غیر مسلم اور رمضان المبارک کا احترام

June 22, 2016

ماہ رمضان وہ واحد اسلامی مہینہ ہے جس کا انتظار ہر مسلمان کو شدت سے ہوتا ہے ، یہ مہینہ مسلمانوں کو گناہوں سے معافی مانگنے اور اللہ سے اس کی رحمت طلب کرنے کے لئے کسی تحفے سے کم نہیں ۔ اللہ تعالیٰ بھی اس ماہ میں اپنے بندوں کے لئے رحمتوں اور برکتوں کے دروازے کھول دیتا ہے ۔یہی وہ مہینہ ہے جس میں فرزندان توحید اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس ماہ میں خرچ کرنے سے جو تسلی و تشفی دل کو ملتی ہے وہ کسی اور ماہ کی نسبت دُوگنا ہے۔ماہ صیام میں دنیا بھر کی مساجد نمازیوں سے بھر جاتی ہیں جس سے رمضان کی رونقیں بڑھتی ہیںاور مل کر افطار کا سماںجذبہ ِایمانی کو مزیدجلا بخشتا ہے۔پاکستان ایک اسلامی فلاحی ریاست ہے لیکن اس کے باوجود رمضان المبارک کی آمد کے ساتھ ہی تمام اشیائے خوردنوش کی قیمتوںمیںہوشربا اضافہ کردیا جاتا ہے اور مہنگائی کے مارے عوام اپنے قلیل وسائل کے ساتھ رمضان المبارک انتہائی تکلیف دہ اور مخدوش حالات میں گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ۔پاکستان کا کوئی وفاقی اور صوبائی ادارہ رمضان المبارک میں مہنگائی جیسے ’’ جن ‘‘ کو قابو نہیں کر سکتا ،ہاں یہ ضرور ہے کہ جب کسی وفاقی یا صوبائی وزیر نے رمضان بازار کا معائنہ کرنا ہو تو کچھ وقت کے لئے سرکاری اشارے کی بدولت تمام اشیائے خوردونوش سستی کر دی جاتی ہیں ۔پاکستان کے عوام ویسے تو کئی سالوں سے لوڈ شیڈنگ جیسے سانحہ سے دو چار ہیں لیکن رمضان المبارک میں روزہ دار چاہتے ہیں کہ کم از کم اس ماہ لوڈ شیڈنگ نہ ہو ،لیکن ان کا یہ خواب آج تک شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکا ۔رمضان میں مہنگائی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اس ماہ کے آنے سے پہلے ہی سرمایہ دار کھجور ، پھل ، سبزیاں اور دوسری اشیاء ذخیرہ کر لیتے ہیں اور پھر اپنی مرضی سے انہیں بیچا جاتا ہے ۔یورپ بھر میں مقیم پاکستانی اپنے وطن میں رشتہ داروں کی خواہشات اور مطالبات کے مطابق انہیں رمضان المبارک کےحوالے سے تحائف بھیجتے ہیں لیکن رشتہ داروں اور بہن بھائیوں کی طرف سے مہنگائی کا رونا روتے ہوئے مزید کا تقاضا انہیں بھی پریشان کرتا ہے ۔ پاکستان میں مسلمان سرمایہ داراپنے غریب مسلمان بھائیوںکے لئے دشواریاں پیدا کرتے ہیں جبکہ یورپی ممالک میں مسلمانوں کے اس بابرکت مہینے کا احترام کیا جاتا ہے ، یہاں کے مقامی غیر مسلم، مسلمانوں کے لئے اپنی جیب سے افطار پارٹیوں کا اہتمام کرتے ہیں ،افطار کے وقت مقامی میزبان روزہ کا ادب کرتے ہوئے اس وقت تک کچھ نہیں کھاتے جب تک افطار کا کہا نہ جائے ۔ان ممالک میں ہونے والی افطار پارٹیوں میں مسلمانوں کے جذبات اورمذہبیومعاشرتی شعار کو مد نظر رکھتے ہوئے تمام اشیاء حلال رکھی جاتی ہیں بلکہ انہیں مسلمانوں کی دکانوں سے خریدا جاتا ہے ۔دیار غیر میں غیر مسلموں کا ہمیں مساجد کی تعمیرکی اجازت دینا ، عیدین اور نمازجمعہ کے لئے کھلی جگہ مہیا کرنا انسانیت کی قدر کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔رمضان میںیہاں کی مقامی کمیونٹی مسلمانوں کی اشیائے خوردونوش کو سستا کر دیتی ہے جبکہ ہمارے اپنے مسلمان دُکاندار وہی اشیاء اپنے بھائیوں کو مہنگے داموں فروخت کرتے ہیں ۔انگلینڈ میں حکومت کی طرف سے جہاں مسلمانوں کو افطار ڈنر دیئے جاتے ہیں وہاں رمضان المبارک میں باقاعدہ طور پر اشیاء سستی کر دی جاتی ہیں ۔جاپان کے وزیر اعظم نے خود مسلمانوں کے اس ماہ کا احترام کرتے ہوئے افطار ڈنر دیا اور سب کے ساتھ روزہ افطار کیا ۔اسی طرح جرمنی کی چانسلر ’’ انجیلا مرکل ‘‘نے رمضان المبارک میں مسلمانوں کی دُکانوں کا دورہ کیا اور اپنی حکومت سے کہا کہ اس ماہ مسلمانوں کی اشیائے خوردنوش اور ان پر لگائے جانے والے ٹیکسوں میں 26فیصد رعایت کر دی جائے ۔اسپین کے شہر بارسلونا میں تعینات امریکہ کے قونصل جنرل نے مسلمان کمیونٹی کو قونصلیٹ آفس میں افطار ڈنر دینے کی روایت قائم کی ہے اس افطار میں پاکستان ، مراکش ، الجزائر اور براعظم افریقہ کے مسلم ممالک کے باشندے شامل ہوتے ہیں ۔اسپین کی سیاسی پارٹی سوشلسٹ ، آئی سی وی ، سے دے سے اورپاپولر پارٹی کے نمائندگان مسلم کمیونٹی کے ساتھ افطار ڈنر میں حصہ لیتے ہیں ۔نماز عید میں مسلمانوں سے اظہار یکجہتی کے لئے مقامی وزراء اور سرکاری آفیسرز مساجد یا کھلے میدانوں میں پڑھائی جانے والی نماز میںشریک ہوتے ہیں تاکہ بین المذاہب ہم آہنگی کی مثال قائم کی جا سکے ۔دُنیا بھر میں مقیم مسلمان کمیونٹی کو چاہئے کہ وہ غیر مسلموں کے اس سلوک کو دیکھیں جو وہ مسلمانوں کے ساتھ کرتے ہیں،ان کی طرف سے دی جانے والی سہولتوں پر نظر دوڑائیں ،رمضان المبارک میں غیر مسلم ہمارے ساتھ اتنے اچھے برتائو کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ہم رمضان المبارک میں اپنے مسلمان بھائیوں کے استعمال کی اشیاء کا ذخیرہ کر لیتے ہیں ،پاکستان ہی کیا ساری دنیا میں مقیم پاکستانیوں کو مسلمان ہونے کے ناطے رمضان المبارک کاادب و احترام کرنا اور حد سے زیادہ منافع کمانے کے لالچ میں اپنے گناہوں میں اضافے سے بچنا ہوگا ۔پاکستان کی حکومت اور سرکاری اداروں کو چاہئے کہ وہ رمضان المبارک میں مہنگائی پر قابو پانے کا فارمولا بنائیں تاکہ مسلمان ہونے کے ناطے وہ جاپانی وزیر اعظم ، جرمن کی چانسلر ، امریکن قونصل جنرل اور اسپین کی سیاسی جماعتوں کے غیر مسلم نمائندوں کو بتا سکیں کہ غیر مسلم ہی مسلمانوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھتے بلکہ ہم مسلمان بھی رکھ سکتے ہیں ۔