ایتھوپیا،بِرکس اور ہم!

August 31, 2023

دنیا کی اُبھرتی معیشتوں کے حامل پانچ رُکنی ممالک یعنی برازیل ، روس، چین، انڈیا اور سائوتھ افریقہ پر مشتمل فورم برکس نے جنوبی افریقہ کے دارالحکومت جوہانسبرگ میں منعقدہ اپنے حالیہ سربراہی اجلاس کے دوران مزید چھ ممالک ارجینٹینا، مصر، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور ایتھوپیا کو نئے ممبربنانے پر اتفاق کیا ہے۔ ایتھوپیا کا نام سامنے آتے ہی میں ایک دم چونک سا گیا کیونکہ میرے ذہن میں افریقی ملک کی شدید پسماندگی، غربت، قحط ، خوراک کی کمی اورانسانی ہمدردی کی اپیلوں پر مبنی وہ خبریں گھومنے لگیں جو ایک زمانے میں ہمارے میڈیا کی زینت بنا کرتی تھیں۔ میں سوچنے پر مجبور ہو گیا کہ دنیا کے پسماندہ ترین ممالک بھی ترقی اور کامیابی کی دوڑ میں ہم سے اس قدر آگے بڑھ گئے ہیں کہ جہاں ایک طرف ہمیں برکس جیسے اہم بین الاقوامی اداروں کی ممبرشب کا اہل نہیں سمجھا جارہا، وہیں ماضی کے قحط زدہ ایتھوپیا جیسے ممالک وقت کے بدلتے تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے دھڑا دھڑ عالمی سطح پر بننے والے اداروں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔رواں صدی کے آغاز میں2001میں سب سے پہلے بِرک کی اصطلاح منظرعام پر آئی تھی،تاہم بانی ممبران ممالک برازیل ،رشیا، انڈیا، چائنہ اور ساؤتھ افریقہ کے انگریزی ناموں کے پہلے حرف استعمال کرکے 2009ء میں غیررسمی تنظیم سازی کی گئی ، یہ وہ ممالک تھے جنکی تیزی سے اُبھرتی معیشتوں کے بارے میں عالمی سطح پر پیش گوئیاں کی جارہی تھیں کہ یہ 2050ء تک اپنے آپ کو عظیم اقتصادی قوت کے طور پرڈھالنے میں کامیاب ہوجائیں گے، اس زمانے میں ایتھوپیا کے اس اہم اقتصادی فورم میں شمولیت کے دور دور تک کوئی امکانات نہیں تھے، حیران کُن طور پر 2000ء میں اقوام متحدہ کے سروے کے مطابق ایتھوپیا دنیا کے غریب ترین ممالک کی فہرست میں دوسرے نمبر پر تھا اور آج فقط دو دہائیاں بعد ایتھوپیا تیزترین معاشی ترقی کرنے کی بدولت چین ، روس، یواے ای اور دیگر اُبھرتی معیشتوں کے شانہ بشانہ کھڑا ہو گیا ہے۔جب میں پاکستان کے حوالے سے بات کرتا ہوں کہ ہمیں ترقی کے سفر میں چین، ملائشیا ،جنوبی افریقہ ،یورپی یونین اورجنوبی کوریا کو اپنا رول ماڈل بنانا چاہئے تو کہا جاتا ہے کہ ان ممالک سے پاکستان کا کوئی موازنہ نہیں کیونکہ ان ترقی یافتہ ممالک کا ماحول، وسائل اور طرزِ زندگی ہم سے بالکل مختلف ہے،جب میں پڑوسی ملک کی بات کرتا ہوں کہ ہمارے ساتھ آزاد ہونے والا چاند پرپہنچ گیا ہے اور ہمیں ہر سال چاند ہی نظر نہیں آتا تو کچھ حلقوں کو میرا یہ اندازِبیان گراں گزرتاہے۔ تاہم اب رول ماڈل ممالک کی فہرست میں ماضی قریب میں بھوک اور قحط کی علامت سمجھے جانے والے افریقی ملک ایتھوپیا بھی شامل ہوگیاہے جہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں تیزی سے ترقی کا سفر جاری ہے،عالمی اداروں کے مطابق براعظم افریقہ کے امیرترین کروڑ پتی افراد کی سب سے زیادہ تعداد ایتھوپیا میں بستی ہے۔گزشتہ دو دہائیوں میں ایتھوپیا نے غربت پرقابو پانے کیلئے اپنے سرحدی تنازعات ختم کر کے اندرونی طورپرامن و امان کی فضاء قائم کی،اپنے معاشرے میں برداشت اورروادار ی کو پروان چڑھایا،نوجوانوں کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کیلئے اسکالرشپ دیے،عام آدمی کو معاشی طور پر مضبوط کرنے کیلئے چھوٹے پیمانے پر عوا م دوست کاروباری پالیسیاں اور سازگار ماحول یقینی بنایا۔ ایتھوپیا نے اپنے بل بوتے پر دریائے نیل پر افریقہ کا سب سے بڑا ڈیم بنا نے کا عظیم کارنامہ سرانجام دیا جس سے ایتھوپیا اورسوڈان کے عوام کو پانی کی قلت سے چھٹکارا ملا ، اس ڈیم سے بننے والی بجلی سے نہ صرف پورا ایتھوپیا روشنیوں سے جگمگا اٹھا بلکہ وہ اپنے پڑوسی ممالک کو بھی سستی بجلی فراہم کرنے کے قابل ہوگیا، ایتھوپیاجیسے ماضی کے پسماندہ ملک خود انحصار ہورہے ہیں تو ہم آئی ایم ایف اور عالمی اداروں کے سامنے کشکول اٹھائے کھڑے ہیں،کراچی سے خیبر تک لوگ سڑکوں پر لوگ بجلی کے مہنگے بِل اٹھائے احتجاج کررہے ہیں، کاروبار تباہ ہونے کے باعث بے روزگاری عروج پرہے، جرائم کی وارداتیں روز بروز بڑھتی جارہی ہیں، تعلیم یافتہ نوجوان نوکریاں نہ ہونے کے باعث نقل مکانی کررہے ہیں، لوگ مہنگائی کا مقابلہ کرنے کی سکت نہ ہونے کے سبب خودکشیاں کرنے پر مجبور ہیں۔ ہمیں خود سے یہ سوال پوچھنا چاہئے کہ ایک ایسا ملک جو اپنے عوام کو سستی بجلی فراہم کرنے سے قاصر ہے، جسکے اربابِ اختیار اپنے ذاتی مقاد کو قومی مفادات پر ترجیح دیتے ہیں، جہاں مقامی کرنسی کی قدر روز بروز گراوٹ کا شکار ہو، جہاں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرتی ہوں، ایسے ملک میں کون سرمایہ کاری کرنے کی حماقت کرے گا؟ آج ملکی حالات دیکھ کردِل سے دعا نکلتی ہے کہ خدا ہمارے پیارے ملک پر رحم کرے،ہمیں اپنے ملک کے ساتھ وفاداری نبھانے کا اہل بنا، ہمارے اربابِ اختیار کی کوتاہیوں کی سزا عوام کو نہ دے۔اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنے آپ کو بدلتی ہوئی دنیا کے تقاضوں کے مطابق ہم آہنگ کریں اور دقیانوسی پالیسوں کو خیرباد کہہ دیں بصورت دیگر مجھے آئندہ آنے والے حالات ملکی معیشت کیلئے بہت کٹھن اور دشوار نظر آرہے ہیں۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)