امکان کی سرحد

May 07, 2024

آج میںآپ کو پرانے دور کی کہانی سنانے جا رہا ہوں،ویسے میرا ارادہ کہیںجانے کا نہیںہے، میںخیر سے یہیںرہوںگا اور آپ کو ایک پرانی کہانی سنائوںگا۔ کہنے کی خاطر میںنے کہہ دیا ہے کہ میںآپ کو کہانی سنانے جا رہا ہوں،آپ کو کہانی سنانے کیلئے مجھے کہیںجانے کی ضرورت نہیںہے۔ ایک دو چھوٹی موٹی وضاحتیںکردوںیہ کہانی اگلے وقتوںکی کہانی ہے،پرانی کہانی ہے مگر اتنی پرانی نہیںکہ کہانی پر آپ کو موہنجودڑو کے دور کی کہانی کا گمان ہونے لگے۔ یہ کہانی ہندوستان کے بٹوارے اور پاکستان بننے کے بعد کی کہانی ہے بھولے بسرے دور کی کہانی نہیں ہے۔ موٹر گاڑیاں، جہاز، ریل گاڑیاںاور انٹرنیٹ اور موبائل فون دیکھ کر مت سوچئے گا کہ یہ دور ترقی یافتہ دور ہے اور ہم بوڑھوںنے ناخواندہ،ناخبری، بے خبری اور لاعلمی کے دور میںزندگی کے ایام گزارے ہیں۔ ہمارے دور میںگراہم بیل نامی ایک شخص ٹیلیفون ایجاد کرنے میںلگا ہوا تھا، آپ کے ہاتھ میںجو موبائل فون ہے گراہم بیل جیسے لوگوںکی وجہ سے ہے۔ ورنہ آپ آج بھی کان پر ہاتھ رکھ کر چلا رہے ہوتے۔’’ اللہ رکھے تسی کھتے او بھراوو؟‘‘پرانے دور کے ہم لوگ بغیر کسی تذبذب، بغیر کسی جھجک کے ٹیکس دیتے تھے اور ٹیکس لیتے تھے۔ ٹیکس دینے اور ٹیکس لینے میںایک دوسرے کو چکر نہیںدیتے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ ملک قرضوںاور امدادوںسے نہیںچلتا۔ ملک چلتا ہے آپ کے اور میرے ٹیکسوںسے۔ اس بات کا علم ان لوگوں کوخود بھی ہو گیا تھا جن لوگوںکو ہم اپنا ووٹ دیکر اسمبلی کے ایوانوںمیںبٹھاتے تھے۔ وہ لوگ بولتے تھے مطلب کی بات کرتے تھے اور مطلب کی بات سنتے تھے۔ جن لوگوںکو اپنے ووٹکے بل بوتے سے ہم اسمبلیوںکا ممبر بناتےتھے ان لوگوں کے چاچوں، ماموں، نند، بھاوجوں، بیٹی، بیٹوںاور نواسوںکو ووٹ دیکر کبھی بھی اسمبلی کے ایوانوںکی شکل دیکھنے نہیںدیتے تھے ۔ہم نے اپنے دور میںکبھی بھی کنبوںکو اسمبلی ممبر ہوتے نہیںدیکھے۔ کنبے کھانے کی میز پر کھانا کھاتے ہوئے ملک کی تقدیر میںردوبدل نہیںکرتے تھے ۔یہ سب آپ کے جدید دور میںہوتاہے،ہمارے پس ماندہ دورمیں نہیںہوتا تھا ۔ہم پس ماندہ ہوتے تھے مگر احمق نہیںہوتے تھے ۔فقیروںکا آسان سا فلسفہ ہے جو کچھ آج آپ اپنے ترقی یافتہ دور میںدیکھ رہےہیں، جس کا حظ آج آپ اٹھا رہے ہیں۔اس کی ابتدا ہمارے پرانے دور میںہوئی تھی آج آپ جو چونسہ،انور رٹول اور سندھڑی آموںسے لطف اندوز ہو رہے ہیں،ان آموںکا بیج ہمارے پس ماندہ دور میںبویا گیا تھا۔ ایک اہم بات کی طرف اشارہ کررہا ہوںبلکہ اس ایک اہم بات کی وضاحت کرنا چاہتا ہوںکہ اس کارنامہ سے ہمارے ماضی کے پس ماندہ دور کا دور دور کا واسطہ نہیںہے۔ہم کسی ادارے یا دوست ممالک سے قرضہ نہیںلیتے تھے قرضے لینے کے بعد بغلیںنہیںبجاتے تھے ،بھنگڑا نہیںڈالتے تھے۔ قرضمل جانے کے بعد خود کو سربلند محسوس نہیںکرتے تھے ۔آپ جب دوست سے قرض لیتےہیں تب آپ دوست کے دوست نہیںرہتے ۔آپ اپنے دوست کے مقروض ہوجاتے ہیںہم مجہول یہ کام نہیںکرتے تھے ۔سچ بات یہ ہے کہ ہم خود کفیل ہوتے تھے ہم پرانے دور کے لوگ پھنے خان نہیںہوتے تھے ۔سندھ اور پنجاب جو کہ اب پاکستان کا اٹوٹ انگ ہیںاتنی گندم اور چاول پیدا کرتے تھے کہ ہم معاشی طور پر بدحال ممالک کو امداد میںچاول اور گندم دیتے تھے۔ ہم ماضی کےان پڑھ لوگ تصور تک نہیںکر سکتے تھے کہ ہم خود ایک روز دانے دانے کے محتاج ہو جائیںگے اور امداد میںدنیا سے گندم اور چاول کی بھیک مانگتے پھریںگے ایسا ہوتا تھا ہمارا پس ماندہ دور ۔میںاپنے پس ماندہ دور کا موازنہ آپ کے ترقی یافتہ دور سے کرنے کی جسارت نہیںکر سکتا اور نہ ہی میںنے اپنے پس ماندہ دور کا دفاع کیا ہے میںکہانی شروع کرنے سے پہلے صرف اتنی عرضکردینا ضروری سمجھتا ہوںکہ تب ہم نئے نئے عالم وجود میںآئے تھے وسائل محدود تھے ہمارے پاس ایٹم بم نہیںہوتا تھا پھر بھی ہم خوش تھے ۔خود کفیل تھے کچھ بھی امکان سے باہر دکھائی نہیںدیتا تھا بہت کچھ نہ ہونے کے باوجود ہمارے پاس وافر مقدار میںبہت کچھ تھا ۔ایسے ہی ایک حیرت انگیز دور میںاس کہانی نے جنم لیا تھا ایسی کہانیاںایسے دور میںجنم لیتی ہیںجب ہم امکان کی سرحدیںعبور کرنے کی سعی کرتے ہیں۔اب مسئلہ کچھ یوںہے کہ کہانی کچھ طویل ہے اور آپ کو کہانی سنانے کیلئے جگہ میرے پاس محدود ہے۔سردست میںآپ کو کہانی کی ابتدا سنا دیتا ہوں۔مکمل کہانی پھر کبھی میںآپ کو سنائوںگا۔

بے وقت ڈاکٹر مرشد کا ٹیلیفون آیا میںنے بات کی، خیریت ڈاکٹر؟ڈاکٹر مرشد میرا معالج ہے اور میرا دوست بھی ہے ڈاکٹر نے پوچھا’’تم اکیلے ہو،یا تمہارا کوئی جڑواںبھائی بھی ہے‘‘؟

مخولیابننے کی کوشش کرتے ہوئے میںنے کہا۔’’میںاپنے مرحوم والدین کی پہلی اور آخری نشانی ہوںاس دنیا کو اکیلے بھگتنے کیلئے پیدا ہوا ہوں۔

ڈاکٹر مرشد نے کہا ۔تم آسکتے ہو؟گھڑی دیکھتے ہوئے میںنے پوچھا ۔اس وقت؟ہاں۔ابھی اور اسی وقت۔ ڈاکٹر مرشد نے کہا۔ ’’کچھ لوگ کوما میںپڑے ہوئے ایک شخص کو اسپتال میںچھوڑکر گئے ہیںکوما میںپڑا ہوا شخص ہو بہو تمہارے جیسا ہے‘‘ ۔