غیر مسلم مملکت میں تعلیم، رہائش، نوکری یا کسی اور غرض سے جانے کا حکم

April 19, 2024

آپ کے مسائل اور اُن کا حل

سوال:تعلیم، تجارت، کاروبار، نوکری، طلبِ رزق يا کسی بھی غرض سے غیر اسلامی ملک جانے کی کیا شرعی حیثیت ہے؟

جواب:صورتِ مسئولہ میں غیراسلامی مملکت میں جاکر رہائش اختیار کرنے کا حکم زمانہ کے حالات اور جانے والے کی غرض اور مقصد کے بدلنے سے بدلتا رہتا ہے،چناںچہ :۔

1- اگر کوئی شخص اپنے وطن میں معاشی مسائل سے دوچار ہوجائے اور تلاشِ بسیار کے بعد بھی اپنے اسلامی ملک میں معاشی وسائل دست یاب نہ ہوسکیں، تو ایسے حالات میں اگر اس شخص کو کسی غیرمسلم مملکت میں جائز ملازمت مل جائے، تو اس کے لیے وہاں جانا اور رہائش اختیار کرنا جائز ہے، بشرط یہ کہ اسے اس بات کا اطمینان ہو کہ وہ وہاں جاکر عملاً دینی احکام کا پابند رہے گا، اور غیرمسلم مملکت کے مروجہ منکرات اور فواحش سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے گا۔

2- اس کے برخلاف اگر کسی شخص کو اپنے ملک اور شہر میں اس قدر معاشی وسائل اور کاروبار یا نوکری میسر ہے جن سے وہ بآسانی اپنے شہر کے معیار کے مطابق زندگی گزارنے پر قادر ہے، اس کے باوجود صرف معیارِ زندگی بلند کرنے اور عیش وعشرت کی زندگی گزارنے کے لیے وہ کسی غیراسلامی ملک جاتا ہے، تو بلا ضرورت وہاں جانا کراہت سے خالی نہیں ہے، بلکہ یہ عمل غیراسلامی مملکت میں رائج شدہ فواحش ومنکرات میں اپنے آپ کو دھکیلنے کے مترادف ہے، اور بلاوجہ اپنی اسلامی اور اخلاقی حالت کو خطرے میں ڈالنا ہے، جو کسی بھی طرح درست نہیں ہے۔

3- اگر کوئی شخص اس نیت سے غیراسلامی سلطنت جائے کہ وہاں کے غیرمسلموں کو اسلام کی دعوت دےگا، یا جو مسلمان ادھر مقیم ہیں انہیں دین کے صحیح رخ سے آگاہ کرے گا، تو ایسے شخص کے لیے وہاں جانا جائز ہے، بشرط یہ کہ اسے اپنے نفس پر اطمینان حاصل ہو۔

4- ایک قسم ان لوگوں کی بھی ہے جو صرف دار الحرب کو دار الاسلام پر ترجیح دیتے ہوئے کسی غیرمسلم مملکت میں رہائش کو پسند کرتےہیں، اور بسا اوقات صرف دوسرے مسلمانوں پر اپنی بڑائی کا اظہار مقصد ہوتا ہے، یا پھر اپنے معاش ومعیشت اور ظاہری وضع، قطع میں کفار کی مشابہت اختیار کرنے یا ان جیسا بننے کےلیے وہاں جاتے اور رہائش اختیار کرتے ہیں، ان تمام مقاصد کے لیے وہاں جانا قطعاً جائز نہیں ہے۔

5- علاج کے لیے غیراسلامی مملکت جانے کا حکم یہ ہےکہ اگر اپنے وطن میں علاج ممکن نہ ہوپائے، تو ضرورتاً اس وجہ سےکسی غیرمسلم مملکت جانا بلاشبہ جائز ہے۔

6- تعلیم کے لیے جانے کا حکم یہ ہے کہ اگر دینی یا دنیاوی تعلیمی ضروریات اپنے ملک میں پوری ہوسکتی ہوں، تو صرف وہاں کی ڈگری حاصل کرکے اپنا معیارِ زندگی اور اپنی حیثیت بلند کرنے کے لیے کسی غیراسلامی ملک اور وہاں کے فحش وعریاں ماحول میں جانا اپنے ایمان و اخلاق کے لیے باعث خطرہ ہونے کی وجہ سے درست نہیں ہے، نیز غیرمسلم مملکت جانا اگر انہی مقاصد کے لیے ہو،جو نمبر 4 میں مذکور ہیں، تب تو وہاں جانا اور رہائش اختیار کرنا بالکل ہی درست نہیں ہے۔

تاہم اگر مطلوبہ تعلیمی ضروریات اپنے وطن میں پوری نہ ہوسکتی ہوں، تو ان کے حصول کے لیے غیرمسلم مملکت جانے کی گنجائش ہے، بشرط یہ کہ اسے اس بات کا اطمینان ہو کہ وہ وہاں پر بذاتِ خود اپنے دین پر کاربند رہ سکے گا، اور وہاں کے منکرات وفواحش سے اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکےگا۔(تفصیل کے لیے فتاویٰ بیّنات جلد سوم، صفحہ: ٣٧١پر موجود ایک فتویٰ بعنوان: ’’مغربی ممالک کی شہریت لینے کا حکم‘‘ ملاحظہ کیجیے۔ )