قصہ یہودی ریاست کے قیام کا (آخری قسط)

May 26, 2024

حماس کے جنگجو، اسرائیل کی سرزمین پر: 1921ءمیں حماس کی کام یاب چھاپہ مارکارروائی کے بعد اسرائیل نے غزہ کی سرحد پر کئی ملین ڈالر کے خرچے سے جدید ترین ہائی ٹیکنالوجی کا حامل بلند و بالا بیریئر نصب کیا ہے۔ جس پر اعلیٰ قسم کے انتہائی حساس سینسرز نصب ہیں۔ اس کے ساتھ ہی 51کلو میٹر طویل اس سرحد پر ہائی پاور کے انتہائی طاقت وراینٹی ٹنل ڈٹیکشنر سینسرز بھی نصب کیے گئے ہیں۔ اسرائیل کے عسکری اور حکومتی ذمّے داروں کو اس بات کا کامل یقین تھا کہ اس قدر فول پروف سیکیوریٹی سسٹم کے بعد ایک معمولی پرندہ بھی رینج میں آئے بغیر سرحد پار نہیں کرسکتا، لیکن 7؍اکتوبر2023ء کی صبح دنیا نے دیکھا کہ امریکا و اسرائیل کے ایجاد کردہ یہ سب اعلیٰ ترین آلات کئی گھنٹے تک مفلوج رہے۔

بڑی تعداد میں حماس کے جنگجو 80مقامات سے سرحد عبور کرکے اسرائیلی علاقے میں 22کلومیٹر تک اندرداخل ہوگئے اور پانچ گھنٹے تک یہ تمام علاقہ حماس کے کنٹرول میں رہا۔ بعدازاں، واپس جاتے ہوئے حماس کے جنگجو مختلف فوجی چوکیوں میں تعینات 250کے قریب اہل کاروں اور افسران کو بھیڑ، بکریوں کی طرح ہنکا کراپنے ساتھ لے گئے۔ اس سبک رفتار کارروائی پر ابھی اب پوری دنیا ورطہ حیرت میں ہے کہ یہ سب کیوںکر ممکن ہوا؟ دنیا کی سب سے خطر ناک جاسوس ایجینسی کو اتنے بڑے حملے کی اطلاع کیوں نہ مل سکی۔

سرحد سمیت پورے اسرائیل میں نصب، جدید ترین سیکورٹی نظام کیوںکر فیل ہوا؟ سرحدی فوج نے مزاحمت کے بجائے ہتھیار کیوں ڈال دیئے؟ کوئیک رسپانس فورس کہاں تھی؟ 60کلومیٹر کی مسافت پر دارالحکومت یروشلم سے فوری کمک کیوں نہیں پہنچی؟ یہ وہ سوالات ہیں، جنھوں نے اسرائیلی وزیراعظم، بن یامین نیتن یاہوسمیت ریاست کے تمام ذمّے داروں کی نیندیں حرام کررکھی ہیں۔

بہرحال، پانچ گھنٹے کی مجاہدانہ کارروائی نے نہ صرف صیہونیوں کے غرور و تکبّر کو ملیا میٹ کردیا، بلکہ اسرائیل کی وحشیانہ بربریت اور معصوم فلسطینیوں کے قتلِ عام نے پوری دنیا کے سامنے اسرائیل کے مکرو اور گھنائونے چہرے کو بھی بے نقاب کردیا ہے۔ خود اسرائیلی آبادکار بھی اب یہ سوچنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ اپنے آبائو اجداد کے علاقوں سے اسرائیل کی جانب نقل مکانی کا ہمارا فیصلہ کہیں غلط تو نہیں تھا۔

نہتّے فلسطینیوں پر اسرائیل کی وحشیانہ بم باری، قتلِ عام اور نسل کُشی

اسرائیل کے متنازع وزیراعظم، بن یامین نیتن یاہو نے حماس کی اس کارروائی کےبعد بیان دیا کہ ہم حالتِ جنگ میں ہیں، چند دنوں کے اندر حماس کو ختم کرکے اپنے یرغمالی آزاد کروالیں گے۔ پھر پوری دنیا نے دیکھا کہ صیہونیوں نے پوری شدّت کے ساتھ معصوم فلسطینیوں پرآگ برسانا شروع کردی۔ خیال تھا کہ معصوم، نہتّے شہریوں پر اس وحشیانہ بم باری میں شہید ہونے والوں کے لواحقین اور عام شہریوں کے دبائو سے خوف زدہ ہوکر حماس، یرغمالیوں کو آزاد کردیں گے، لیکن آفرین ہے، فلسطین کے مسلمانوں پر کہ جنہوں نے اس موقعے پر قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی یاد تازہ کردی۔

ہر گزرتے دن کے ساتھ گولہ بارود کی بارش ہوتی رہی۔ شہیدوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔ صیہونیوں کی سفّاکیت بڑھتی رہی، ہنستا بستا شہر قبرستان میں تبدیل ہوگیا۔ شہری اپنے پیاروں کو اجتماعی قبروں میں دفناتے رہے۔ اسپتال زخمیوں سے بھرتے رہے۔ انسانی لاشوں کے پرخچے فضا میں بکھرتے رہے، لیکن ان لاکھوں بے گھر فلسطینیوں میں سے کوئی ایک شخص ایسا نہ تھا کہ جس کے لبوں پر شکایت کا ایک لفظ بھی آیا ہو۔ صبر و استقامت کی تصویر بنے، بھوکے پیاسے نہتّے بے بس و بے کس فلسطینی اپنے جگر کے ٹکڑے دفناتے اور حماس جنگجوئوں کے جذبوں کو جلا بخشتے رہے۔

فلسطینیوں کا جذبہ جہاد، اب جنون میں تبدیل ہو چکا ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں معصوم بچّے شوقِ شہادت سے سرشار اپنے ہاتھوں اور ٹانگوں پر اس وجہ سے اپنا نام لکھواتے رہے کہ شہادت کے بعد اُن کی شناخت میں مشکل نہ ہو۔ اب صورتِ حال یہ ہے کہ چند گھنٹوں میں حماس کے گھٹنے ٹیکنے اور یرغمالیوں کی رہائی کا خواب دیکھنے والے صیہونی سورمائوں نے اپنے اسلحہ خانوں میں ڈمپ کیا گیا تمام تر گولہ بارود اور امریکا کی جانب سے فراہم کردہ لیزرگائیڈڈ بموں سمیت ہر قسم کا خطرناک اسلحہ غزہ کے شہروں پر برسا کر پورے علاقے کو کھنڈر میں تبدیل کردیا ہے۔

اسپتالوں، اسکولز، امدادی مراکز، مساجد اور عبادت گاہوں سمیت تقریباً تمام عمارتوں کو مسمار کردیا ہے۔ ملکی و غیر ملکی صحافی، امدادی مراکز کے رضا کار، ڈاکٹرز اور طبی عملے سمیت 40ہزارکے لگ بھگ نہتّے شہری لقمۂ اجل بن چکے۔ لاکھوں افراد اپنے جسموں کے اہم اعضاء سے محروم ہوکر عمر بھر کے لیے معذور ہوچکے ہیں، لیکن نہ تو حماس کے جوابی حملوں میں کمی آئی، نہ ہی یرغمالیوں کا کوئی سراغ مل سکا۔ چار ماہ سے مسلسل جاری اسرائیل کے وحشیانہ اور مجرمانہ حملوں کے نتیجے میں فلسطینیوں کے اس بے دریغ قتلِ عام نے اسرائیل کی مظلومیت اور معصومیت کا پردہ چاک کرکے اس کے اصل مکروہ چہرے کو بے نقاب کردیا ہے۔

ہٹلر کے ہاتھوں ’’ہولوکاسٹ‘‘ کی کارروائی کو مجرمانہ فعل کہنے والے یورپی دانش وَر، ہولو کاسٹ پر ہٹلر کے اس بیان کو یاد کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں کہ جب اُس نے کہا تھا کہ ’’مَیں ان چند لاکھ یہودیوں کواس لیے زندہ چھوڑ رہا ہوں کہ دنیا اُن کے اصل چہروں کو دیکھ کر فیصلہ کرے کہ مَیں نے غلط کیا یا صحیح۔‘‘ اور آج 80سال بعد یہودیوں کے ہاتھوں فلسطینیوں کی نسل کُشی نے ہٹلر کے اقدام کا جواز پیش کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ آج اقوامِ متحدہ اور ہیومن رائٹس سمیت دنیا کے تمام ممالک کے عوام جلسے، جلوسوں اور ریلیوں کے ذریعے اسرائیل کی متواتر جارحانہ کارروائیوں پر اپنے غم و غصّے کا اظہار کررہے ہیں۔

خود اسرائیلی عوام نے بھی اپنے وزیراعظم نیتن یاہو کو اس جنگ کا ذمّے دار قرار دیتے ہوئے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔ عالمی عدالت کے 15ججوں نے اپنے ایک فیصلے میں اسرائیل کو حکم دیا ہے کہ وہ غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی فوری روک دے، لیکن اسرائیل نے ان تمام احکامات اور مطالبات کو یک سر مسترد کرتے ہوئے اپنی فضائی اور زمینی کارروائیوں کو مزید تیز کردیا ہے۔ اس تباہ کُن جنگ میں فلسطینیوں کے ساتھ اسرائیل کا بھی بھاری مالی و جانی نقصان ہوا ہے۔ ماہرین کے مطابق، ان چار ماہ میں اسرائیل کی معیشت کو60ارب ڈالرز کا نقصان ہوچکا ہے، جب کہ حماس کے فضائی حملوں کے ڈر سے اب تک کارخانے، فیکٹریزاور تعلیمی ادارے بند ہیں۔

حماس کی دیو مالائی سُرنگیں، دنیا کا نواں عجوبہ!!

غزہ کی مختصر سی پٹّی (41کلو میٹر طویل اور 10کلو میٹر چوڑی) کے اندر زیرِ زمین 100فٹ کی گہرائی میں دھات اور کنکریٹ کے امتزاج سے تعمیر کی گئی 500کلو میٹر سے زیادہ طویل، کشادہ سُرنگوں کی بُھول بھلّیوں کے جال نے پورے غزہ کو ناقابلِ تسخیر بنا دیا ہے۔ یہ سُرنگیں امریکا اور لندن کے انڈرگرائونڈ ٹرین سسٹم سے بھی کہیں زیادہ لمبی ہیں۔ زمینی جنگ میں اسرائیلی فوج کا ان سُرنگوں میں داخل ہونا اُس ڈرائونے خواب کی مانند ہے کہ جس کی تعبیر صرف موت ہی ہے۔

کہتے ہیں کہ جو اسرائیلی فوجی ہمّت کر کے ان سرنگوں میں داخل ہوا، وہ ان کی بُھول بھلیوں میں اس طرح گُم ہوا کہ پھر اسے کبھی واپسی کا راستہ نہ ملا۔ یہاں تک کہ حماس کی شکل میں موت کے فرشتے نے اسے جہنم رسید کردیا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیلی فوج میں حماس کی ان سرنگوں نے دیو مالائی کہانیوں کا روپ دھار لیا ہے۔ اور یہ دنیا کا نواں عجوبہ کہلائی جانے لگی ہیں۔ معروف جریدے، فنانشل ٹائمز نے ایک اسرائیلی فوج اہل کار کے حوالے سے لکھا کہ حماس کی یہ سرنگیں دراصل سرنگیں نہیں، بلکہ زیرِ زمین آباد ایک وسیع و عریض شہر ہے، جس میں دنیا کی ہر چیز فراہم کردی گئی ہے۔

ذرائع تصدیق کرتے ہیں کہ ان سرنگوں میں حماس کے کمانڈاینڈ کنٹرول سینٹر کی محفوظ پناہ گاہیں، اسلحہ ساز فیکٹریز، ریسرچ لیبارٹری، گولہ بارود کے گودام، زرعی اناج اور ضروریاتِ زندگی کی دیگر اشیاء طویل عرصے تک محفوظ کرکے ذخیرہ کرنے کی جگہیں، فوجی تربیت گاہیں، اسپتال، مساجد، تعلیمی ادارے اور مدرسے موجود ہیں۔ سرنگوں کے اندر روشنی کے معقول انتظام کے لیے طاقت وَر پاور ہائوس چوبیس گھنٹے کام کرتا ہے۔

سرنگوں کی محفوظ سیکیوریٹی کے پیشِ نظر 500کلومیٹر سے زیادہ طویل ان1300 سے زیادہ سرنگوں کو مختلف زون میں تقسیم کرکے ہر زون کا سیکیوریٹی مانیٹرنگ سیل قائم کیا گیا ہے۔ سرنگوں کے داخلی راستوں پر نصب ہائی پاور ڈٹیکشنر سینسرز کسی بھی خلافِ معمول حرکت کی فوری اطلاع برقی نظام کے تحت لمحوں میں سیکیورٹی مانیٹرنگ سیل میں پہنچا دیتے ہیں۔ سرنگوں میں ایک جگہ سے دوسری جگہ نقل و حرکت کے لیے کشادہ سڑکوں کا جال اور ٹرانسپورٹ کا منظّم نیٹ ورک بھی موجود ہے اور ان سرنگوں میں سے بعض کئی کئی منازل پر مشتمل ہیں۔

سطح زمین سے 100فٹ نیچے انتہائی گہرائی میں فولاد اور کنکریٹ سے بنائی گئی سرنگوں کی اِن بُھول بھلیوں کو نہایت پیچیدہ، مگر باہمی مربوط نظام کے تحت اس طرح بنایا گیا ہے کہ عقلِ انسانی اسے دنیا کا نواں عجوبہ کہنے پر مجبور ہوجاتی ہے۔ اسرائیلی فوج میں ’’موت کی وادی‘‘ کے نام سے مشہور ان سرنگوں کو فتح کرنا جان جوکھوں کا کام ہے۔ غزہ کے خلاف زمینی جنگ مسلّط کی گئی تو حماس کی ایجاد کردہ یہ منفرد سرنگیں صیہونیوں کا قبرستان بن سکتی ہیں۔ قرین قیاس ہے کہ آج چار ماہ گزر جانے کے باوجود 132 اسرائیلی یرغمالی اور 28یرغمالیوں کی لاشیں ان ہی سرنگوں کے کسی محفوظ گوشے میں موجود ہیں۔

ان سرنگوں سے متعلق امریکی جریدہ، وال اسٹریٹ لکھتا ہے کہ ’’غزہ میں حماس کے زیراستعمال ان سرنگوں کو تباہ کرنا اسرائیل کااصل ہدف تھا، جس کے لیے اس نے اربوں ڈالرز خرچ کر کے دنیا کی جدید ترین اور انتہائی حسّاس دفاعی ٹیکنالوجی، (اینٹی ٹنل ڈٹیکشنر سینسرز) اپنی سرحدوں پر نصب کی، لیکن 7اکتوبر2023ء کی صبح حماس کی جانب سے چند گھنٹوں کی ایک چھاپا مار کارروائی نے صیہونی ٹیکنالوجی کی برتری کو خاک میں ملا کر دنیا بھر کے سائنس دانوں کو حیرت زدہ کردیا۔‘‘

جب کہ ’’نیویارک ٹائم‘‘ لکھتا ہےکہ ’’الاقصیٰ آپریشن کی کام یابی، درحقیقت حماس کی طرف سے لاحق خطرے کے حوالے سے صیہونی انٹیلی جینس کی ناکامی، عسکری اداروں کے غلط اور گم راہ کُن جائزے، صیہونی سیاسی و سیکیوریٹی ذمّے داروں کے غرور و تکبّر کا نتیجہ ہے۔ حماس نے اسرائیل کے جدید ترین جاسوسی نظام کو شکست دے کر ’’سرپرائز‘‘ حملے کے ذریعے اسرائیلی ریاست کے ناقابلِ تسخیر ہونے کے زعم کو پاش پاش کردیا ہے اور اپنے لوگوں کی اس فاش غلطی اور ناکامی نے عام اسرائیلوں کو بھی حیران اور غم زدہ کررکھا ہے۔‘‘