خاکے اور خانے

March 07, 2014

پاکستان کے ساتھ کیا ہو گا ؟ یہ ایک ایسا سوال ہے ، جو ہر پاکستانی کے ذہن میں ہے ۔ پاکستان کے ساتھ جو کچھ ہونا ہے ، وہ ہو رہا ہے اور یہ اسی طرح ہوتا رہے گا ۔ طالبان سے مذاکرات بھی ہوتے رہیں گے ۔ انتہا پسند گروہوں کے خلاف آپریشنز بھی جاری رہیں گے اور دہشت گردی کی کارروائیاں بھی ہوتی رہیں گی کیونکہ اگر طالبان سے مذاکرات ہوں تو اس کی تقریباً تمام سیاسی جماعتیں حمایت کرتی ہیں ۔طالبان کے خلاف اگر آپریشن شروع ہوجائے تو بھی اس کی کوئی کھل کر مخالفت نہیں کرتا ۔دہشت گردی کی کارروائیاں ہوں تو انہیں ملک دشمن قوتوں کے کھاتے میں ڈالنے کے لیے سب یک آواز ہوجاتے ہیں ۔طالبان کمیٹی کے سربراہ مولانا سمیع الحق کہتے ہیں کہ جب تک ’’مقتدر قوتیں‘‘ مذاکرات میں شامل نہیں ہوں گی ،تب تک مذاکرات کامیاب نہیں ہوسکتے۔پاکستان کی مقتدر قوتوں کے لیے اس سے زیادہ آئیڈیل صورت حال اور کیا ہوسکتی ہے؟ جو کچھ پاکستان میں ہورہا ہے ، اس کا خاکہ بہت پہلے تیار کرلیا گیاہوگا ۔ آئندہ بھی جو کچھ ہونے والا ہے ، یقیناً اس کا بھی خاکہ تیار ہو گا ۔ لوگ بلا وجہ پریشان ہیں ۔ حالات ان قوتوں کے قابو میں ہیں ، جن کے بارے میں ہمارا تصور یہ ہے کہ انہیں حالات پر قابو پانا چاہئے ۔ پاکستانی معاشرے کے حقیقی تضادات پر مصنوعی تضادات کی دبیز تہہ چڑھی ہوئی ہے ۔ مقتدر قوتوں کو وہ سیاسی مشکلات درپیش نہیں ہیں ، جن کا انہیں ساٹھ ، ستر اور اسّی کی دہائیوں میں سامنا تھا ۔ اب وہ اپنی مرضی سے پاکستان کے حالات کو جو چاہے ، رخ دے سکتی ہیں اور اپنے بنائے ہوئے خاکوں کے مطابق پاکستان کو ڈھال سکتی ہیں ۔ عوام کی مرضی کا کوئی دخل نہیں رہا اور نہ ہی عوام کی مرضی کے اظہار کے لیے کوئی بڑی سیاسی تحریک موجود ہے ۔ اس صورت حال میں لوگوں کا کردار یہ ہے کہ وہ صرف اندازے لگاتے رہیں کہ آگے کیا ہونے والا ہے ۔ خاکوں کے ساتھ ساتھ خانے بھی بنے ہوئے ہیں ، جن میں مختلف سیاسی جماعتوں یا افراد کو رکھا جاتا ہے ۔ یہ فیصلہ کہیں اور ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو کب کس خانے میں رکھا جائے اور اسے کیا کردار دیا جائے ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو کس وقت اور کہاں حکومت دی جائے ۔ ایم کیو ایم کو کب اقتدار میں شامل کیا جائے اور کب اسے حکومت سے الگ رکھا جائے ۔ اسی طرح عوامی نیشنل پارٹی ، تحریک انصاف ، جمعیت علمائے اسلام ، جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی ، مذہبی و قوم پرست جماعتوں سے دانستگی یا نادانستگی میں کیا کردار ادا کرایا جائے ۔ صورت حال میں لوگوں کے لیے دلچسپی کا بس یہی ایک پہلو ہے جس طرح گذشتہ پچیس سال سے کراچی میں امن قائم کرنے کی ’’ کوششیں ‘‘ ہو رہی ہیں ، اسی طرح باقی ملک میں بھی امن قائم کرنے کی کوششیں جاری رہیں گی ۔ کراچی میں امن قائم کرنے کی کوششوں کے دوران مقتدر قوتوں کو سیاست میں مداخلت کے کئی مواقع ملے،اسی طرح اب پورے ملک میں امن کے قیام کے لیے مداخلت کے مواقع کی کوئی کمی نہیں رہے گی ۔اس میں قصور مقتدر قوتوں کا نہیں ہے ۔سیاسی قوتیں اپنا کردار کھوچکی ہیں ۔اس وقت کوئی بھی سیاسی جماعت اپنا حقیقی کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اور نہ ہی کوئی سیاسی جماعت گہرے پانیوں میں اترنا چاہتی ہے ۔ پاکستان کی ’’مقتدر قوتوں‘‘ کے لیے اس سے زیادہ اچھے حالات اور کیا ہو سکتے ہیں ۔ ہمارے سیاست دان جو کردار ادا کر رہے ہیں ، اس پر انہیں روم کے مشہور حکمرانوں آگسٹس اور نیرو کی طرح دیانت داری سے اعتراف کر لینا چاہئے کہ وہ محض فنکار ہیں ۔ روم کے عظیم ترین حکمران اور ریاست کار آگسٹس نے اپنے بستر کے قریب کھڑے ہوئے دوستوں سے جو الفاظ کہے تھے ، وہ آج رومن کامیڈی ڈراموں کا اختتامیہ بیان کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں ۔ آگسٹس نے کہا تھا کہ ’’ چونکہ میں نے اپنا کردار بخوبی ادا کیا ، اس لیے تالیاں بجاؤ اور مجھے واہ واہ کی گونج میں اسٹیج سے نیچے لاؤ ۔ ‘‘ اس نے اپنی بیوی کو گلے لگایا اور کہا ’’ لائیویا ! ہمارے طویل بندھن کو یاد رکھنا ، الوداع ‘‘ اور وہ دنیا سے رخصت ہوگیا ۔ نیرو بھی ایک عظیم حکمران تھا ، جس کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ روم جل رہا تھا اور وہ بانسری بجا رہا تھا حالانکہ وہ ایک عظیم فنکار بھی تھا ۔ بانسری بجانا اس کا مشغلہ تھا ۔ شاعری ، موسیقی اور ڈرامہ سے بھی اسے دلچسپی تھی لیکن اس کے بارے میں یہ روایت غلط ہے کہ اس نے روم کو جلانے کا حکم دیا تھا ۔ یہ اور بات ہے کہ وہ روم کی تعمیر نو کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ۔ اسے پتہ چلا تھا کہ اس کے عہد میں سکندریہ اور انطاکیہ دو ایسے شہر تھے ، جنہیں سائنسی بنیادوں پر ڈیزائن کیا گیا تھا اور ان کی دوبارہ تعمیر کی گئی تھی ۔ اسے یہ بات بری لگتی تھی کہ روم میں بے ہنگم طور پرمحلات اور کچی بستیاں ایک ساتھ ملے ہوئے ہیں ۔ اس نے روم کی تعمیر نو کرنے اور اس کا نام ’’نیروپولس‘‘ رکھنے کا خواب دیکھا تھا ۔ ہماری ’’مقتدرقوتیں‘‘ بھی پاکستان کو ایک نئی نظریاتی مملکت کے طور پر اس کی بے ہنگم تاریخ سے الگ کرکے اس کی تعمیر نو کرنا چاہتی ہیں ۔ روم جل گیا تو نیرو کو اس کی تعمیر نو کا موقع مل گیا لیکن وہ پھر بھی اپنا خواب پورا نہ کر سکا ۔ جب اس کے خلاف بغاوت ہوئی تو وہ بھاگ نکلا لیکن اسے سپاہیوں نے گھیر لیا ۔ نیرو نے ایک خنجر اپنے گلے میں پیوست کرنے کی کوشش کی ، مگر ہاتھ لرز گیا ۔ اس کے آزاد کردہ آدمیوں نے خنجر کے پھل کو آگے تک دھکیل دیا ۔ وہ انتہائی حسرت سے بولا ’’ میرے اندر کیسا عظیم فنکار مر گیا ۔ ‘‘ ( Qualis artifax pereo! ) لیکن پاکستان کے حالات کو دیکھا جائے تو لگتا ہے کہ آگسٹس اور نیرو مرے نہیں ہیں ، ان سے بھی بڑے کردار اور فنکار موجود ہیں ۔ جس بات پر پاکستان کے عام لوگ پریشان ہیں ، پاکستان کی ’’مقتدرقوتوں‘‘ کے نزدیک یہ پریشانی والی کوئی بات نہیں ہے ۔ لوگوں کو یہ پتہ ہی نہیں ہے کہ پاکستان کی داخلی اور خارجی سلامتی اور دفاع کے مسائل کیا ہیں ۔ پاکستان جن حالات سے گذر رہا ہے ، وہ حالات نئے پاکستان کی تعمیر کے لیے ضروری ہیں تاکہ اس نئے پاکستان میں لوگ اپنے پرانے تاریخی ، تہذیبی ، ثقافتی اور سیاسی رشتوں کا بوجھ اپنے کندھوں پر نہ اٹھائے پھریں ۔ اس کے لیے اگر روزانہ درجنوں لوگ مارے جاتے ہیں تو اس میں کیا حرج ہے ۔ اس کو تو ہماری سیاسی جماعتوں نے بھی کوئی مسئلہ نہیں بنایا ۔ جب حالات پہلے سے بنائے گئے خاکوں کے مطابق کوئی نیا رخ اختیار کریں گے تو لوگوں کو پتہ چل جائے گا کہ کیا ہوا ۔ بس تھوڑا سا انتظار کرنے کی ضرورت ہے ۔ ہمارے بڑے بڑے سیاسی رہنماؤں کو بھی پہلے سے نہیں پتہ کہ آئندہ انہیں یا ان کی جماعتوں کو کس خانے میں رکھا جائے گا ۔ وہ بھی تو بس انتظار ہی کر رہے ہیں ۔ بس انتظار ،انتظار…موت کا ایک وقت معین ہے۔ نیند کیوں رات بھر نہیں آتی ۔