یورپ، دن چھوٹے ہونے کے باوجود کئی دن سورج غروب نہیں ہوگا

June 23, 2016

افضل ندیم ڈوگر، برلن..... یورپ میں دنوں کی طوالت کا دورانیہ کم ہونا شروع ہوگیا ہے۔ بعض علاقوں میں ابھی بھی کئی دن تک سورج غروب نہیں ہوگا اور وہاں سردیوں میں دو ماہ تک رات رہتی ہے۔

محکمہ موسمیات کے مطابق 22 جون کو یورپ سمیت اطراف کے مختلف ملکوں میں دن کے اوقات کم ہونا شروع ہوگئے ہیں۔ ماہرین کے مطابق یورپ اور اطراف کے ملکوں میں 21 جون کو طویل ترین دورانیہ کا دن تھا جب گرین لینڈ کے 16 علاقوں میں کئی دن سے سورج غروب ہی نہیں ہوا کہ اس کے طلوع ہونے کا وقت متعین کیا جاتا یعنی گرین لینڈ میں مسلسل کئی دنوں سے رات ہی نہیں ہوئی اور یہ سلسلہ مزید کئی دنوں تک جاری رہے گا۔

اس کے قریبی ملک فن لینڈ کے بھی لگ بھگ 7 علاقوں میں یہی صورتحال ریکارڈ کی گئی ہے۔ فن لینڈ کے ایک شہر کیمی میں تو 22 جون کو بغیر اندھیرے کی رات محض 5 منٹ کی تھی جہاں سورج اے ایم کے ایک بجکر 21 منٹ پر غروب اور ایک بجکر 26 منٹ پر طلوع ہوگیا۔

اس کے قریب کے ایک اور ملک آئس لینڈ کے بھی تین علاقے ایسے ہیں جہاں رات نہیں ہوئی۔ یہاں کے ایک شہر ایکیوریر میں 21 جون کی رات محض 31 منٹ کی تھی۔ سورج اے ایم کے 12 بجکر 59 منٹ پر غروب ہوا اور ایک بجکر 30 منٹ پر طلوع ہوگیا۔

سویڈن کے بھی لگ بھگ 4 علاقوں میں مسلسل دن ہے اور کئی روز تک سورج غروب ہی نہیں ہوگا۔ یہاں کے ایک علاقے لیولیا میں 21 اور 22 جون کی درمیانی رات محض54 منٹ کی تھی جس کا دورانیہ اب بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔

پاکستان میں بیٹھ کر جائزہ لیں تو یورپ کے دیگر ملکوں میں بھی دن کی طوالت حیران کر دیتی ہے۔ مثلاً ڈنمارک میں سورج پاکستانی وقت کے مطابق رات 10 بجے کے بعد غروب ہوتا ہے اور صبح 4 بجے کے بعد ہی دن شروع ہوجاتا ہے۔

فرانس میں بھی لگ بھگ یہی اوقات کار ہیں۔ یہاں جرمنی کے شہروں میں بھی 10 بجے سورج غروب ہونا شروع ہوتا ہے اور رات کا اندھیرہ ہوتے ہوتے 11 بج جاتے ہیں اور صبح ساڑھے 4 بجے دن کا اجالا شروع ہوجاتا ہے۔

سوال یہ ہے کہ چند گھنٹے کی رات میں لوگ کتنا سو پاتے ہیں۔ یہی سوچ کر جب لوگوں کی مصروفیات نوٹ کی گئیں تو دیکھا گیا کہ یہاں کے لوگوں کو سورج یا اس کی روشنی سے کوئی سروکار نہیں۔ یہاں کے لوگ مشینی انداز میں اپنی گھڑیوں کے مطابق چلنے کے عادی ہیں۔ ہمارے ملکوں کی طرح چار سے چھ بجے کے دورانیہ میں دفتر کی چھٹی کے اوقات مقرر ہیں۔

گھڑیاں دیکھ لوگ اپنے اپنے گھروں میں چلے جاتے ہیں۔ سورج غروب نہیں ہوا تو کیا ہوا لوگ اپنے اوقات کار کے مطابق ڈنر کرلیتےہیں۔ کہیں رات نہیں ہوئی تو ان کے لئے کوئی مسئلہ نہیں۔ بیڈ روم کی کھڑکی پر بھاری بھر پردہ کرلیا جاتا ہے۔ کمرے میں اندھیرا کیا اور اپنے تخیل میں رات ہونے کا تصور لاکر لوگ سوجاتے ہیں۔

سورج نکلا ہے یا نہیں کسی کو اس سے کوئی سروکار نہیں۔ گپ اندھیرے کمرے میں گھڑی دیکھ کر بیداری کی تیار ہوکر صبح 8 بجے کام پر پہنچ گئے۔

طویل ترین دن یا پھر چند گھنٹوں کی رات کا ماہ رمضان میں پوری دنیا کے مسلمانوں کو سوچنے پر مجبور کرتا ہے، کیونکہ انہیں طلوع آفتاب سے بہت پہلے اذان فجر پر روزہ رکھنا ہوتا ہے جو غروب آفتاب کے بعد اذان مغرب پر ہی کھولا جاتا ہے۔ اس خطے کے مسلمانوں کے لئے طلوع آفتاب اور غروب آفتاب کے اوقات کار مختلف ہونے کی وجہ سے یہاں کے روزے بھی طویل ترین ہوتے ہیں۔

یوں اگر کسی علاقے میں دو گھنٹے کی رات ہوتی ہے تو وہ ماہ رمضان میں مسلمانوں کے لئے تکنیکی اعتبار سے بہت کم دورانیہ ہوتا ہے۔ یعنی افطاری کے بعد اگر وہ نماز مغرب کے لئے مسجد جاتے ہیں تو نماز عشا اور تراویح کا وقت بھی ساتھ ہی شروع ہوجاتا ہے۔ ایک ہی وقت میں دو نمازیں ادا کرکے فارغ ہوئے تو رات کا کھانا شروع ہوتا ہے جو وقت کی کمیابی کی وجہ ازود سحری بھی کہلا تا ہے جس کے بعد نماز فجر کی ادائیگی کے بعد دن طلوع ہوجاتا ہے۔

بات یہیں ختم نہیں ہوئی۔ دن کے اوقات کار کا دورانیہ کم ہونے کا جو سلسلہ22تاریخ سے شروع ہوا ہے وہ سورج کو بڑی تیزی سے ان علاقوں سے دور بھی لے جائے گا۔ یوں سردیاں شروع ہوتے ہی اس خطے کے کئی ملکوں کے کئی شہریوں میں کئی کئی ماہ تک رات ہی رہتی ہے اور سورج طلوع نہیں ہوتا۔ یا اگر کچھ علاقوں میں دن نکلتا ہے تو محض اتنے دورانیہ کے لئے نکلتا ہے جتنے دورانیہ کی وہاں اب رات ہوتی ہے۔

پاکستان میں بیٹھے لوگ یہاں کے مسلمانوں کے 22 یا 23 گھنٹوں کے روزوں پر چیخ اٹھتے ہیں ان کی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ انتہائی طویل روزہ مشکل ہوتا اگر یہاں کا موسم پاکستان یا بھارت جیسا ہوتا۔ گرمیوں کے موسم میں یہاں کراچی کی سردیوں جیسا موسم ہوتا ہے جو روزے داروں کو تکلیف نہیں دیتا۔

دوسرا یہ کہ سردیوں کے ماہ رمضان المبارک میں شدید برف باری اور نقطہ انجماد کے ٹمپریچر میں یہاں کے مسلمان صرف دو دو تین تین گھنٹے کے روزے کا ثواب دارین بھی اسی طرح حاصل کرتے ہیں جتنا کہ آج کل کے سرد موسم کے 20 سے 23 گھنٹے کے روزے کا ملتا ہے۔

یہاں کے موسموں کا اگر اپنے وطن سے موازنہ کریں تو خدا کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں پاکستان جیسا عظیم خطہ دیا جہاں موسموں کے ساتھ ساتھ سب کچھ متوازن ہے۔ اس کی قدر کریں تو دنیا کو کوئی ملک اس جیسا نہیں۔