نئے سال پر دنیا کی سب سے بڑی آتش بازی

January 08, 2014

دبئی کے حکمرانوں کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ دنیا کی ہر بڑی چیز اپنے چھوٹے سے جزیرے میں سمودیں۔ چاہے وہ دنیا کی سب سے بڑی عمارت ہو، دنیا کا سب سے بڑا شاپنگ سینٹر ہویا دنیا کا سب سے بڑا انسانی ساختہ جزیرہ (Man-made island) ہو۔ کچھ دنوں قبل دبئی کو ایک اور بڑا اعزاز اُس وقت حاصل ہوا جب اُس نے دنیا کی سب سے بڑی اور مہنگی ترین آتش بازی کا مظاہرہ کرکے اپنا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں درج کرایا۔ آتش بازی کا یہ مظاہرہ نئے سال کے موقع پر کیا گیا جس میں چند منٹوں میں 5لاکھ سے زائد فائر ورکس (Fireworks) فضا میں چھوڑے گئے۔ اس طرح گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ نے دبئی کی آتش بازی کو دنیا کی سب سے بڑی آتش بازی قرار دے کر دبئی کا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرلیا۔
دبئی کو قدامت پسند خطے کا جدید ترین شہر قرار دیا جاتا ہے جہاں 200 سے زائد ممالک کے باشندے مقیم ہیں۔ گزشتہ چند برسوں سے دبئی کو نئے سال کے آغاز کے موقع پر آتش بازی اور دیگر تفریحات کے حوالے سے عالمی شہرت حاصل رہی ہے جبکہ حال ہی میں دبئی کو ایکسپو2020ء کی میزبانی کا شرف بھی حاصل ہوا ہے۔ حالیہ آتش بازی کا ٹھیکہ امریکہ کی معروف کمپنی گروچی (Grucci) کو دیا گیا تھا۔ کمپنی نے 10 مہینوں کی انتھک محنت سے آتش بازی کے اس مظاہرے کو مرتب کیا تھا جس پر تقریباً 6 ملین ڈالر (63 کروڑ روپے) کی لاگت آئی تھی۔ اس طرح نئے سال کی آمد پر 31 دسمبر 2013ء کی درمیانی شب 200 ٹیکنیشنز نے 100 کمپیوٹروں کی مدد سے 5 لاکھ سے زائد فائر ورکس فضا میں چھوڑے جس سے دنیا کے سب سے بلند ترین ٹاور برج الخلیفہ سے لے کر انسانی ساختہ پام آئی لینڈ کا پورا جزیرہ جگمگا اٹھا اور ایسا لگنے لگا کہ جیسے سمندر میں سورج نکل آیا ہو۔ 6 منٹ تک جاری رہنے والی اس آتش بازی نے رات میں بھی دن کا سماں پیدا کردیا تھا۔ پہلے منٹ میں ایک لاکھ سے زائد فائر ورکس فضا میں چھوڑے گئے جس نے 2012ء میں کویت کی 50 ویں سالگرہ کے موقع پر ایک منٹ میں 77 ہزار 242 فائر ورکس فضا میں چھوڑنے کے عالمی ریکارڈ کو توڑ دیا جس کے بعد یکے بعد دیگرے مزید 4 لاکھ فائر ورکس فضا میں چھوڑے گئے۔
آتش بازی کو دیکھنے کے لئے دنیا بھر سے لوگ خصوصی طور پر دبئی پہنچے تھے جن میں خلیجی ممالک بالخصوص سعودی عرب کے ہزاروں افراد شامل تھے۔ اس دوران متحدہ عرب امارات کے ہوٹلوں میں کوئی کمرہ خالی نہ تھا جبکہ بڑے ہوٹلوں نے اپنے کرائے کئی گنا بڑھا رکھے تھے جہاں کوئی کمرہ 500 ڈالر (52 ہزار روپے) یومیہ سے کم میں دستیاب نہ تھا۔ آتش بازی دیکھنے کے لئے دوپہر سے ہی لوگ گاڑیوں میں آتش بازی کے مقامات کی طرف آنا شروع ہو گئے تھے۔ اتفاق سے میں بھی کاروباری مصروفیات کے سلسلے میں دبئی میں موجود تھا اور اس طرح مجھے بھی برج الخلیفہ ٹاور پر ہونے والی دنیا کی سب سے بڑی آتش بازی کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ گھڑی نے جیسے ہی نصف شب کے 12 بجائے، گویا آسمان پر رنگ و روشنیوں کا سیلاب امڈ آیا۔ آتش بازی نے رات میں بھی دن کا سماں پیدا کردیا تھا جس سے دنیا کی بلند ترین 163 منزلہ عمارت جگمگا کر نہایت دلفریب منظر پیش کررہی تھی۔ اس موقع پر میرے ملے جلے احساسات تھے۔ مجھے حیرت کے ساتھ ساتھ افسوس بھی ہو رہا تھا کہ یہ سب کچھ ایک اسلامی ملک میں ہورہا ہے جسے امریکی کمپنی نے آتش بازی کا مہنگا ترین شو یہ کہہ کر فروخت کیا تھا کہ اس آتش بازی کو چاند سے بھی دیکھا جاسکتا ہے اور اس سے دبئی ایک دوسرے اسلامی ملک کا ورلڈ ریکارڈ توڑ کر اپنا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کر سکتا ہے۔ اس طرح یہ جانتے ہوئے بھی کہ آتش بازی پیسے کا ضیاع ہے جس کی ہمارا مذہب قطعاً اجازت نہیں دیتا، صرف 6 منٹ کی آتش بازی کی خاطر 6 ملین ڈالر کی خطیر رقم آگ کی نذر کردی گئی۔ (قارئین! آتش بازی کے موقع پر لی گئی تصاویر آپ میری فیس بک پر ملاحظہ کرسکتے ہیں۔)
سرمایہ دارانہ نظام کے باعث امیر اور غریب ممالک اور لوگوں کے درمیان فاصلوں میں روز بروز اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ ایک جانب کچھ اسلامی ممالک میں دولت کی بہتات ہے اور وہاں محض اپنا نام گینز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں شامل کرنے کے لئے خطیر رقم آتش بازی کی مد میں خرچ کی جارہی ہے تو دوسری جانب پاکستان سمیت کچھ اسلامی ممالک میں غربت، بیروزگاری اور بھوک و افلاس سے روزانہ کئی لوگ موت کے منہ میں جارہے ہیں۔ سال نو کی خوشیاں مناتے وقت ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہئے کہ مسلمانوں کا نیا سال یکم محرم الحرام سے شروع ہوتا ہے جبکہ اسلام میں اس طرح کی رسومات پر پیسوں کے ضیاع کی بھی کوئی گنجائش نہیں۔ ہمیں ایسا کرتے وقت یہ بھی سوچنا چاہئے کہ کہیں ہم اسلامی ثقافت و روایات کے منافی تو کوئی کام نہیں کررہے؟
پاکستان میں بھی گزشتہ کچھ عرصے سے آتش بازی کی رسومات میں مسلسل اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ سرکاری اور غیر سرکاری تقریبات اور شادی بیاہ کے موقع پر لاکھوں روپے آتش بازی کی نذر کردیئے جاتے ہیں، یہ سوچے بغیر کہ آتش بازی جیسی فضول رسم پر خرچ ہونے والی رقم سے کتنے بھوکوں کو کھانا کھلایا جاسکتا تھا، کتنی غریب لڑکیوں کی شادی کی جاسکتی تھی، کتنے اسکول اور مدرسے قائم کئے جا سکتے ہیں،کتنی زندگیاں بچائی جاسکتی تھیں اور موت کے منہ میں جانے والے لاعلاج مرض میں مبتلا میک اے وش کے کتنے بچوں کی آخری خواہشات کو پورا کیا جاسکتا تھا۔ حکومت سے میری گزارش ہے کہ آتش بازی کی اس غیر اسلامی رسم پر پابندی عائد کی جائے جبکہ وزراء و اعلیٰ حکام بھی کسی ایسی تقریب میں شرکت نہ کریں جس میں آتش بازی کا اہتمام ہو۔
دولت اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے جسے یوں فضول رسموں پر لٹانا مناسب نہیں۔ اگر ہم نے فضول خرچیوں کی اس روش کو نہ بدلا تو ننھی منی خواہشات دل میں لئے دنیا سے رخصت ہونے والے اور بھوک و افلاس سے مرنے والے بچوں کی بددعائیں عرش کو بھی ہلادیں گی، پھر ہم روز قیامت اللہ تعالیٰ کو کیا جواب دیں گے؟ ضرورت اس امر کی ہے کہ امیر اسلامی ممالک اپنے وسائل فضول رسومات پر لٹانے کے بجائے ان سے اُن غریب اسلامی ممالک کی مدد کریں جہاں غربت اور بھوک و افلاس سے لوگ مررہے ہیں۔ حضور اکرم ﷺ کا فرمان ہے ’’مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں، اگر جسم کے کسی ایک حصے میں تکلیف ہو تو اس کا احساس پورے جسم کو ہوتا ہے‘‘۔کاش کہ ہمارے امیر مسلمان بھائیوں کو اپنے دوسرے غریب مسلمان بھائیوں کی تکلیف کا احساس ہوجائے۔