انسان کی قیمت کوئلے سے بھی کم

March 12, 2014

صحرائے تھر میں قحط سالی کے باعث بچوں کی ہلاکتوں نے صومالیہ، ایتھوپیا اور سوڈان کی یاد تازہ کردی ہے، آج تھر کے سینکڑوں بچے افریقی ممالک کے بچوں کی طرح انسانی ڈھانچہ بنے موت کی آغوش میں جارہے ہیں۔ غذائی محرومی کا شکار بچوں کی حالت دیکھ کر ایسا گمان ہوتا ہے کہ جیسے ان کا تعلق بھی افریقی ممالک سے ہو۔ قحط سالی کے باعث 125 سے زائد بچوں کی ہلاکت کے انکشاف نے مجھ سمیت ہر پاکستانی کو غمزدہ کردیا ہے اور ہر شخص یہ سوچنے پر مجبور ہے کہ یہ کس طرح ممکن ہے کہ زراعت میں خود کفیل ملک پاکستان بھی آج قحط زدہ ممالک کی فہرست میں شامل ہوچکا ہے۔ گزشتہ کئی سالوں سے تھر میں قحط سالی کے باعث جانوروںکی ہلاکتوںکی خبریں منظرعام پر آرہی تھیں لیکن اس صورتحال پر کوئی توجہ نہ دی گئی مگر اب جانوروں کے ساتھ انسان بھی غذائی قلت کے باعث موت کا شکار بن رہے ہیں۔ تھر میں بچوں کی ہلاکتوں کی وجہ غذائی قلت بتائی جارہی ہے کیونکہ جب ماں غذائی قلت کا شکار ہوگی تو بچہ بھی کمزور اور لاغر پیدا ہوگا۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ قحط سالی سے ہلاک ہونے والے بچوں کے اعداد و شمار جو سامنے آرہے ہیں، وہ اس سے کہیں زیادہ ہیں کیونکہ دور دراز دیہات میں ہلاک ہونے والے بچوں کو شمار ہی نہیں کیا جارہا۔ صرف مٹھی کے اسپتال میں قحط سالی سے متاثرہ تقریباً 2500 مریضوں کو داخل کیا گیا ہےجبکہ بھوک و افلاس سے بچنے کے لئےتھر کے ہزاروں لوگوں نے شہر کا رخ کرنا شروع کردیا ہے جس کے باعث سینکڑوں دیہات خالی ہوگئے ہیں۔ واقعہ کی سنگینی کے پیش نظر وزیراعظم میاں نواز شریف نے گزشتہ روز تھر کا دورہ کیا اور بچوں کی ہلاکت پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے صورتحال کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی ہدایت کی جبکہ متاثرین کے لئے ایک ارب روپے کی امداد کا اعلان بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ چیف جسٹس تصدق حسین جیلانی نے واقعہ کے از خود نوٹس کی سماعت کے دوران برہمی کا اظہار کرتے ہوئے تھر کی صورتحال کا ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہرایا ہے۔ اُن کے بقول تھر کی صورتحال دیکھ کر سر شرم سے جھک جانے چاہئیں۔ اپنے ریمارکس میں چیف جسٹس نے میڈیا کے کردار کو سراہا اور کہا کہ اگر میڈیا نہ ہوتا تو بچے خاموشی سے مرتے رہتے۔ حکومت سندھ نے بچوں کی ہلاکت پر مجرمانہ غفلت کا اعتراف کرتے ہوئے تسلیم کیا ہے کہ سرکاری گندم کی درست تقسیم نہ ہونے کے باعث موجودہ صورتحال پیدا ہوئی۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ قدرتی آفات سے نمٹنے کے قومی ادارے نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے گزشتہ سال بارشیں نہ ہونے کے باعث ضلع تھر میں قحط سالی کی پیشگی وارننگ دی تھی جس پر سندھ حکومت نے کوئی توجہ نہ دی اور سرکاری گندم بروقت تقسیم نہ ہونے کے باعث صورتحال سنگین تر ہوتی چلی گئی جس کے باعث اموات میں اضافہ ہوا۔
پاکستان کے صحرائی علاقے تھرکو گزشتہ کئی عشروں سے قحط سالی کا سامنا رہا ہے۔ 2012ء میں تھرپارکر سمیت 4 اضلاع کو آفت زدہ قرار دیا جاچکا ہے۔ تھر کی بیشتر آبادی کی گزربسر مال مویشیوں یا بارانی زراعت پر ہے لیکن وقت پر بارشیں نہ ہونے کے باعث مقامی لوگ اپنے مال مویشیوں کو بچانے کے لئے بارانی علاقوں کا رخ کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ برطانوی دور حکومت میں بارشیں نہ ہونے کے باعث تھر کو سرکاری طور پر ’’قحط زدہ‘‘ قرار دے کر ٹیکس سے مستثنیٰ کردیا جاتا تھا جبکہ علاقے کے لوگوں کو رعایتی قیمتوں پر گندم فراہم کی جاتی تھی۔ 20 ہزار مربع کلومیٹر پر پھیلے علاقے تھر کی آبادی 10 لاکھ سے زائد ہے۔ یہاں دنیا میں کوئلے کے چوتھے بڑے ذخائر پائے جاتے ہیں جن کی مالیت اربوں ڈالر ہے۔ اس کے علاوہ تھر میں چائنا کلے، گرینائٹ پتھر اور دیگر معدنیات کے بڑے ذخائر بھی پائے جاتے ہیں مگر مقامی آبادی انتہائی غربت و پسماندگی کا شکار ہے جس کے خاتمے کے لئے کسی بھی دور حکومت میں ترجیحی بنیادوں پر اقدامات نہیں کئے گئے۔ حال ہی میں وزیراعظم میاں نواز شریف نے سابق صدر آصف زرداری اور وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کے ہمراہ اس علاقے میں کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے کا افتتاح کیا تھا مگر افسوس کہ حکمرانوں کی نظریں علاقے کے غریب مکینوں اور قحط سالی پر نہ پڑسکیں، شاید اُن کی نظر میں اس علاقے میں انسان کی قیمت کوئلے سے بھی کم ہے۔ ایسی اطلاعات ہیں کہ علاقے میں جب موت رقص کررہی تھی، اس وقت حکمراں اپنی رعایا سے بے خبر ہوکر کراچی اور لاہور میں فیسٹیول منارہے تھے جہاں لاشوں پر گیت گائے جارہے تھے لیکن میڈیا پر خبر آنے کے بعد عوامی دبائو کے نتیجے میں آج سیاستدانوں نے تھر کا رخ کرنا شروع کردیا ہے جس کے مکین یقینایہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ کہیں الیکشن پھر تو قریب نہیں کیونکہ سیاستدان اُنہیں صرف الیکشن کے دوران ہی نظر آتے ہیں۔
قحط کے باعث 125 سے زائد بچوں کی ہلاکت دل دہلا دینے والا سانحہ ہے جس پر جتنا بھی افسوس کیا جائے، کم ہے۔ تھر میں حالیہ قحط سالی اور بچوں کی اموات بدانتظامی اور ریاستی نااہلی کی بدترین مثال ہے جس کے ذمہ دار سخت سزا کے مستحق ہیں۔ اگر میڈیا اس واقعہ سے پردہ نہ اٹھاتا تو حکمراں شترمرغ کی طرح تھر کی ریت میں سر چھپائے بیٹھے رہتے تاہم تھر کے متاثرین کے لئے وفاقی حکومت اور پاک فوج کی خدمات لائق تحسین ہیں۔ اس کے علاوہ معروف بلڈر ملک ریاض نے متاثرین تھر کے لئے 20 کروڑ روپے کی فوری امداد کا اعلان کرکے ایک اچھی مثال قائم کی ہے۔ مجھے امید ہے کہ ملک کے دوسرے مخیر حضرات بھی ان کی تقلید کرتے ہوئے اسی طرح کھلے دل کا مظاہرہ کریں گے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس مسئلے کا مستقل حل ڈھونڈا جائے تاکہ پھر کبھی تھر کا یہ علاقہ قحط سالی کا شکار نہ ہو اور کوئی بچہ بھوک کے باعث اس دنیا سے رخصت نہ ہو۔ افسوس کہ ہم ایٹمی طاقت بن کر دنیا کے 7 بڑے ممالک کے نیوکلیئر کلب میں تو شامل ہوگئے مگر اپنے عوام کو فاقوں سے نہ بچاسکے۔
خلیفہ دوم سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے بارے میں یہ مشہور ہے کہ وہ اپنی رعایا کی خبرگیری اور ضرورت مندوں میں راشن تقسیم کرنے کے لئے راتوں کو اٹھ کر گشت کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ کسی شخص نے سیدنا حضرت عمر فاروقؓ سے عرض کیا کہ ’’اے خلیفہ! آپؓ لاکھوں میلوں پر پھیلی سلطنت کے حکمراں ہیں، آپؓ اپنے کاندھوں پر راشن اٹھاکر اسے لوگوں میں تقسیم کرنے کی تکلیف کیوں کرتے ہیں؟‘‘ جس پر حضرت عمر فاروقؓ نے فرمایا۔ ’’خدا کی قسم! دریائے فرات کے کنارے اگر کوئی کتا بھی بھوک اور پیاس سے مرگیا تو روزِ قیامت اس کی باز پرس مجھ سے ہوگی۔‘‘ کاش کہ ہمارے حکمراںبھی سیدنا حضرت عمر فاروقؓ کے اِن سنہری افکار سے سبق حاصل کریں اور اِس حقیقت کو یاد رکھیں کہ روزِ آخرت اُنہیں بھی اِن معصوم بچوں کی بھوک سے ہلاکت کا جواب دینا ہے۔
نوٹ: مزار قائد کے واقعہ پر لکھے گئے میرے گزشتہ کالم ’’مزار قائد کے تقدس کی پامالی‘‘ کو قارئین نے بے حد سراہا جس پر میں اُن کا انتہائی مشکور ہوں۔ بیشتر قارئین نے اس حوالے سے مجھے متعدد خطوط اور ای میلز بھی بھیجیں جس میں انہوں نے واقعہ پر انتہائی رنج و غم اور غصے کا اظہار کیا تھا لیکن مجھے خوشی ہے کہ کالم میں کئے گئے انکشاف کے بعد واقعہ کو سینیٹ میں اٹھایا گیا اور ایوان میں رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اس کے علاوہ وفاقی حکومت کی ہدایت پر واقعہ میں ملوث 5 افرادکو ملازمت سے برطرف کردیا گیا ہے جن میں ایک ریٹائرڈ میجر بھی شامل ہے جبکہ ملزمان کو گرفتار کرکے اُن کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا ہے۔ مجھے امید ہے کہ ملزمان سے کوئی رعایت نہیں برتی جائے گی اور اُنہیں دوسرے لوگوں کے لئے نشانِ عبرت بنایا جائے گا۔