ریکوڈک منصوبہ

May 25, 2024

عشروں سے کئی پیچیدگیوں کا شکار ریکوڈک منصوبہ اب فعالیت کی منزل کے قریب آگیا ہے۔ اس اہم پیشرفت میں ایس آئی ایف سی کا بڑا اہم کردار ہے جو خلیجی ممالک سے زراعت، معدنیات، دفاع، توانائی اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری حاصل کرنے کے لئے تشکیل دی گئی تھی۔ اس کے ذریعے ریکوڈک پروجیکٹ کے لئے سعودی عرب اور بیرک گولڈ سے تجارتی مذاکرات ہوئے۔ ریکوڈک شیئر کی عالمی قیمت لگوائی گئی۔ فی شیئر قدر کے پنچ مارک کا تعین بھی ہوگیا ہے۔حکومت اور بیرک گولڈ کے درمیان معاہدہ کے تحت پچاس فیصد حصص کی مالک یہ کمپنی ہے جبکہ بقیہ پچاس فیصد حصہ وفاق اور حکومت بلوچستان کے پاس ہے۔ تازہ ترین صورت حال کے مطابق بیرک گولڈ کی جانب سے اس پروجیکٹ میں اپنے حصص کی فروخت سے انکار کے بعد سعودی عرب اور پاکستان نے اصولی طور پر ایک ڈیل پر اتفاق کرلیا ہے جس کے تحت پاکستان اپنے پندرہ فیصد حصص سعودی عرب کو فروخت کریگا وفاق کا حصہ 25 سے کم ہوکر 10 فیصد جبکہ پاکستان کےمجموعی حصص 50 فیصد سے گھٹ کر 35 فیصد رہ جائیں گے۔ بلوچستان حکومت کا پچیس فیصد برقرار رہے گا اور یوںپاکستان اس منصوبے کا اقلیتی حصہ دار بن کر رہ جائے گا۔ حکومت شعوری طور پر سمجھتی ہے کہ ریکوڈک میں اپنے حصص کو اقلیتی حصص میں تبدیل کرلینے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ موجودہ انتظامات میں بیرک پابند ہے کہ وہ کوئی یک طرفہ فیصلہ نہیں کرسکے گی۔ بلوچستان کو ادائیگی کا میکنزم بنانے اور لیویز ہائیر کرنے کا کام ریکوڈک مائننگ کمپنی کریگی۔ سعودی عرب نے مستقل ثالثی عدالت تک رسائی کا مطالبہ بھی منوالیا ہے۔ 1972 کے بعد پاکستان میں سرمایہ کاری نچلی ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایس آئی ایف سی نہ ہوتی تو اس منصوبے کے لئے تعین قدر کا کام ناممکن تھا۔توقع کی جا رہی ہے کہ ریکوڈک میں سعودی عرب کے ساتھ سودے بازی سے سرمایہ کاری ماحول بہتر ہوگا اور اس منصوبے میں بلوچستان کے ہزاروں افراد کو روزگار ملے گا۔