جمعۃ المبارک... سید الایام

April 05, 2024

پروفیسر خالد اقبال جیلانی

اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہمیں چند ایسے ماہ و ایام عطا فرمائے ہیں کہ جن کے آتے ہی ہمارے روز و شب کا رنگ بدل جاتا ہے اور ہماری زندگیوں میں چاہے وقتی ہی سہی ایک ایسی تبدیلی رونما ہو جاتی ہے کہ جس کے زیرِ اثر کمزور سے کمزور ایمان اور بدتر سے بدتر کردار کے مسلمان کی زندگی میں بھی اسلامی احکام و تعلیمات کا کوئی نہ کوئی جز و، حصہ ، اصول یا طریقہ عمل کا روپ دھار لیتا ہے۔ ایسا ہی ایک رحمت و برکت والا مہینہ رمضان شریف اور دن جمعۃ المبارک بھی ہے۔

جمعہ کے معنی ہیں جمع ہونے کا دن ،اسلام سے پہلے قریش کے ہاں مکہ کے سردار ،روساء اور اکابرین ہفتہ میں ایک دن مکہ کی مرکزی سرکاری عمارت "دارالندوہ"میں جمع ہوتے تھے۔ "دارالندوہ "مکہ کی گویا مشاورت گاہ یا پارلیمنٹ ہاوس کا درجہ رکھتی تھی۔ جس میں یہ لوگ اس روز اہم قومی امور پر مشاورت کرتے۔ زمانۂ جاہلیت میں ہفتہ کے اس دن کو اہل عرب "یومِ عروبہ"کہا کرتے تھے یعنی جمع ہونے کا دن بعد میں مشہور عرب سردار کعب بن لؤیّ نے عروبہ کا نام تبدیل کرکے "جمعہ"کر دیا۔(تاج العروس)

ایک دوسری روایت کے مطابق اسلام میں جب اس دن کو مسلمانوں کے اجتماع اور عبادت کا دن قرار دیا گیا تو اس کا نام جمعہ رکھا گیا اور یوں جمعہ شعارِ اسلام قرار پایا اور ایک خالص اسلامی اصطلاح کی حیثیت سے معروف ہوا، جس کا پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ یہود یوں کے ہاں سنیچر کا دن (یوم السبت) عبادت کے لئے مخصوص تھا، کیوں کہ اسی دن اللہ نے بنی اسرائیل کو فرعون کی غلامی سے نجات بخشی تھی، عیسائیوں نے اپنے آپ کو یہودیوں سے ممیز کرنے کے لئے اتوار کا دن ازخود مقرر کر لیا ۔ حالانکہ اس کا حکم نہ تو حضرت عیسی ؑ نے دیا اور نہ ہی انجیل میں کہیں اس کا ذکر ہے۔

جمعہ کا دن اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام دنوں میں افضل اور ممتاز ہے ،اسی لئے اسے تمام دنوں کاسردار بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی سب سے اہم ،امتیازی فضیلت و اہمیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے مسلمانوں کی سب سے بڑی اجتماعی عبادت کا دن قرار دیا اور مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ اس دن کسی مرکزی مقام پر جمع ہو کر ایک عظیم جماعت بنا کر نماز ادا کریں۔ قرآن کریم میں ایک مکمل سورت ’’سورۂ جمعہ ‘‘کے نام سے موسوم کی گئی اور اسی سورت میں جمعہ کی فرصیت کا حکم آیا ۔"مومنو ! جب جمعہ کے دن جمعہ کے لئے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کے لئے دوڑ جایا کرواور خرید و فروخت کو چھوڑ دو، یہ تمہارے حق میں بہتر ہے اگر تم سمجھ سے کام لو "۔(سورۃ الجمعۃ:۹)

ذکر اللہ سے مراد خطبہ اور نماز ہے اور ذکر اللہ کے لئے دوڑنے سے مراد اہتمام اور توجہ کے ساتھ جلد از جلد پہنچنے کی کوشش کے ہیں اور اس غیر معمولی تاکید کی حکمت یہ ہے کہ دیگر عام نمازیں تو جماعت کے بغیر بھی پڑھی جاسکتی ہیں، وقت نکل جانے کے بعد قضا بھی پڑھی جا سکتی ہیں، لیکن نمازِ جمعہ نہ تو بغیر جماعت پڑھی جا سکتی ہے اور نہ ہی وقت نکل جانے کے بعد اس کی قضا ہو سکتی ہے، اس لئے اذان سننے کے بعد یہ ہر گز بھی جائز نہیں ہے کہ کوئی مومن خرید و فروخت میں لگا رہے یا کسی اورمشغولیت کی طرف توجہ دے۔

حقیقت یہ ہے کہ ان چند لمحوں میں اللہ کے حضور قیام ،رکوع اور سجدہ ریزی اور اللہ کے ذکر میں مشغول رہنے کا لازوال فائدہ دنیاوی مصروفیات اور کاروبار کے مختصر اور ناپائیدار فائدے سے کہیں زیادہ ہے، بشر طیکہ آدمی علم و شعور سے کام لے ۔ اسی لئے نبی کریم ﷺ نے جمعہ کے دن کو مسلمانوں کی عید قرار دیا ۔ متعدد احادیث میں اس دن کی اہمیت اور فضیلت کو بیان کیا گیا ہے۔ ایک بار جمعہ کا خطبہ دیتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا "مسلمانو! یہ وہ دن ہے جسے اللہ نے تمہارے لئے عید کا دن بنایا ہے ۔ لہٰذا تم اس دن غسل ضرور کرو اور جسے خوشبو میسر ہو تو کیا حرج ہے، اسے استعمال کرے اور دیکھو مسواک ضرور کیا کرو۔ (ابنِ ماجہ)

ایک حدیث میں آپ ﷺ نے فرمایا"جمعہ کادن سارے دنوں میں افضل اور ممتاز ہے۔ اللہ کے نزدیک اس دن کا مرتبہ تمام دنوں سے زیادہ ہے یہاں تک کہ اس کا مرتبہ عید الاضحٰی اور عید الفطر سے بھی زیادہ ہے ، اس دن میں پانچ ایسی خوبیاں ہیں جو اور دنوں میں نہیں "۔(ابنِ ماجہ)حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس شخص نے غسل کیا اور جمعہ کی نماز کے لئے آیا مقدور بھر نماز ادا کی اور خطبہ سے فارغ ہونے کے بعد خاموش رہا، پھر امام کے ساتھ نماز ادا کی ، اس کی اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، بلکہ مزید (آئندہ) تین دن کے گناہ معاف ہو جاتے ہیں۔ (صحیح مسلم)

اس روایت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ جس طرح کسی گھڑی کا صحیح وقت بتانا اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ اس کے سارے پرزے درست ہیں اور اس میں خرابی نہیں ، ٹھیک اسی طرح کسی مومن بندے کا نیک عمل اس کے دین و ایمان کی صحت ودرستی کی علامت ہوا کرتا ہے۔ شرط یہ کہ وہ عمل صحیح معنوں میں اپنے ظاہر و باطن کے لحاظ سے نیک ہو۔

کسی عمل کے زیرِ اثر آدمی کی پوری شخصیت آتی ہے۔ عمل آدمی کی پوری شخصیت کا ترجمان اور آئینہ دار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ ایک بڑے سے بڑا گناہ گار بھی اگر سچے دل سے اپنے رب کی جانب رجوع کرے تو وہ ایک لمحہ میں دوزخ کے دروازے سے جنت کے دروازے پر آکر کھڑا ہوجاتا ہے، پلک جھپکتے میں کچھ سے کچھ ہو جاتا ہے۔

نماز جمعہ کے اجتماع میں حاضری ایک بڑا عمل ہے جو دینی احساس و شعور اور شعار ِ امت کی علامت ہے ۔ صدق دل کے ساتھ جمعہ میں حاضر ہونا اسلامی زندگی کی صحت و درستگی کی نشاندہی بھی کرتا ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ آدمی اللہ کا سچا فرماں بردار بندہ ہے، اگر گزشتہ چھ دنوں میں اس سے خطائیں بھی سرزد ہوئی ہوں تو اب وہ خطائیں اس کے ساتھ لپٹی ہوئی نہیں ہیں پچھلے جمعہ میں حاضری کے وقت اس کی جو حالت تھی، آج وہ اس سے بہتر حالت میں ہے۔

اگر بلا کسی عذر کے جمعہ میں حاضر نہ ہوتا تو یہ اس بات کا ثبوت ہوتا کہ یہ شخص اس سے بالکل مختلف ہے جو گزشتہ جمعہ کو تھا جمعہ درحقیقت پورے ہفتے کے حساب کا دن ہوتا ہے جو شخص جمعہ میں حاضر ہی نہیں ہوتا، وہ اپنا حساب اپنی گردن پر لئے ہوتا ہے، وہ ایک بھاری بوجھ کے نیچے دبا ہوا ہوتا ہے، لیکن اسے اس کی خبرہی نہیں ہوتی کہ اس کی اندرونی کیفیات تبدیل ہورہی ہے۔ابو دائود ترمذی، نسائی ، ابن ماجہ، وغیرہ کی درج ذیل روایات کا مفہوم یہی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا "جو شخص تین جمعہ سُستی کی وجہ سے چھوڑ دے ،اللہ اس کے دل پر مہر لگا دے گا ، جو تین جمعہ بلا عذر چھوڑے وہ منافق ہے ، جو تین جمعہ پے در پے چھوڑ دے ،وہ منافقوں میں لکھ دیا گیا، جو تین جمعہ پے در پے چھوڑدے، اس نے اسلام کی پیٹھ میں چھرا گھونپ دیا"۔

نماز جمعہ کی اہمیت کا اندازہ اس فرمانِ نبویؐ سے بخوبی ہوجاتا ہے کہ "میرا جی چاہتا ہے کہ اپنی جگہ کسی کو نماز پڑھانے کے لئے کھڑا کر جاؤں اور خود جاکر ان لوگوں کے گھروں کو آگ لگا دوں جو جمعہ کی نماز میں آنے کے بجائے گھروں میں بیٹھے رہتے ہیں‘‘۔(مسلم و بخاری)

جمعہ سے مقصود دراصل مسلمانوں کا اجتماع ہے، تا کہ تمام امت کے لوگ اس دن اپنے اپنے علاقوں میں کسی مرکزی مقام پر جمع ہو کر ایک دوسرے کے حالات سے آگاہی حاصل کریں۔ اگر امت کو کوئی اہم مسئلہ درپیش ہے تو اس پرمشاورت کریں اور خطبۂ جمعہ میں اس کا حل پیش کرنے کے ساتھ ساتھ آئندہ ہفتے کی انفرادی و اجتماعی زندگی کے لئے احکاماتِ خدا وندی بھی دے دیئے جائیں، نیز نماز جمعہ کے اجتماعات میں اللہ کے حضور جھکنا اور سجدہ ریز ہونا اس حقیقت کا مظاہرہ ہے کہ ہم اُس کے قوانین و احکام کی اطاعت کے لئے جمع ہوئے ہیں اور اسی مقصد کے لئے ہماری زندگی ہماری عبادات اور ہمارا مال وقف ہے۔