات انجام دینے والے لاکھوں کارکنان اپنے آجران کی عدم دل چسپی، لاپروائی اور سندھ سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کے فیلڈ افسران کی جانب سے بعض غیر ذمّے دار آجروں سے خفیہ گٹھ جوڑ اور رشوت ستانی کے باعث سندھ سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کے رجسٹریشن کارڈ R-5 اور اس کے تحت سہولتوں سے محروم چلے آرہے ہیں۔ اس تشویش ناک صُورتِ حال کی فوری اصلاح کی ضروت ہے۔

واضح رہے کہ سوشل سیکیوریٹی آرڈینینس کی دفعہ72کے تحت اگر کوئی تحفّظ یافتہ کارکن کسی بیماری،چوٹ یا زچگی کی رخصت کا معاوضہ لے رہا ہو یا دَورانِ بیماری سندھ سوشل سیکیوریٹی انسٹی ٹیوشن کے طبّی مراکز سے علاج معالجہ بھی کروا رہا ہو، تو اس دَوران اُس کا متعلقہ آجر اس کارکن کو کسی صُورت ملازمت سے برطرف نہیں کرسکتا اور نہ ہی اسے اس کارکن کے خلاف کسی قسم کی تادیبی کارروائی کا اختیار ہے۔