دبئی پراپرٹی لیکس

May 22, 2024

متحدہ عرب امارات کی ریاست دبئی اپنی رنگینیوں اور چمک دمک کے باعث پاکستان سمیت دنیا بھر کی اشرافیہ کیلئے ہمیشہ سے ایک پرکشش مقام اور پراپرٹی میں سرمایہ کاری کی جنت تصور کی جاتی ہے۔ گزشتہ دنوں عالمی صحافتی تنظیم آرگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (OCCRP) کی ’’دبئی اِن لاکڈ‘‘ کے نام سے جاری تحقیقاتی رپورٹ میں یہ انکشاف سامنے آیا کہ دنیا بھر کی اشرافیہ کی دبئی میں تقریباً 400 ارب ڈالر کی املاک موجود ہیں اور اس فہرست میں پاکستانیوں کی نشاندہی بھی کی گئی ہے۔ رپورٹ کے مطابق بھارتی شہری 17 ارب ڈالر کی 35 ہزار پراپرٹیز کے ساتھ پہلے، پاکستانی شہری 11 ارب ڈالر کی 23 ہزار پراپرٹیز کے ساتھ دوسرے، برطانوی شہری 10 ارب ڈالر کی 22 ہزار پراپرٹیز کے ساتھ تیسرے اور سعودی شہری 8.5 ارب ڈالر کی 16 ہزار پراپرٹیز کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہیں لیکن تحقیقات میں صرف 200 ایسے افراد پر توجہ دی گئی جو سیاسی شخصیات تھیں یا ان کا مجرمانہ ریکارڈ تھا۔ رپورٹ میں دبئی میں جائیداد بنانے والے جن پاکستانیوں کے نام شامل ہیں، اُن میں تاجر، سیاستدان، مسلح افواج کے ریٹائرڈ افسران اور بیورو کریٹس شامل ہیں تاہم ان افراد کا کہنا ہے کہ اُن کی دبئی میں جائیدادیں ڈکلیئرڈ ہیں جس کی تصدیق ایف بی آر سے بھی کی جاسکتی ہے۔

پاکستانیوں کی بیرون ملک موجود 11 ارب ڈالر سے زائد مالیت کی جائیدادوں کا انکشاف حیران کن ہو نہ ہو، غور و فکر کے کئی پہلو ضرور رکھتا ہے تاہم یہ بات واضح رہنی چاہئے کہ پاکستان سے باہر کسی شخص کی جائیداد ہونا بذات ِخود کوئی غیر قانونی سرگرمی نہیں۔ بہت سے پاکستانیوں کے پاس بیرون ملک جائیدادیں ہیں جو انہوں نے بیرون ملک محنت کی کمائی یا ٹیکس شدہ آمدنی سے بنائی ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے طبقہ اشرافیہ نے دبئی کا انتخاب کیوں کیا؟ اس کی ایک وجہ دبئی میں کاروبار دوست ماحول،معاشی استحکام،سیکورٹی کی بہترین صورتحال، انفراسٹرکچر کی فراہمی اور پراپرٹی خریدنے والوں کیلئے ٹیکس فری ماحول جیسی سہولیات نے پاکستان سمیت دنیا بھر کی اشرافیہ کو اپنی طرف راغب کیا۔ گوکہ بھارت کے معاشی حالات پاکستان سے بہتر ہیں مگر وہاں کے لوگوں نے بھی مذکورہ سہولیات کے باعث دبئی کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے جس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ جہاں سرمایہ محفوظ رہنے اور بڑھنے کے امکانات ہوتے ہیں، وہاں غیر ملکی سرمایہ کار رخ کرتے ہی ہیں اور ایسے میں جب دنیا بھر کی پراپرٹی مارکیٹ زوال کا شکار ہے، دبئی وہ واحد ریاست ہے جہاں رئیل اسٹیٹ سیکٹر بلندیوں کو چھو رہا ہے اور دبئی میں کسی رئیل اسٹیٹ کا پروجیکٹ لانچ ہوتے ہی ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوجاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے سرمایہ کار دبئی کا رخ کرتے ہیں۔

کہاوت ہے کہ کسی ملک کا بحران دوسرے ملک کیلئے مواقع فراہم کرتا ہے۔ پاکستان میں سیاسی عدم استحکام ، معاشی بحران اور امن و امان کی خراب صورتحال کے باعث پاکستانیوں میں یہ سوچ پروان چڑھی کہ ان کا سرمایہ پاکستان میں محفوظ نہیں اور انہوں نے یو اے ای کا رخ کیا اور رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کی۔ یو اے ای نے بھی دنیا بھر کے طبقہ اشرافیہ کو راغب کرنے کیلئے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں نئی اسکیمیں متعارف کرائیں جن کے تحت کوئی بھی غیر ملکی شہری یو اے ای کی پراپرٹی میں سرمایہ کاری کرکے گولڈن ویزا حاصل کرسکتا ہے۔ اس اسکیم سے پاکستانیوں سمیت دنیا بھر کے امراء طبقے نے بھرپور فائدہ اٹھایا اور دبئی کے رئیل اسٹیٹ سیکٹر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کرکے گولڈن ویزا حاصل کیا۔

پاکستان کی موجودہ سیاسی اور معاشی صورتحال کے باعث سرمایہ کار خود کو ملک میں غیر محفوظ تصور کرتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ انہوں نے ملک سے باہر محفوظ سرمایہ کاری کو ترجیح دی۔ دبئی پراپرٹی لیکس میں جو انکشافات اور جن لوگوں کی پراپرٹیز سامنے آئی ہیں، ضروری نہیں کہ وہ غیر قانونی طریقے سے حاصل کی گئی ہوں بلکہ وہ جائز ذرائع سے بھی خریدی اور ڈکلیئرڈ کی گئی ہوں گی لہٰذاایف بی آر کو چاہئے کہ وہ انہیں ہراساں نہ کرے لیکن اگر فہرست میں شامل کسی شخص نے دبئی میں اپنی پراپرٹی پاکستان میں ڈکلیئرڈ نہیں کی ہے تو اسے یہ موقع فراہم کیا جائے کہ وہ ان جائیدادوں کو فروخت کرکے اپنا سرمایہ پاکستان لاکر سرمایہ کاری کرے جس سے ملک کو اربوں ڈالر کا زرمبادلہ حاصل ہوسکتا ہے۔ ساتھ ہی ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ملک میں ایسے حالات اور سازگار ماحول پیدا کرے کہ طبقہ اشرافیہ خود کو اور اپنے جائز سرمائے کو محفوظ تصور کرے۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے اقدامات کرے جس سے پاکستانی سرمایہ کاروں اور امراء طبقے کا اعتماد بحال ہو اور وہ بیرون ملک سرمایہ کاری کرنے کے بجائے اپنے ملک میں رہنے اور سرمایہ کاری کو ترجیح دیں۔