بدعنوانی کا خاتمہ ضروری!

May 12, 2024

قارئین رشوت اور بدعنوانی صرف ایف بی آر ہی کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ وبا پورے ملک میں پھیلی ہوئی ہے اور سرکاری محکموں اور اداروں میں اس کا اثر زیادہ دکھائی دیتا ہے۔ وہ تمام ادارے جن کے اہلکار و افسران کا عوام سے رابطہ ہوتا ہے یا عوام کو اپنے مسائل کے حل کیلئے ان سے رابطہ کرنا ہوتا ہے ان اداروں میں کرپشن زیادہ ہے اور نہایت گھنائونی شکلوں میں موجود ہے۔ عوام کے پاس کوئی ایسا پلیٹ فارم بھی موجود نہیں ہے جہاں وہ ان اداروں کے اہلکاروں کے خلاف اپنی فریاد پیش کرسکیں۔ محتسب کا ادارہ موجود تو ہے اور وہاں ہر سال لاکھوں لوگ درخواستیں دے کر اپنے مسائل بھی حل کراتے ہیں لیکن مسائل جتنے زیادہ ہیں انکے مقابلے میں محتسب کا ادارہ چھوٹا معلوم ہوتا ہے۔

شہباز شریف نے ایف بی آر کی تقریب میں یہ بالکل درست کہا کہ جزا اور سزا کے عمل سے عظیم قومیں بنتی ہیں۔ آج فیصلہ کن گھڑی آچکی ہے اور ہم سب نے مل کر فیصلہ کیا ہے کہ پاکستان کو اس کا کھویا ہوا مقام دلائیں گے۔ ان کا کہنا تھا، مجھے بتایا گیا کہ 2700 ارب روپے کے ٹیکس کا معاملہ پہلے ہی لٹکا ہوا ہے، 3 سال کے سیلز ٹیکس سے ساڑھے7 سوارب روپے غائب ہیں جو کرپشن، فراڈ، لالچ اور جعلسازی سے ہڑپ ہو گئے اور صرف 1 ارب 60 کروڑ وصول ہوئے۔ اسی لیے قوم اور لاکھوں کروڑوں بچے اور نوجوان بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ اس ترقی کے دور میں ہم کیوں پیچھے رہ گئے ہیں؟ وزیراعظم نے مزید کہا کہ ہم آج فیصلہ کریں اور تہیہ کریں کہ پاکستان کی تقدیر بدلنی ہے تو طویل عرصے نہیں بلکہ دن رات محنت سے چندبرسوں میں ملک کا کھویا ہوا مقام حاصل کرلیں گے۔ محنت کریں تو بھارت کو بھی پیچھے چھوڑ دیں گے۔ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ایف بی آر افسران کے کام کو سراہتے ہوئے کہا کہ ہم اچھے افسران کو انعام دیں گے لیکن کرپٹ عناصر اور کرپشن نہ روکنے والے افسروں کو کسی صورت برداشت نہیں کیا جائے گا۔ کام کریں یا گھر جائیں، واجبات وصولیوں کا ہدف کم ہے، ہم قرض لینے پر مجبور ہیں خراب کارکردگی والے افسروں کو عہدوں پر رہنے کا کوئی حق نہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان کی ترقی اور خوش حالی کیلئے ان افسران نے انتہائی ایمان داری،بےخوفی اور دیانت داری سے اپنے فرض کی ادائیگی کی، جس پر پوری قوم کو ان پر فخر ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کے چیلنجز میں سے ایک سرمایے کی وصولی ہے، جو ایک بہت بڑا چیلنج ہے، پاکستان کا واجب الادا حجم بہت زیادہ ہے، اسی طرح سالانہ واجبات کی وصولیوں کا ہدف کم، ایک اندازے کے مطابق 3یا 4 گنا زیادہ جو خزانے میں آنا چاہیےوہ کرپشن کی نذر ہو رہاہے، یہی وجہ ہے کہ ہم قرضے لینے، آئی ایم ایف کے پروگرام کرنے پر مجبور ہیں۔ انہوں نے واضح پیغام دیا کہ جو کام نہیں کرنا چاہتے یا رشوت اور بدعنوانی کے ذریعے معاملات بگاڑ رہے ہیں ان کیخلاف سخت کارروائی کی جائیگی ۔

چند سال قبل تک جو منافع بخش سرکاری کمرشل ادارے معیشت اور قومی خزانے کی آبیاری کرتے تھے ۔بدقسمتی سے پاکستان کے وہ ادارے جو کبھی ریونیو فراہم کرتے تھے،آج الٹا معیشت پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے بھاری بھر کم قرضے لینا پڑ رہے ہیں ۔نجکاری کمیشن بورڈ نے اپنے 5سالہ منصوبے میں مزید 6قومی ادارے نجی شعبے کو دینے کا پروگرام بنایا ہے۔15ادارے پہلے ہی فال لسٹ میں شامل ہیں،جن کے بشمول کل 21میں سے 6کی فوری نجکاری کی جائے گی۔ان میں پوسٹل لائف انشورنس ،زرعی ترقیاتی بینک، یوٹیلٹی اسٹورز کار پوریشن ،جام شورو،لاکھڑااور ہزارہ الیکٹریکل پاور کمپنی شامل ہیں ۔یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ رشوت اور بدعنوانی قومی اداروں میں بری طرح سرایت کر چکی ہے،جس کے باعث غیر دستاویزی اور غیر قانونی معیشت پروان چڑھی ہے جس کا سالانہ حجم کھربوں میں ہے اور یہ بھاری بھر کم رقوم جو قومی خزانے میں جانی چاہئیں ،بدعنوان اہل کاروں کی تجوریوں میں جارہی ہیں ۔قومی اداروں کی نجکاری کا عمل جو کم و بیش 3دہائیوں سے جاری ہے،ان کے نجی شعبے کو فروخت ہونے اور کامیابی سے ہمکنار ہونے کی مثالیں موجود ہیں جو معیشت کو ریونیو فراہم کررہے ہیں ،تاہم اسکے بعض منفی پہلو بھی ہیں جن میں سرفہرست افرادی قوت کے بے روزگار ہونے کے خدشات شامل ہیں لیکن کمرشل اداروں میں اہل محنتی ملازمین کے بے روزگار ہونے کا کوئی تصور نہیں ۔ تاہم نجکاری کا عمل شروع کرنے سے پہلے مکمل ہوم ورک کرلیا جانا چاہئے۔

دوسری جانب طالبان حکومت نے نہ جلسے کئے نہ ہمارے حکمرانوں کی طرح اعلانات بلکہ فوری عملدر آمدکیاکرپشن کے ذریعے عوام کی لوٹی ہوئی دولت واپس سرکاری خزانے میں جمع کرادی ۔ عطامحمد نور 2ارب ڈالر، فہیم کورنی1.5ارب ڈالر،ربانی کورنی 1.2ارب ڈالر،مسعود کورنی 1.1ارب ڈالر،مجددی کورنی640ملین ڈالر،سید احمد گیلانی 530ملین ڈالر،محمود کرزئی 845ملین ڈالر،گل آغا شیر زئی 810ملین ڈالر،ڈاکٹر عبداللہ 780ملین ڈالر،اسماعیل خان 720ملین ڈالر،استاف سیاف 700ملین ڈالر،جنرل رشید دوستم 710ملین ڈالر، محمد محقق 715ملین ڈالر،خلیلی 730ملین ڈالر،ظاہر قدیر860ملین ڈالر،انوارالحق احدی781ملین ڈالر،بسم اللہ محمدی 385ملین ڈالر،رحیم وردگ 490ملین ڈالر،یونس قانونی 290ملین ڈالر،امر اللہ صالح 598ملین ڈالراور سید حسین انوری 300ملین ڈالر ۔تمام تر سیاسی و مذہبی وابستگی سے ہٹ کر دل میں یہ خواہش پیدا ہوتی ہے کہ کاش ہمارے ملک میں بھی ایماندار حکمران آجائیں جو جھوٹے وعدے کرنے کے بجائے عملی کام کریں۔