مفاہمت کی کوشش؟

May 29, 2024

وفاقی اور خیبر پختونخوا حکومت کے درمیان دس سالہ سرد مہری ختم ہوتی دکھائی دینے لگی ہے۔وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور ، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی اور وزیر توانائی اویس لغاری کے مابین بجلی کے واجبات کی وصولی، لوڈ شیڈنگ اور لائن لاسز میں کمی کے حوالے سے طویل گفت و شنید کے بعد پیدا ہونے والے اتفاق رائے کی روشنی میں جلد معاہدہ طے پانے کی امید ظاہر کی جارہی ہے۔متذکرہ وزرا نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا ہے کہ اس معاہدے سے صوبے میں بجلی کی چوری روکنے میں مدد ملے گی۔یہ ایک حوصلہ افزا صورتحال ہے تاہم ، صرف ایک صوبے کا مسئلہ نہیں ،پورے ملک میں روزانہ لاکھوں یونٹ بجلی لائن لاسز یا مراعات یافتہ طبقے کو نوازنے کی نذر ہورہی ہے جس کابوجھ ایک قلیل تنخواہ دار اور عام آدمی پر پڑ رہا ہے جو بل ادا کرنے کیلئےاپنا اور کنبے کا پیٹ کاٹنے پر مجبور ہے۔ لہٰذا بجلی چوری روکنے کی مہم پورے ملک میں چلائی جانی چاہئے۔پریس کانفرنس سے خطاب میں وزیراعلیٰ علی امین گنڈا پور کا کہنا تھا کہ لوڈ شیڈنگ کی وجہ سے صوبے میں امن و امان کا مسئلہ درپیش ہے ۔ہم نے باہمی مشاورت سے درپیش مسائل حل کرنے کا فارمولا تیار کیا ہے اور تمام معاملات مل کر طے کئے ہیں ، جس سے عوام کو ریلیف ملے گا ۔وزیر توانائی اویس لغاری نے یہ کہتے ہوئے کہ خیبر پختونخوا میں اربوں روپے کی بجلی چوری ہوتی ہے ، اگر صوبائی حکومت اس پر قابو پالے تو 24گھنٹے بجلی دینے کو تیار ہیں۔ وفاق اور خیبر پختونخوا حکومت کے درمیان مختلف شکلوں میں حالیہ تنازعہ نئی حکومت کے قیام کے فوراً بعد شروع ہوگیا تھا، جن میں صوبوں پر ٹیکس بڑھانے کی تجویز، صوبے کا چیف سیکرٹری تبدیل نہ کرنے اور مالی ادائیگیوں میں تاخیرپر وزیر اعلیٰ گنڈا پور نے شدید احتجاج کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر صوبے کے مسائل حل نہ کیے تو ہم وفاق کے ساتھ تعاون جاری نہیں رکھیں گے،تاہم وزیر اعظم شہباز شریف نے ان کے تحفظات ختم کرنے اور مسائل ہر ممکن حد تک حل کرنے کی یقین دہانی کرائی تھی۔یہ ملاقات وفاق اور صوبے کے درمیان حوصلہ افزا دکھائی دی تاہم آگے چل کر نئے تنازعات نے سر اٹھایا اور ابھی چند روز قبل وزیراعلیٰ اور نئے گورنر کے درمیان لفظی جنگ نے جنم لیا۔تاہم خیبر پختونخواسے تعلق رکھنے والے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ وزیراعلیٰ کا تیز وتند لہجہ کارکنوں کو مطمئن کرنے کیلئے ہے، ان کے مطابق علی امین گنڈا پور پر پارٹی کا دبائو بھی ہے۔ملکی تاریخ میں وفاق اور صوبوں کے مابین وقتاً فوقتاً پیدا ہونے والے سیاسی اختلافات اور عدم برداشت کے کلچر نے ملک و قوم پر گہرے نقوش چھوڑے ہیں۔توانائی، وسائل کی تقسیم، تعلیم اور صحت جیسے پیدا شدہ مسائل میں اس کا بڑا حصہ ہے۔بد قسمتی سے کالا باغ ڈیم سیاست کی نذر ہوگیا ۔ جبکہ واپڈا کی فزیبلٹی رپورٹوں کے مطابق ہر سال سیلاب آنے سے ملک میں جو تباہی آتی ہے ، کالا باغ ڈیم کی بدولت اس کی شدت میں واضح کمی کے علاوہ توانائی اور آبپاشی کے مسائل سے بخوبی نمٹا جاسکتا ہے ۔پاکستان میں تعمیر ہونے والا آخری ڈیم تربیلا تھا ،جسے بنے ہوئے نصف صدی گزر گئی۔ اس دوران بھارت نے چھوٹے بڑے سیکڑوں ڈیم تعمیر کرلئےلیکن وطن عزیز میں پانی اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قلت نے زرعی اور صنعتی شعبے کو تباہی کے کنارے لاکھڑا کیا۔ عالمی ماہرین نے باقاعدہ سروے اور تحقیق کے بعد کالا باغ ڈیم کو دنیا کا موزوں ترین اور پاکستان کے چاروںصوبوں کیلئے فائدہ مند قرار دیا تھا۔خیبر پختونخوا اور وفاق کے درمیان برف پگھلنے کا سلسلہ ثمرآور ثابت ہونا چاہئے ۔ بجلی اور اس کے ترسیلی نظام میں بہتری بے شک اپنی جگہ ضروری ہے ، اس کے ساتھ ساتھ اس کا سستا ہونا عام تنخواہ دار آدمی کے مسائل میں کمی لاسکتا ہے۔