سندھ میں ڈاکو راج

March 06, 2014

اگر باقی ماندہ ملک بشمول کراچی پر مذہبی اور لسانی دہشت گردوں کا قبضہ ہے تو نام نہاد اندرون سندھ حکومت نام کی چیز کی جگہ ڈاکو راج ہے۔
تصور کریں کہ جس صوبے میں وزیر اعلیٰ کے اپنے ضلع خیرپور میرس سے اٹھارہ شہری برائے تاوان اغوا ہوکر ڈاکوئوں کے گروہوں کے پاس یرغمال ہوں اور صرف ان کے سیاسی دارالحکومت اور اس سے قبل لاڑکانہ ڈویژن کے وارہ شہر سے چار معصوم بچے بھی برائے تاوان اغوا ہو کر ڈاکوئوں کے چنگل میں ہوں تو پھر صوبے پر کس کا راج کہلائے گا؟ صرف چار بچے سندھ کے ایک شہر سے اغوا ہوگئے ہیں جبکہ سانگھڑ کے چھوٹے سے شہر کھڈڑو سے معزز شہری اور مکانی حکومت کے سابق عہدیدار اور فنکشنل مسلم لیگ کے اہم مقامی رہنما جام مٹھا خان جونیجو کا پوتا احسن جونیجو کئی ماہ سے اغوا کے بعد ڈاکوئوں کے قبضے میں ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ خیرپور میرس اور سندھ پر آج بھی محرم جانوری دھاڑیل (ڈاکو) کی دہشت کا راج ہے یعنی وہی بات کے سندھ میں شب و روز ملنگی کا راج ہے۔
یہ صورت حال صرف ایک ضلع تک محدود نہیں۔ سندھ کے نقشے پر لاڑکانہ ہو یا قنبر، وارہ ہو یا شہدادکوٹ یا گھوٹکی ضلع ہو یا کندھ کوٹ کشمور اور جیکب آباد اضلاع ہوں یا سابق صدر آصف علی زرداری کا آبائی ضلع بے نظیر آباد یا سابق نوابشاہ، سکھر، روہڑی، پنوعاقل، صالح پٹ، سانگھڑ، میرپورخاص، حیدرآباد شہر اور اس کے موجودہ یا سابق اضلاع ہر جگہ ڈاکو راج قائم ہے ۔
ابھی دو چار روز قبل لاڑکانہ کے وگن کے نزدیک ایک غیر سرکاری تنظیم کے نوجوان سرگرم کارکن جمیل جونیجو کو اغوا کیا گیا تھا اور اس سے قبل اسی لاڑکانہ سے ایک سوشل ویلفیئر افسر اور سماجیات کے ماہر ڈاکٹر امیر ابڑو ایک ماہ سے زائد عرصہ ڈاکوئوں کے پاس یرغمال رہ کر گھر لوٹے ہیں، ڈاکٹر ابڑو نے ایک سندھی اخبار میں اپنی اس آپ بیتی میں لکھا ہے کہ انہیں اغوا کرنے والے ڈاکوئوں کے رابطے بااثر اور با اختیار حلقوں تک لگتے تھے۔
سندھی اخبارات چاہے ملکی میڈیا میں ڈاکوئوں اور خطرناک ترین سابق ڈاکوئوں کے انٹرویو شایئ و نشر ہو رہے ہیں۔ حال ہی میں ایک سندھی اخبار میں خطرناک ترین ڈاکو نذرو ناریجو کا انٹرویو تصویر کے ساتھ بڑے طمطراق سے شائع ہوا ہے جس میں اس نے دعویٰ کیا ہے کہ اس کے تعلقات انتہائی بااثر شخصیات سے ہیں جن میں سینئر پولیس افسر اور سیاستدان بھی شامل ہیں اور وہ اس کی دعوتوں میں شریک ہوتے ہیں اور تحفے تحائف کا تبادلہ بھی ہوتا رہتا ہے۔ سندھ میں جرم و سیاست کی دنیا کو قریب سے دیکھنے اور سمجھنے والوں کا سندھ کے اس خطرناک ڈاکو کی بات پر اعتبار کرنے کی کئی وجوہات ہیں۔
سندھ میں ڈاکوئوں کو ہیرو اور بھلے مانس بنا کر پیش کرنے کے نتائج سندھ اب تک بھگت رہا ہے۔ ایک وقت وہ بھی آیا جب سندھ یونیورسٹی کے ہوسٹلوں میں کشمیر خان عرف صدرو شيخ، مٹھو قصائی جیسے سندھ کے بدنام ڈاکو رہائش پذیر تھے۔ سندھ کے کن انقلابیوں نے سمجھا کہ وہ ڈاکوئوں کو انقلابی بنائیں گے لیکن ایسے انقلابی خود ڈاکو بن گئے۔ ایسا ایک انقلابی ڈاکو اب لاڑکانہ پاکستان پیپلز پارٹی میں بھی شامل ہے۔
انیس سو نوّے کے سالوں میں اس وقت کے سینیٹر مخدوم خلق الزمان نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے خود پولیس والوں کو ڈاکوئوں کو کھانے کی دعوت پر ان کے ہاتھ دھلاتے دیکھا تھا۔ ٹنڈو اللہ یار جو اس وقت ڈاکوئوں کی محفوظ جنت بنا ہوا تھا جہاں اب آصف علی زرداری کے زمینیں اور شاید شوگر مل بھی ہے۔ اب بھی ڈاکوئوں کے حوالے سے سندھ کی صورتحال انیس سو نوّے سے بہت زیادہ مختلف نہیں۔ اگر سندھ کے ڈاکو انیس سو نوّے سے بہت مختلف ہیں تو ہتھیاروں کے حوالے سے وہ اب زیادہ خطرناک اور مہنگے ترین ہتھیاروں سے لیس ہیں۔ آر پی جی ، مارٹر، راکٹ لانچر، جی تھری جیسے فوجی نوعیت کے ہتھیار اب ڈاکوئوں کے ٹولوں کو کاندھوں پر اٹھائے اور ان کے استعمال کی تکنیک بتاتے میڈیا پر دکھایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان کو یہ ہتھیار کون سپلائی کرتا ہے؟ یہاں مکمل ٹرائبل وارز یا قبآئلی جنگیں بھی ہیں تو اس کا ایندھن بننے والے بچہ سپاہی بھی ہیں جو عالمی برداری کی تشویش اور توجہ کا مرکز بن سکتے ہیں کہ یہ سب عالمی قوانین کے خلاف ورزیوں میں آتا ہے۔
اگر لاڑکانہ ،جیکب آباد، کوٹری، جامشورو، قنبر، شہدادکوٹ، گڑھی یٰسین، شکارپور، گھوٹکی، خیرپور اضلاع کے لٹھ سردار، جاگيردار، پیر وڈیرے (ان میں سے کئی منتخب اسمبلیوں میں اونگھتے رہتے ہیں) اور پھر خودرو وڈیرے اور سردار جو قبائلی خونریزیوں میں کھمبیوں کی طرح ابھر کر آئے ہیں جو اگر چاہیں اور ریاستی دبائو میں آئیں تو ایک دن میں سندھ میں اغوا شدہ مغوی واپس آسکتے ہیں لیکن ان کی سیاست اور دبدبہ تو انہیں ڈاکوئوں اور جرائم پیشہ گروہوں کے صدقے چلتا ہے۔ انیس سو نوّے میں اگر بہتّر بڑی مچھلیاں تھیں تو اب بہتّر سو بڑی مچھلیاں ہیں۔ پتھاریدار وڈیروں اور سرداروں نے اپنے اپنے آضلاع اور ڈویژنوں میں اپنی پسند کے ایس ایس پی اور ڈی آئی جی لگائے ہوئے ہیں ایک آدھ کو چھوڑ کر۔ جو پولیس افسر ان پتھاریدار سیاسی وڈیروں سے بنا کر نہیں رکھتے وہ کھڈے لائن لگے ہوئے ہیں۔ اب تو حد یہ ہے کہ ان سرداروں اور وڈیروں کی رسائی چھائونیوں تک ہے۔ ماضی قریب میں جنرل شکار کو آتے تھے اور علاقوں کے لوگ خطرناک ڈاکو ان کیلئے تیتر اڑاتے دکھائی دیتے تھے۔
ضیاء الحق کے دنوں سے ہی سندھ کے دیہی علاقوں میں ڈاکو اور شہروں میں لسانی دہشت گرد پیدا کئے گئے۔ یہ ایک علیحدہ تاریخ ہے۔ لسانی دہشت گرد بھی پتھاریداروں اور وڈیروں کے ساتھ حکومت میں ساجھے داری کرتے خود اب شہری وڈیرے بن گئے۔ وہی ان کی چال، ڈھال، ٹہکہ، وہی لینڈ کروزر اور وہی پراڈو۔
شمالی سندھ کے سرکاری ریسٹ ہائوسوں میں باوجود سپریم کورٹ کی طرف سے پابندی کے متواتر جرگے جاری ہیں۔ جن میں پولیس اور انتظامیہ کے اعلیٰ افسر بھی شریک ہوتے ہیں۔ متحارب قبیلے جن کے خطرناک اور جرائم پیشہ افراد نے درجنوں قتل کئے ہوتے ہیں مونچھیں مروڑتے ہوئے شریک ہوتے ہیں۔ متوازی عدالتی نظام جرگہ کے تحت فیصلے کئے جاتے ہیں۔ قتل کے عوض قتل کر کے حساب چکتے کئے جاتے ہیں۔ لاکھوں کروڑوں روپوں کے جرمانے مقرر کئے جاتے ہیں۔ فیصلے کرنے والے وڈیروں اور سرداروں کی اوطاقوں کے خرچ کی بھاری رقوم الگ نکالی جاتی ہے۔ یہی سردار اور وڈیرے ہوتے ہیں جو برسہا برس معمولی بات کے نتیجے میں ہونے والی تکرار کو لامتناہی قتل و غارت گری کے سلسلوں تک پہنچا کر انہیں جاری رکھوانے اور اپنی پگڑ اونچی کرنے آتے ہیں۔ ایسا ہی ایک فیصلہ حال ہی میں گڑھی یٰسین میں ہوا۔ اگر سپریم کورٹ کبھی ازخود نوٹس لے بھی لے تو کہتے ہیں کہ ہم نے جرگہ نہیں فریقین کے درمیان صلح صفائی کرائی تھی۔ دو بھائیوں کے درمیان صلح صفائی کی اجازت تو اسلام اور شریعت بھی دیتے ہیں۔ سندھ کے سابق وزیر اعلیٰ کے دنوں میں ایک جرگہ سندھ کے چیف منسٹر ہائوس میں ہوا تھا جبکہ ایک جرگہ سابق وزیر اعظم اور قبائلی سردارجمالی کی سربراہی میں ان کے گائوں جعفرآباد میں ہوا تھا۔
سندھ میں ڈاکوئوں کی سرگرمیوں اور اغوا کی وارداتوں کی وجہ سے سندھی ہندو خاندان غیر اعلانیہ اور مستقل نقل مکانی کی حالت میں ہیں۔ ان کے شیر خوار بچوں تک کو اغوا کیا گیا ہے۔ ہندو، میمن، شيخ، غیرقبائلی شہری، پیشہ ور ڈاکٹر ، انجینئر متوسط طبقے کے لوگ اور اب تو کسان اور مزدور بھی ڈاکوئوں کا آسان اور مرغوب شکار ہوتے ہیں کیونکہ ان سے نہ قبائلی دشمنیوں کا ڈر نہ کسی آپریشن کا خوف غير سندھی کو اغوا کرنے سے کتراتے ہیں کہ کہیں وہ کسی فوجی یا ایم کیو ایم والوں کا رشتہ دار نہ نکل آئے۔
سندھ میں ایسے کئی وڈیرے ہیں جن کے گائوں کے لوگوں پر لازم ہے کہ وہ ان کے گھر کسی بھی مہمان کے آنے پر اس کی اطلاع اور اجازت وڈیرے سے لیں۔ اسی طرح سندھ کے وزیر اعلیٰ سید قائم علی شاہ نے بھی کچھ ایسا ہی حکم اب سندھ کے لوگوں کیلئے جاری کیا ہے کہ وہ اپنے گھر کسی بھی مہمان آنے کی صورت میں اس کا اندارج متعلقہ تھانے پر کرائیں۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سمجھتے ہیں کہ اسی طرح وہ صوبے میں دہشت گردی اور ڈاکوئوں کی سرکوبی کر سکتے ہیں ۔ نتیجے میں اب سندھ کے لوگ مہمان کی مدارات کے ساتھ تھانے والوں کی خاطر و مدارت میں مصروف ہوں گے کہ رینجرز کا تو ویسے ہی باورچی خانہ دہائیوں سے سندھ کے خرچ پر ہے لیکن امن وامان صفر۔