قرضوں کی واپسی

March 01, 2024

آنے والے دس ماہ میں پاکستان نے عالمی مالیاتی اداروں اور ممالک کو تقریباً 24 ارب ڈالر ادا کرنے ہیں جس کے بڑے حصے کیلئے 30جون کی ڈیڈ لائن مقرر ہے۔ جنوری سے اس پر ہوم ورک ہورہا ہے اور یہ معاملہ اب نئی حکومت کو منتقل ہوجائے گاجسے ایک لمحہ بھی ضائع کئے بغیر کام آگے بڑھانا ہوگا۔اس سلسلے میں آئی ایم ایف سے نیا بیل آئوٹ پیکیج حاصل کرنے کی تیاری ہورہی ہے۔پاکستان کی کوشش ہے کہ اس کی مجموعی مالیت 6ارب ڈالر سے بڑھ کر 8ارب ہوجائے۔ادھر چین کے پاکستان پر واجب الادا 4ارب میں سے 2ارب ڈالر کی واپسی کی مدت 23مارچ 2024کو پوری ہورہی ہے۔جنوری میں نگران وزیراعظم انوارالحق کاکڑ نے چینی وزیراعظم لی کی چیانگ کو ایک خط لکھا تھا جس میں قرض کی ادائیگی میں ایک سال کی توسیع کی درخواست کی گئی تھی۔اطلاعات کے مطابق چین نے اس پر رضامندی کا اظہار کرتے ہوئے غیر رسمی طور پر پاکستان کو اپنے فیصلے سے آگاہ کردیا ہے تاہم وزارت خزانہ باضابطہ جواب کی منتظر ہے۔دوسری طرف معاشی مسائل پر رپورٹنگ کرنے والے بین الاقوامی ادارے بلوم برگ نےحاصل کردہ اعدادوشمار کی روشنی میں پاکستان کے اندرونی اور بیرونی قرضوں کو ناقابل برداشت قرار دیا ہے۔اس تشویشناک رپورٹ کو غلط نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ملک پر واجب الاداقرضوں کی مالیت جو 2018 میں 28ہزار ارب روپے تھی ،پانچ برسوں میں بڑھ کر 64 ہزار ارب روپے ہوگئی ہے جبکہ رواں سال مطلوبہ 24ارب ڈالر کا اضافہ اس حجم کو ہوشربا حد تک بڑھانے کا موجب بنے گا۔نئی حکومت کی اقتصادی مشینری یقیناًاپنا پلان لے کر آئے گی تاہم یہ خیال رہے کہ عام آدمی کسی بھی نئی مہنگائی کا متحمل نہیں ہوسکتا،اب مراعات یافتہ طبقے کی باری ہے جسے از خود رضاکارانہ طور پر آگے آنا اور حکومت کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔

اداریہ پر ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائے دیں00923004647998