غزہ کی پٹّی.....شیخ احمد یاسین اور حماس کا قیام
غزہ کی پٹّی، جہاں فلسطینی محصور ہیں: بحیرۂ روم کے مشرقی ساحل پر اسرائیل اور مصر کے درمیان 41کلو میٹر طویل اور 10کلو میٹر چوڑی ایک مستطیل نما پٹّی ہے، جس کا کُل رقبہ 365کلومیٹر ہے۔ اس کے جنوب مغرب میں مصر ہے، جس کے ساتھ اس کی سرحد کی لمبائی 11کلو میٹر ہے، جب کہ مشرقی اور شمالی سرحد اسرائیل سے ملتی ہے، جو51میٹر طویل ہے۔ غزہ کی پٹّی دنیا کے سب سے گنجان آباد اورغربت زدہ علاقوں میں سے ایک ہے، جہاں طویل عرصے سے 23لاکھ افراد اسرائیل کے قیدیوں کی حیثیت سے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ان کی اصل سرزمین پراسرائیل کا غاصبانہ قبضہ ہے۔ غزہ کی پٹّی کے نام سے مشہور مسلمانوں کی گنجان آبادی پر مشتمل زمین کا یہ مختصر سا حصّہ، دنیا کے قدیم ترین علاقوں میں سے ایک ہے، جسے سکندرِ اعظم سے لے کر رومیوں اور مسلمانوں نے فتح کیا۔ 1917ءتک فلسطین سمیت یہ تمام علاقہ سلطنتِ عثمانیہ کی حکومت کا حصّہ تھا، جہاں 85فی صد مسلمان، 10فی صد عیسائی اور 5فی صد یہودی رہائش پذیر تھے۔ پہلی جنگِ عظیم میں یہ علاقہ انگریزوں کی تحویل میں آگیا۔ مئی 1948ءمیں پہلی عرب، اسرائیل جنگ کے دوران لاکھوں مقامی فلسطینیوں کو غزہ کی پٹّی کی جانب دھکیل دیا گیا اور فلسطین میں دنیا بھر سے نقل مکانی کرکے آنے والے یہودی آبادکاروں کو بسانے کا ایک وسیع پروگرام شروع کیا گیا۔
پہلی عرب، اسرائیل جنگ کے اختتام پر اس علاقے پر مصر نے قبضہ کرلیا، جو1967ءتک برقرار رہا۔1967ءکی چھے روزہ عرب، اسرائیل جنگ میں اسرائیل نے غرب اُردن، مشرقی بیت المقدس سمیت غزہ کی اس پٹّی پر بھی قبضہ کرلیا، جو2005ءتک برقرار رہا۔ اس دوران یہاں اسرائیل نے یہودی بستیاں قائم کرلیں۔ اسرائیلی فوج اور مجاہدین کے درمیان خوں ریز جھڑپوں کا سلسلہ طویل عرصے سے جاری تھا۔ اسرائیلی فوجی جب چاہتے، غزہ شہر میں داخل ہوکر قتل و غارت گری کرتے اور نوجوانوں کو گرفتار کرکے لے جاتے۔ اس ظلم و ستم اور بربریت کے نتیجے میں مزاحمتی تنظیم ’’حماس‘‘ وجود میں آئی۔
فلسطینیوں کے روحانی پیشوا: حماس یا تحریکِ مزاحمتِ اسلامیہ (عربی: حرکۃ المقاومۃ الاسلامی ) کا باضابطہ وجود14دسمبر1987ءکو عمل میں آیا۔ جس کے بانی فلسطینیوں کے روحانی پیشوا اور تاریخِ اسلامیہ کی نادرروزگار شخصیت، شیخ احمد یاسین تھے، جو 1938ءمیں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں حاصل کی۔ قاہرہ اُس وقت دنیائے عرب کی پہلی اسلامی سیاسی تحریک ’’اخوان المسلمون‘‘ کا مرکز تھا۔ شیخ یاسین، بچپن کے ایک حادثے کے نتیجے میں چلنے پھرنے سے معذور ہوگئے تھے، جس کے بعد انہوں نے خود کو اسلامی تعلیمات کے لیے وقف کردیا۔ دبلے پتلے جسم کے مالک شیخ احمد یاسین جسمانی طور پر تو معذور تھے، اُن کی بینائی بھی انتہائی کم زور تھی۔
وہ بہت دھیمے انداز میں گفتگو کیا کرتے تھے۔ اس کے باوجود اپنے انقلابی نظریات کی بِناپر تمام فلسطینیوں کی امیدوں کا مرکز و محور تھے۔ انہوں نے اپنی مزاحتمی تحریک کا نام بھی ’’حماس‘‘ رکھا، جس کے معنی ’’جوش و جذبہ‘‘ کے ہیں۔ 1989ءمیں اسرائیلی فوج سے تعاون کرنے والے فلسطینیوں کے قتل کا حکم دینے کی پاداش میں اسرائیل نے انہیں عمر قید کی سزا سنائی، لیکن 1997ءمیں انہیں دو اسرائیلی ایجنٹوں کے بدلے میں اسرائیلی قید سے رہائی ملی۔ اپنی اسیری کے 8سالوں کے دوران اُن کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہوا اور وہ فلسطین کی جہادی مزاحمت کی علامت بن گئے۔
اسرائیل نہ صرف ان سے شدید نفرت کا اظہار کرتا رہا ہے، بلکہ انہیں فلسطینیوں کا ’’اسامہ بن لادن‘‘ قرار دیتا رہا ہے۔ ویسے تو شیخ یاسین پر متعدد بار قاتلانہ حملے ہوئے، لیکن ستمبر 2003ءمیں ایک حملے میں شدید زخمی ہوگئے۔ بعدازاں 22مارچ 2004ء کو اسرائیل کے ایک گن شپ ہیلی کاپٹر کے میزائل حملے میں شہید ہوگئے۔ اُس وقت وہ نمازِ فجر ادا کرنے کے لیے مسجد جارہے تھے۔ اس حملے میں ان کے دو صاحب زادوں سمیت 12سے زائد افراد زخمی اور 10افراد شہید ہوئے۔
حماس کا قیام: حماس کے وجود میں آنے سے پہلے یاسر عرفات کی تنظیم، آزادئ فلسطین (PLO) فلسطینیوں کی واحد نمائندہ تنظیم تھی، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ یاسرعرفات کے متنازع اقدامات اور مصالحانہ پالیسیوں کی بِنا پر فلسطینی نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد یاسرعرفات کی ’’الفتح ‘‘سے متنفّر ہوگئی۔ یہ وہ وقت تھا کہ جب اخوان المسلمین کے رہنما، شیخ احمد یاسین نے ان باغی نوجوانوں کو حماس کے پلیٹ فارم پر جمع کرنا شروع کیا اور انتہائی قلیل عرصے میں شیخ احمد یاسین فلسطینی نوجوان کے مذہبی پیشوا اور جہادی کمانڈر کے طور پر سامنے آئے۔
خداداد صلاحیتوں کے مالک، شیخ یاسین نے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں اپنی تنظیم کے انتظامی امور کو دو بنیادی گروہوں میں تقسیم کیا۔ تنظیم کا پہلا گروہ حقوق العباد کی ادائی کے لیے مختص کیا گیا۔ جس کے فرائض میں تعلیمی ادارو، مساجد، اسپتالوں، فلاحی اداروں کے قیام اور فلسطینی عوام کو بنیادی ضروریاتِ کی فراہمی شامل تھے۔
نیز، وہ افراد، جو جہادی سرگرمیوں میں مصروف رہتے، ان کے لواحقین کی مکمل نگہداشت بھی اس گروہ کی ذمّے داریوں میں شامل ہے۔ تنظیم سے وابستہ افراد ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعے غزہ کی پٹّی کے چپّے چپّے میں اپنی خدمات سرانجام دینے کے لیے ہمہ وقت مصروفِ عمل رہتے ہیں۔
تنظیم کا دوسرا گروہ، عسکری خدمات انجام دیتا ہے، جس کا نام ’’شہید عزالدین القسام بریگیڈ‘‘ ہے۔ شہید عزالدین القسام ایک شامی مسلمان مبلّغ، معلّم، امام اور حرّیت پسند رہنما تھے، جو 1882ءمیں شام کے شہر جبلہ میں پیدا ہوئے۔ انہوں نے برطانوی، فرانسیسی اور اطالوی مزاحمت کے خلاف مقامی جدوجہد میں ایک حریت پسند جنگجو رہنما کا کردار ادا کیا اور 1935ء میں اپنی شہادت کے وقت تک وہ صیہونیت کے خلاف برسرِپیکار رہے۔
غزہ پر حماس کی حکومت: 2006ءکے انتخابات میں حماس نے الفتح کے مقابلے میں شان دار کام یابی حاصل کرکے دنیا کو حیران کردیا۔ 2006ء میں الفتح اور حماس میں شدید اختلافات کے نتیجے میں 2007ء میں غزہ کی پٹّی پر حماس اور مغربی کنارے پر محمود عباس کی تنظیم ’’الفتح‘‘ کی حکومت قائم ہوگئی۔ حماس کے برِسراقتدار آنے کے بعد اسرائیل اور مصر نے غزہ کی پٹّی کا زمینی، فضائی اور سمندری محاصرہ کرلیا، جو آج تک جاری ہے۔ حماس اور اسرائیل کے درمیان 2008ء، 2012ء، 2014ءاور2021ء میں شدید جھڑپیں ہوئیں۔
اسرائیل کے ساتھ چار جنگوں اور 16سالہ اسرائیلی محاصرے کے باوجود حماس نہایت ثابت قدمی کے ساتھ غزہ پر برسرِاقتدار ہے۔ اسرائیل کے اس سخت ترین محاصرے کے دوران فلسطینیوں کی نقل و حرکت پر مکمل طور پر پابندی ہے۔ نہ کوئی باہر جاسکتا ہے اور نہ اندر آسکتا ہے۔ اس طویل اور انسانیت سوز محاصرے نے غزہ کی معیشت، تعلیمی نظام، لوگوں کی ذہنی و جسمانی صحت سمیت ہر چیز تباہ و برباد کر کے رکھ دی ہے۔ ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی، اقوامِ متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں نے اسرائیل کے اس وحشیانہ محاصرے کو جنیوا کنونش کی شدید خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے غزہ کی پٹّی کو ایسی جیل سے تشبیہ دی ہے، جس کے مکین قیدِبا مشقّت کی طویل سزا بھگت رہے ہیں۔
حماس کا صدر دفتر: حماس کو ابتدا ہی سے اُردن کے حکم راں، شاہ حسین کی حمایت حاصل رہی۔ حماس کا صدر دفتر اور فلاحی کاموں کے لیے اُردن میں بھی ایک شاخ تھی، جس کے نگراں،سینئر رہنما ،خالد مشعل تھے۔ حماس کے بہت سے سینئر رہنما طویل عرصے تک اُردن کے شہر، امّان میں مقیم رہے، لیکن شاہ حسین کے انتقال کے بعد ان کے جانشین، شاہ عبداللہ نے حماس کا ہیڈ کوارٹر بند کرکے تنظیم کے اعلیٰ عہدے داروں کو اُردن چھوڑنے کا حکم دے دیا، چناں چہ وہ لوگ قطر کی طرف نقل مکانی کرگئے۔
قطر کے شہر، دوحا میں تنظیم کے سربراہ، اسماعیل ہانیہ کی رہائش گاہ کے علاوہ تنظیم کا ہیڈ کوارٹر بھی ہے۔ اُردن کے نئے حکم راں، شاہ عبداللہ کی والدہ ایک انگریز خاتون ہونے کے سبب حماس کی کارروائیوں سے خوش نہیں ہیں۔ حماس، سنّی عقائد کے مسلمانوں کی جہادی تنظیم ہے، لیکن اسے موجودہ دَور میں ایران کی حمایت اور امداد حاصل ہے، جب کہ لبنان کی ’’حزب اللہ‘‘ شیعہ نوجوانوں پر مشتمل جہادی تنظیم ہے۔ تاہم، حماس اور حزب اللہ، ہر اہم مرحلے پر ایک دوسرے کی ہرممکن مددکے لیے تیار رہتے ہیں۔
آپریشن ’’طوفان الاقصیٰ‘‘: 7؍اکتوبر 2023ء بروز ہفتہ(یوم سبت) کی روشن صبح کے آثار نمودار ہوچکے تھے، صحرائی پرندے حمد و ثناء میں مصروف تھے۔ غزہ کی پٹّی سے چند کلو میٹر کے فاصلے پر جنوبی اسرائیل کے ایک صحرا ’’صحرالنقب‘‘ میں ’’سپر فووا میوزک فیسٹیول‘‘ اپنے اختتامی لمحات پر تھا۔ شراب کے نشے میں مدہوش صیہونی فورسزکے نوجوان مرد اور عورتیں اپنے مذہبی تہوار ’’سوکوت‘‘ کے موقعے پر ڈانس اور میوزک کی اس بڑی محفل میں رقص و سرود میں مصروف تھے۔ واضح رہے کہ یہودی اپنے اس مذہبی تہوار پر بڑے پُرجوش ہوتے ہیں اور نوجوان نسل ہفتوں پہلے سے اس کے استقبال کی تیاریوں میں مصروف ہوجاتی ہے۔
اُس دن بھی مذہب کے نام پر میوزک فیسٹیول اپنے عروج پر تھا کہ اچانک رنگ برنگی روشنیوں میں نہایا ہوا دل فریب پنڈال ’’اللہ اکبر‘‘ کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا اور پھریک بہ یک اندھیروں میں ڈوب گیا۔ فائرنگ کی دہشت اور تکبیر’’اللہ اکبر‘‘ کے پُرجوش نعروں نے محفل میں شریک نوجوانوں کو بدحواس کردیا۔ وحشت کے عالم میں جس کا جدھر منہ اُٹھا، بھاگ نکلا۔ گویا ایک قیامت کا سماں تھا۔ کچھ دیر پہلے جہاں مغربی موسیقی اپنے عروج پر تھی، اب وہاں وحشت ناک چیخ وپکار کے درمیان موت کے بھیانک سائے رقصاں تھے۔ میوزک فیسٹیول پر حملے سے شروع ہونے والا حماس کا ’’طوفان الاقصیٰ‘‘ آپریشن جنوبی اسرائیل کے کئی مقامات پرایک ساتھ شروع کیا گیا، جس میں زمینی، فضائی اور بحری راستوں کو نہایت مہارت کے ساتھ استعمال کیا گیا۔
زمینی جنگجو، سرحدی گزرگاہوں پر موجود رکاوٹوں کو توڑتے ہوئے اسرائیلی بستیوں میں داخل ہوگئے۔ حماس نے پہلی مرتبہ پیرا گلائیڈر اور اسپیڈ بوٹس کے ذریعے مجاہدین کو اسرائیلی حدود میں چھاپہ مار کارروائی کی اجازت دی۔ اس آپریشن کے ابتدائی بیس منٹوں میں پانچ ہزار میزائل فائر کیے گئے، جن سے 60کلو میٹر کے فاصلے پر اسرائیل کا دارالحکومت بھی لرزاٹھا۔ ’’آپریشن طوفان الاقصیٰ‘‘ پانچ گھنٹے تک جاری رہا، جس میں زیادہ تر اُن افراد کونشانہ بنایا گیا، جنہوں نے مزاحمت کی۔ بعدازاں، حماس کے جنگجو، اسرائیلی فوج کے افسران سمیت 250افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے۔ (جاری ہے)