جمشید دستی اور ان کے الزامات کی گونج

March 02, 2014

شاید جمشید دستی جیسے لوگوں کے بارے میں ہی نطشے نے کہا تھا کہ’’ایسے لوگوں کے بارے میں پیش گوئی نہیں کی جاسکتی ہے ،وہ یکایک بغیر کسی لحاظ و جواز کے ،بغیر کسی علت اور سبب کے مقدر کی طرح نمودار ہوجاتے ہیں۔ آسمانی بجلی کی طرح یکدم چمکتے ہیں اور بہت ہیبت ناک و جابر ہوتے ہیں مگر ان کی عظمت اتنی خیرہ کن ہوتی ہے کہ کوئی ان سے نفرت کرنا بھی چاہے تو نفرت نہیں کرسکتا۔انہیں جو قوت متحرک و فعال رکھتی ہے وہ ان کی شدید حد تک خودستائی ہوتی ہے۔ ویسی ہی خودستائی جیسی ایک فنکار کوئی لازوال فن پارہ تخلیق کرکے محسوس کرتا ہے ۔
جمشید دستی ایک عوامی آدمی ہے۔ اس لئے عوام کا درد بھی رکھتا ہے۔ وہ غریب طبقے سے ہے اسی لئے اپنے طبقے کا وفادار اور اشرافیہ سے باغی ہے۔ اس وقت قومی اسمبلی کے ایوان میں موجود ان چند نمائندوں میں سے ہے جن کی وجہ شہرت ان کی سادگی و ایمانداری ہے۔گزشتہ روز قومی اسمبلی اجلاس کے دوران مظفر گڑھ سے آزاد رکن قومی اسمبلی جمشید دستی کے انکشاف نے ایک مرتبہ تو اقتدار کے مضبوط ایوان کو ہلاکر رکھ دیا۔دستی کی بارعب آواز سے ایوان گونجتا رہا اور جب دستی کا مائیک بند ہو گیا تو وہ مائیک کے بغیر ہی چلاچلا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کرانے میں لگا رہا۔ ایوان میں موجود تمام ارکان اسمبلی دستی کو تک رہے تھے کہ کیا کوئی رکن پارلیمنٹ اتنی جرأت کرسکتا ہے۔ جی ہاں...جمشید دستی نے پورے ایوان کے سامنے یہ الزام لگایا کہ وہ پارلیمنٹ لاجز جن میں معزز ارکان اسمبلی رہائش پذیر ہیں، ان میں مبینہ طور پر شراب و چرس نوشی عام ہے اور کچھ ارکان تو دیگر نازیبا سرگرمیوں میں بھی ملوث پائے جاتے ہیں۔
یہ کوئی پہلا موقع نہیں تھا کہ جمشید دستی نے اس ملک کی مضبوط اشرافیہ کے خلاف آواز بلند کی بلکہ یہ وہی دستی ہے جس نے مظفر گڑھ جیسے جاگیردار علاقے میں ایک دو نہیں بلکہ تمام جاگیرداروں کو عوامی قوت سے چت کیا۔ سال 2013ء کے عام انتخابات میں اسی دستی نے کھر خاندان کی آبائی نشست تو چھینی ہی مگر اس کے ساتھ مرحوم نوابزادہ نصراللہ کے بیٹوں کو بھی شکست دی ہے۔ اس وقت پاکستان کے کسی حلقے کا ممبر اسمبلی عوام میں اتنی مقبولیت نہیں رکھتا جتنا جمشید دستی کو حاصل ہے۔ سال 2010-11ء کے دوران جنوبی پنجاب میں آنے والے بدترین سیلاب کی میڈیا کوریج کے دوران اس کالم نویس نے وہ مناظر خود دیکھے ہیں کہ جب سیلاب زدہ غریب عوام کے گھر بار،مویشی سمیت پانی میں ڈوب رہے تھے مگر جمشید دستی خود تیراکی کرکے اپنے حلقے کے عوام کی زندگیاں بچانے میں مگن تھا۔
اگر دستی کا یہ الزام درست ہے تو یہ بات تو طے ہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں ایسی سرگرمیاں بلاشبہ غیر اخلاقی بھی ہیں اور غیر قانونی بھی۔ اگر یہ سلسلہ عرصے سے چل رہا تھا تو اس معزز ایوان کے کسی اور رکن میں اتنی جرأت کیوں نہیں ہوئی کہ وہ اس پر سوال اٹھاتا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد ایسی بھی ہے جن کی نیت اور اخلاص پر شک نہیں کیا جاسکتا مگر جمشید دستی کے پاس مبینہ طور پرجو ٹھوس ثبوت ہیں ان سے تو لگتا ہے کہ بعض ارکان ایسی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔
جمشید دستی کے مذکورہ انکشاف سے چند روز قبل عدالت عظمیٰ کے ایک سینئر افسر سے میں نے کہا کہ آپ روزانہ ایک لمبا سفر طے کر کے عدالت آتے ہیں حالانکہ دیگر گریڈ 22 کے افسران کی طرح وہ نزدیک ہی پارلیمنٹ لاجز میں رہائش کے حقدار ہیں۔ وہ فرمانے لگے کہ ان کے پاس پارلیمنٹ لاجز میں ایک فیملی سوئیٹ ہے مگر اس وقت وہاں پر ایسی مبینہ سرگرمیاں ہوتی ہیں جو ایک شریف آدمی کے لئے قابل قبول نہیں ہیں ۔اس لئے انہوں نے نجی رہائش کو ہی ترجیح دی ہوئی ہے۔جمشید دستی نے معزز ارکان کے ہاسٹل پر ایسا الزام لگایا تو بہت سے پارلیمنٹیرین نے آف دی ریکارڈ جبکہ نبیل گبول جیسے ارکان نے تو جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان الزامات کی تصدیق کی۔دستی کے الزامات پر ایک رکن اسمبلی کی بوکھلاہٹ سمجھ سے بالا تر لگی۔ بجائے اس کے کہ وہ اہم حکومتی عہدیدار ہونے کے ناتے شفاف تحقیقات اور مستقبل میں ایسی سرگرمیوں کو روکنے کے لئے موثر اقدامات کا یقین دلاتے،وہ دستی پر ہی چڑھ دوڑے اور ان پر پٹرول و بجلی چورے جیسے بے ڈھنگے الزامات بھی لگا دئیے۔ حالانکہ ایوان کے غریب ترین رکن قومی اسمبلی جمشید دستی بھلا کتنی بجلی اور پٹرول چوری کرسکتے ہیں ۔تو بھلا سنئے۔مظفر گڑھ کے کچے سے آبائی گھر کے مکین جمشید دستی کا ماہانہ بجلی کا بل 1000روپے سے بھی کم ہوگا تو کیا وہ اس گھر کے لئے بجلی چوری کرتے ہوں گے؟مظفر گڑھ کے غریب عوام کے لئے مفت بس سروس کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔جو شخص عوامی خدمت کے طور حلقے کے لوگوں کی سہولت کے لئے مخیر حضرات کی مدد سے مفت بسیں چلاتا ہے۔ اس کے بارے میں کیسے یہ کہا جاسکتا ہے وہ کیا پٹرول چوری کرتا ہوگا لیکن اگر ٹھوس شواہد ہیں تو ان الزامات پر بھی تحقیقات ہونی چاہئے۔
مگر جمشید دستی کے الزامات کے بعد میں یہ سوچنے پر مجبور ہوں کہ وہ تبدیلی جس کی عوام 2013ء عام انتخابات سے قبل لگائے بیٹھے تھے ،وہ کیوں نہیں آئی۔ شاید اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ جن نمائندوں کے کندھوں پر ہم نے بہتری لانے کی ذمہ داری ڈالی ہے ان کی بڑی تعداد ٹیکس نادہندہ ہے۔ دی نیوز کے تحقیقاتی رپورٹر عمر چیمہ اس حوالے سے تفصیلی خبر دے چکے ہیں اور اب جمشید دستی کا حالیہ انکشاف۔
پولیس کے ایک سینئر افسر کا خود کہنا ہے کہ پارلیمنٹ لاجز کے اندر کے سی سی ٹی وی کیمروں کا ریکارڈ ہی دستیاب نہیں ہے۔ شاید دستی کی شکایت سے پہلے ہی تمام ممکنہ ثبوت مٹائے جاچکے ہوں گے اور ارکان اسمبلی کی بڑی تعداد چاہتے ہوئے بھی سچ بولنے سے گریزاں ہے۔
وزیر اعظم پاکستان میاں نواز شریف خود ایک باکردار شخصیت کے مالک ہیں انہیں بذات خود بھی اس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہئے۔ ہمارے وزیر داخلہ نے تو اس معاملے پر یہ روایتی سا بیان دے کر معاملے کو رفت گزشت کرنے کی کوشش کی ہے کہ لاجز کے باہر9 1کیمرے لگے ہوئے ہیں ،کسی میں کچھ نہیں نظر آیا جبکہ دستی نے جو کہا ہے پارلیمنٹ لاجز کے اندر کا کہا ہے باہر کا نہیں۔اگر ریکارڈ لانا ہے تو تمام راہداریوں اور کمروں کے باہر لگے کیمروں کا لائیں تاکہ عوام اصل حقیقت جان سکیں۔
مگر لگتا ہے کہ جمشید دستی اپنے ثبوتوں کی روشنی میں یونہی چلاتے رہیں گے اور بالآخر سابق وزیراعلیٰ دہلی اروند کیجر وال کی طرح خاموش ہوکر سائیڈ پر ہوجائیں گے کیونکہ ہمسایہ ملک کی طرح اس ملک کی اشرافیہ کے ہاتھ بھی بہت لمبے ہیں۔ جمشید دستی تو ایوان سے باہر جاسکتے ہیں مگر وہ اشرافیہ نہیں۔
اگر اس الزام کی شفاف تحقیقات ہوئی تو ڈر ہے کہ ارکان کی بڑی تعداد آئین کی شق 62اور63کے نرغے میں آجائے گی اور بہت سوں پر نااہلی کی تلوار بھی گرسکتی ہے۔ اس لئے یہ معاملہ اگلے چند دنوں میں ہی دب جائے گااور جمشید دستی ایک اور سچ سینے میں دبا کر ہاتھ ملتے رہ جائیں گے مگر یہاں پر ماؤزے تنگ کی ایک بات یاد آرہی ہے جو انہوں نے اپنی چینی قیادت سے کہی تھی’’آپ کا کردار بہتے سمندر میں خون کے قطرے کی مانند واضح اور شفاف ہونا چاہئے بیشک ایک پتلی لکیر ہی کیوں نہ ہو‘‘۔