مذاکرات میں تعطل ؟

February 16, 2014

قیام امن کے لیے جاری مذاکراتی عمل کے شروع ہونے کے بعد خلاف امن سرگرمیاں بند ہونے کی توقع اب تک پوری نہ ہوسکنے کے باعث مذاکرات کے مستقبل کے بارے میں خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔ حالات کی نزاکت کی بنا پر اصل فریقوں یعنی حکومت اور طالبان کے براہ راست مکالمے کی بجائے دونوں طرف سے بات چیت کیلئے غیرمتعلق افراد پر مشتمل کمیٹیاں اس یقین دہانی کے ساتھ تشکیل دی گئی ہیں کہ وہ مکمل طور پر بااختیار ہیں اور ان کی بات مانی جائے گی لیکن عملی صورتحال قدرے مختلف محسوس ہوتی ہے تحریک طالبان نے وزیرستان جانے والی ثالثی کمیٹی کو امن کے منافی سرگرمیاں بند کرنے کا یقین دلایا تھا ۔ چنانچہ اس کے بعد پشاور کے دو سنیما گھروں اور ایک ہوٹل میں ہونے والی دہشت گردی کی کارروائیوں سے طالبان نے فوری طور پر لاتعلقی کا اظہار کرکے اس تاثر پختہ کیا کہ انہوں نے امن منافی اقدامات بند کردیے ہیںلیکن دو دن پہلے کراچی میں پولیس پر حملے کی ذمے داری قبول کرکے یہ خوش فہمی دور کردی۔ انہوں نے اس کا سبب اپنی تحریک کے بعض کارکنوں کے خلاف پولیس کی مبینہ کارروائی کو بتایا اور اعلان کیا کہ جب تک حکومت فائر بندی نہیں کرے گی اس وقت تک طالبان بھی ایسا نہیں کریں گے۔اس تناظر میں جمعہ کو حکومت پاکستان اور تحریک طالبان دونوں کی نمائندگی کرنے والی کمیٹیوں کا مشترکہ اجلاس ہوا۔ اس اجلاس کے بعد جاری کیے جانے والے مشترکہ اعلامیہ کی رو سے دونوں کمیٹیوں نے ملک میں پے درپے ہونے والے امن منافی واقعات پر گہرے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ ایسی سرگرمیوں کے جاری رہنے کے نہایت منفی اثرات مرتب ہوں گے۔حکومتی کمیٹی کے ارکان نے کراچی میں پولیس پر حملے کے واقعے کا حوالہ دیتے ہوئے واضح کیا کہ دہشت گردی کی کارروائیوں کے جاری رہنے کی صورت میں امن عمل آگے نہیں بڑھ سکے گا۔اس لیے طالبان واضح اور دوٹوک الفاظ میں اعلان کریں کہ امن کے منافی کارروائیاں بلاتاخیر بند کی جارہی ہیں اور اس اعلان پر مؤثر عمل درآمد کو یقینی بنایا جائے۔مشترکہ اعلامیہ کے مطابق طالبان کی نمائندگی کرنے والی کمیٹی نے بھی حکومتی کمیٹی کے اس موقف سے اتفاق کرتے ہوئے اس ضرورت کا اظہار کیا کہ حکومت بھی کوئی ایسا قدم نہ اٹھانے کا واضح طور پر اعلان کرے جس کے نتیجے میں اشتعال پھیل سکتا ہو ۔ مشترکہ اعلامیہ میںدونوں کمیٹیوں نے اس بات پر زوردیا ہے کہ کسی بھی جانب سے طاقت کا استعمال نہ کیا جائے۔حکومتی کمیٹی نے اپنے اس موقف کا اعادہ کیا ہے کہ خلاف امن کارروائیوں کے مؤثر خاتمے کے بعد اعتماد کی بحالی اور دیگراقدامات کے لیے پیش رفت کی جائے گی۔ مذاکراتی کمیٹیوں کے مشترکہ اجلاس کے بعد مولانا سمیع الحق نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ بارہ سال کی جنگ ختم ہونے میں وقت لگے گا تاہم امید ہے کہ ایک دو دن میں جنگ بندی ہوجائے گی۔انہوں نے قوم کو یقین دلایا کہ مذاکرات کو تعطل کا شکار نہیں ہونے دیا جائے گا۔ مولانا سمیع الحق نے یہ بھی بتایا کہ دونوں طرف کے تحفظات دور کرنے کے لیے علماء کا اجلاس بلانے کا فیصلہ کیا گیا ہے تاکہ ان کی مشاورت کی روشنی میں پیش رفت کی جائے۔ حکومت اور طالبان دونوں کو اپنی یقین دہانیوں کے مطابق ان کمیٹیوں کے ساتھ پورا تعاون کرنا چاہیے اور جن باتوں پر ان کے درمیان اتفاق ہو انہیں اپنے عمل سے مسترد کرکے کمیٹیوں کی محنت کو ضائع کرنے سے گریز کرنا چاہیے۔ یہ حقیقت دونوں فریقوں اور اسلام کے نام پر امن منافی سرگرمیوں میں ملوث تمام تنظیموں کو سمجھنی چاہیے کہ کسی نہ کسی طور پر جنگ جاری رکھنا ہمارے مشترکہ دشمنوں کا ایجنڈا ہے اور جو بھی امن کی بات چیت میں خلل ڈالنے کی کوشش کررہا ہے وہ درحقیقت اسلام اور پاکستان کے دشمنوں کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ بن رہا ہے۔ لہٰذا جو تنظیمیں امن مذاکرات اور اس کے لیے ملک کے تمام مکاتب فکر کے علماء کی اپیلوں کے باوجود امن کے منافی اقدامات جاری رکھے ہوئے ہیں انہیں ایسا کرنے سے روکنے کے لیے تحریک طالبان کو بھی اپنے اثرات استعمال کرنے چاہئیں اور ان تنظیموں کے باز نہ آنے کی صورت میں ان کے خلاف فیصلہ کن کارروائی پر اسے کوئی اعتراض نہیںہونا چاہیے ۔

بلوچستان کی خطرناک صورتحال
یہ امر باعث تشویش ہے کہ ڈسٹرکٹ کیچ کے ڈپٹی کمشنر عبدالحمید ابڑو اور تمپ کے اسسٹنٹ کمشنر محمد حسین بلوچ کے اغوا کے بعد صوبائی حکومت کی طرف سے ان کی رہائی کو ممکن بنانے کے لئے بھجوائے جانے والے وفد کے تین ارکان اور ایک قبائلی بزرگ رہنما کو بھی یرغمال بنا لیا گیا ہےاور جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ کالعدم بلوچ لبریشن فرنٹ نے اس واقعہ کی ذمہ داری قبول کرلی ہے۔ اس حوالے سے سب سے پہلی بات یہ ہے کہ جب کسی جماعت کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے تو پھر اس کی تمام سرگرمیاں بند کردی جاتی ہیں اور انہیں کسی حالت میں بھی اپنی کارروائیاں جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جاتی لیکن ہمارے ہاں عمومی طور پر یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ کسی بھی پارٹی یا تنظیم کو کالعدم تو قرار دے دیا جاتا ہے لیکن عملی طور پر اس کی کارروائیاں روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا جاتا۔ یہ معاملہ صرف بلوچستان تک ہی محدود نہیں پورے ملک میں کالعدم تنظیمیں بعض نام بدل کر اور بعض پرانے ناموں کے تحت ہی کام کررہی ہیں جہاں تک بلوچستان کا تعلق ہے تو یہاں کئی کالعدم تنظیمیں نہ صرف بلوچستان کے اندر اغوا برائے تاوان، بھتہ خوری اور دہشت گردی کی وارداتوں میں ملوث ہیں بلکہ ان میں سے بعض اپنے صوبے سے باہر نکل کر دوسرے صوبوں میں بھی کارروائیاں کررہی ہیں، یہ الزامات بھی مختلف ذمہ داران کی طرف سے بار بار دہرائے جارہے ہیں کہ ان تنظیموں کو ہمارے بعض ہمسایہ ممالک کی طرف سے مالی، اسلحی اور تکنیکی امداد کے علاوہ تربیتی معاونت بھی فراہم کی جارہی ہے سوال یہ ہے کہ جب یہ سب کچھ زبان زد عام ہے تو ہماری صوبائی اور وفاقی حکومتیں اور ان کے تحت کام کرنے والے انٹیلی جنس ادارے جنہیں اس قسم کی صورتحال سے نمٹنے کی تربیت اور وسائل فراہم کئے گئے ہیں صوبے کی اس خطرناک صورتحال میں کیوں اس کے تدارک کیلئے کچھ نہیں کررہے ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ایک جانب حساس ایجنسیاں اور سکیورٹی ادارے غیر ملکی سازشوں کو ناکام بنانے کے لیے جامع حکمت عملی سے کام کریں تو دوسری جانب صوبے کی تہذیبی، ثقافتی اور قبائلی روایات کو بروئے کار لا کر امن کی کوششوں کو موثر بنایا جائے۔

عام آدمی پارٹی کا اصولی موقف
بھارت کے صوبہ دہلی کے وزیراعلیٰ کیجریوال اپنی کابینہ سمیت مستعفی ہوگئے ہیں۔ گزشتہ روز کرپشن کی روک تھام کے لیے برسراقتدار عام آدمی پارٹی کی جانب سے بل ریاستی اسمبلی میں پیش نہیں ہوسکا۔ جس کی وجہ سے کانگریس اور بی جے پی ،ارکان کا بل کے خلاف متحد ہونا بتایا جاتا ہے۔ ریاست کے وزیراعلیٰ نے صوبہ دہلی کے گورنر سے کہا ہے کہ اسمبلی تحلیل کر کے دوبارہ الیکشن کرائے جائیں۔ وزیراعلیٰ سمیت ساری کابینہ نے صرف 49 دن برسراقتدار رہنے کے بعد مستعفی ہونے کا اعلان کردیا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ کرپشن کے خاتمہ کے خلاف جدوجہد جاری رکھیں گے اور کسی دبائو کو قبول نہیں کریں گے۔ بھارت کے ریاستی انتخابات میں عام آدمی پارٹی کی صوبہ دہلی میں کامیابی میں نہ صرف بھارت بلکہ دوسرے ممالک کے غریب اورمتوسط طبقے کو بھی امید کی کرن نظر آتی ہے۔ اس ’’جمہوری انقلاب‘‘ کو تسلیم کرتے ہوئے بھارت کی برسراقتدار جماعت کانگریس نے اس جماعت کی حمایت کی ۔ عام آدمی پارٹی نے برسراقتدار آتے ہی دہلی میں پانی اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کردی۔ وزراء کے دفاتر کے دروازے عام آدمی کے لئے کھول دیئے گئے۔ کئی وزراء رکشہ اور عام سواری پردفاتر میں آئے۔ وزیراعلیٰ نے سرکاری پروٹوکول لینے سے انکار کردیا اور سب سے اہم یہ کہ کرپشن کے خاتمہ کے لیے وزیراعلیٰ کی جانب سے ایک بااثر فردکے خلاف مقدمہ تک درج کروا دیا گیا اور جب اس حوالے سے بل پیش کرنے کی کوشش کی گئی تو بھارت کےدو بڑی حریف سیاسی جماعتوں نے عام آدمی پارٹی کی حکومت کے خلاف گٹھ جوڑ کرلیا تاکہ عام آدمی پارٹی کی حکومت سے نجات حاصل کی جاسکے۔ پارٹی کے وزیراعلیٰ بل پیش کرنے کے فیصلہ کو موخر کر کے اپنی حکومت بچا سکتے تھے لیکن انہوں نے اصولی موقف سے دستبردار ہونے سے انکار کردیا ۔ وطن عزیز کے کچلے اور پسے ہوئے عوام بھی توقع رکھتے ہیں کہ جلد یا بدیر انہیں بھی کرپشن سے چھٹکارا دلانے اوران کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسی ہی مثالیں سامنے آئیں گی۔