بحران: مچھلی سمندر میں، تلاش صحرا میں

May 28, 2024

پاکستان عجیب مملکت اور قوم ہے۔ اب تو دنیا ہمیں اسی طرح جانتی ہے کہ ہماری کوئی کل سیدھی نہیں اور ہمارا کوئی ایک تشخص بھی قائم نہیں ہو پا رہا۔ ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ ہمارے ملک کا آئینی نام ہے۔ کام اس کے سب کے سب بگڑے ہوئے، سیاست ہو یا معیشت ،سماج ہو یا گورننس، حکمران، منتظمین، منصف، محافظ، استاد و شاگرد۔ قدرتی وسائل مع اعلیٰ انسانی وسیلہ بے پناہ و بیش بہا۔ مملکت قائم کئے 76 برس بیت گئے، پہلا عشرہ آئین بنانے، ٹالنے اور پھر متفقہ بنے (1956 والے) کو، الیکشن شیڈول کا اعلان ہونے کے بعد اطلاق سے روک کر مارشل لا لگانے میں گزرا، پہلے تین ساڑھے تین سال خالص، پھر فردِ واحد کے بنائے آئین (1962) کا تسلط قوم کے جمہوری مزاج، ضمیر و خمیر، حصول پاکستان کے طریقہ کار (مسلسل سیاسی جمہوری عمل) ،نظریے سے ہم آہنگ تو کیا ہوتا، متصادم تھا، لیکن پھر بھی مارشل لا میں سے کنونشن لیگ برآمد ہوگئی، اور پاکستان بنانے والی لیگ غائب ہوگئی۔ اس سب کے باوجود محدود سیاسی و صحافتی مزاحمت کے ساتھ، عوامی شرکت کے بغیر شروع کئے گئے ترقیاتی عمل کے تیز تراور نتیجہ خیز ہونے کے باوجود، بالآخر یہ جاری و ساری نہ رہا۔ ہضم اس لئے ہوگیا کہ پہلا عشرہ سیاسی انتشار، سازشی ماحول سے مغلوب اور امور مملکت میں پاکستان کے لئے بیش بہا قربانیاں دینے اور جدوجہد کرنے والے عوام کا کوئی لینا دینا نہ تھا۔ لیکن ایوبی آئین میں بنیادی جمہوریت کے نظام سے ان کو کچھ نہ کچھ ایمپاورڈ تو کیاگیا تھا اور گلی محلہ اور گائوں گوٹھ کے بنیادی امور، سہولتوں، مسائل و حل ان کا دائرہ اختیار و انتظام تسلیم کرلیاگیا تھا، لیکن قومی جمہوری اور متفقہ دستور کے بغیر اور اظہار رائے پر پہرے پابندیوں کی قانون سازی (جیسےپریس اینڈپبلیکیشنز، آزاد میڈیا کے بڑے حصے کو ہتھیا کر نیشنل پریس ٹرسٹ کا قیام)لہٰذا ترقی و خوشحالی کے بڑھتے گراف، کمیونٹی کی سطح پر محدود عوامی انتظامی اختیار کے باوجود پاکستان کی اصلیت یہ ہی تھی کہ پاکستان اپنے قیام کی بنیادی کمٹمنٹ ایک ’’اسلامی جمہوری فلاحی مملکت‘‘ کے قیام کے حامل ریاستی دستور سے محروم تھا۔ حالانکہ 1956 کے آئین میں قرارداد مقاصد کی صورت میں اس کا متفقہ اہتمام ہوگیاتھا،جسے پھر 1973کے دستور میں بھی شامل کیا گیا۔ واضح رہے ایوبی آئین میں بالائی سطح پر پالیسی و فیصلہ سازی اور عملدرآمد کے نظام میں عوام کے براہ راست منتخب نمائندوں کی شرکت یکسر نہیں تھی،پورے ایوبی دور میں حکومت وسیاست پر مغربی پاکستان کے غلبے اور ’’ون یونٹ کی آڑ میں پنجاب کے غلبے کا تاثر (اور عمل بھی) مسلسل بڑھتے جانے سے عوامی بے چینی میں اضافہ ہوتارہا۔ مرضی کی ترقی اور بنیادی جمہوری نظام مطلوب درجے کا سیاسی استحکام پیدا کر سکا نہ ہر صوبے و علاقے میں ’’ایک قوم‘‘ (پاکستانی) کی سوچ جس کا لامحالہ نتیجہ ملکی سب کلچرل یونٹ (صوبے) خود کو مرکزی دھارے سے دور الگ ’’قوم‘‘ کے مہلک احساس میں مبتلا ہونے لگے، آج پاکستان کے سیاسی ابلاغ میں صوبوں کیلئے قوم، صوبائی سیاسی جماعتوں کے لئے ’’قوم پرست جماعتیں‘‘ اور مملکت کی ’’چار اقوام‘‘ جیسے الفاظ یا اصطلاحیں باآسانی قابل ہضم ہیں۔ پاکستان کے بیرونی دشمن ہماری اس بڑی داخلی قباحت کابڑا ناجائز فائدہ اٹھا کر سخت داخلی عدم استحکام میں مبتلا رکھنے میں مملکت پاکستان کو ناقابل تلافی نقصانات پہنچاتے رہے اور یہ سلسلہ ہنوز اپنی انتہائی شکل میں جاری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ایوب رجیم کے اختتام پر حکومت DAC-(ڈیمو کریٹک ایکشن کمیٹی) کے جو مذاکرات اسیر شیخ مجیب الرحمٰن کی رہائی اور جاری ڈائیلاگ کے باوجود بھٹو اور بھاشانی کے بائیکاٹ کے باعث مارشل لا لگنے کا سبب بن گئے، اس سے پاکستان مکمل سرزمین بے آئین ہوگیا، اس گھمبیر صورتحال میں شفاف الیکشن ہی بحالی جمہوریت اور داخلی خلفشار کے خاتمے کی واحد راہ بن گیا تھا۔ نئی نسل نوٹ اور ذہن نشین کرلے کہ یحییٰ کے دور میں شفاف الیکشن ہی ملک کو درپیش انتہائی تشویشناک سیاسی و آئینی بحران سے نکالنے کا واحد حل تھا جس پر تمام ملکی جماعتیں متفق تھیں، اسی پریشر اور کوئی دوسرا راستہ نہ ہونے کی صورت میں جو الیکشن 1970ایٹ لارج آزادانہ اور منصفانہ تو کرائے لیکن اس کے نتائج کو یحییٰ خان اور مغربی پاکستانی اکثریتی لیڈر بھٹوتسلیم نہ کرنے پر پہلے ناراض بنگالی بھائیوں کا ملک پر چھوٹے ہی صوبے (بالحاظ آبادی) کے غلبے کا تاثر حقیقت کے طور پر ثابت ہوگیا۔ یحییٰ کے ڈھاکہ میں اسمبلی اجلاس کے اعلان کے باوجود اس سے آخری انکار اور مجیب کے مسلسل اصرار پر پاکستان دو لخت اور سقوط ڈھاکہ کی ملک شکنی کی تباہ کن راہ نکلی۔پاکستانی سیاسی تاریخ کے اس تناظر میں آج 53 سال بعد باقیماندہ پاکستان پھر داخلی سیاسی عدم استحکام کی اس کیفیت میں آگیا ہے، جس سے ملکی قومی معیشت زمین سے لگ گئی اور آج پھر پاکستان سرزمین بے آئین دکھائی دے رہا ہے۔ وائے بدنصیبی آغاز سے تادم آئین ۔73اپنے مکمل اور اصلی اطلاق سے محروم رہا، جس سے ملک میں پھر عشرے عشرے کے ماورا ئےآئین ادوار کی راہ نکلی۔ ملک بدترین کرپشن، سماجی نانصافی، ریاستی اداروں کی مداخلت اور نااہلی میں مبتلا اور عوام عملاً سیاسی عمل سے کٹ گئے، حتیٰ کہ 26 ماہ قبل جو ملک کو سیاسی انتشار میں مبتلا کرکے تباہ کن سیاسی کھلواڑ سے رجیم تبدیلی کرکے بھی بڑا آئینی و سیاسی و معاشی و انتظامی و عدالتی بحران پیدا کیا گیا، اسے ختم کرنے کا واحد حل بھی سب ہی نے الیکشن بمطابق آئین کو ہی قرار دیا، جسے ممکن حد تک ٹالا گیا، اور پھر الیکشن کمیشن 16ماہی اور نگران حکومت کے غیر آئینی ہتھکنڈوں نے اپنے رویوں سے جس طرح الیکشن 8 فروری کے نتائج کو تبدیل کرکے سیاسی حکومتی کھلواڑ مچایا ہے اس نے عوام کی سنبھالی صورت سے بحران ختم کرنے کا یقینی راستہ تو نکال دیا تھا لیکن فارم 47 ساختہ حکومت میں جو کچھ ہو رہا ہے اور جو جھوٹی امیدیں عوام کو دی جا رہی ہیں وہ صحرا میں ثابت شدہ فریب نظر ہے۔ جیسے بدترین اور سخت قابل گرفت گندم اسکینڈل اور سولر انرجی پر بیرونی پہرے بٹھانے کی سرکاری قبولیت کی خبریں۔

ملک و قوم سخت بیمار ہیں، مچھلی علاج بالغذا ہے، مچھلی سمندر (اطلاق آئین) میں ہے لیکن تلاش صحرا میں کی جا رہی ہے جہاں شدید تپش میں دور بنتی لہریں پانی کا شبہ پیداکرتی ہیں، حکومت اس کے پیچھے جاتی گمراہ ہو رہی ہے۔ یقین جانیے الیکشن فروری ملک کو بحران سے نکالنے کی کوئی راہ نہیں۔ یہ ہی وہ عوامی سمندر ہے جہاں سے مطلوب غذا ملے گی۔ وما علیناالالبلاغ۔