ماہ جون اور ملکی حالات

June 04, 2024

ملکی صورتحال کے حوالے سے جون کارواں مہینہ نہایت اہم ہے۔ اسی ماہ آئندہ مالی سال کا بجٹ آرہا ہےجبکہ اعلیٰ عدلیہ میں زیر سماعت بعض اہم کیسز کے فیصلے آنے کی بھی امید ہے اور بعض کیسز میں پیش رفت ہوسکتی ہے۔بجٹ کے بعد آئی ایم ایف کی طرف سے ردعمل اور شرائط میں مزید سختی پربھی زور دینے اور ’’ ڈومور‘‘کہنے کا بھی امکان ہے۔ اس تمام صورتحال کے اثرات جون کے بعد نمایاں ہونا شروع ہوسکتے ہیں۔ بجٹ میں نئے ٹیکسز لگانے کی وجہ سے مہنگائی میں مزید اضافے کا امکان ہے۔ ماہ جولائی میںبارشوں اور گلیشیرز کے پگھلنے کی وجہ سے خطرناک سیلابوں کا خدشہ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ اگر موجودہ سیاسی صورتحال جاری رہتی ہے تو جون کے آخری ہفتے سے حکومت کے خلاف احتجاجی تحریکوں میں تیزی آسکتی ہے جن میں دیگر باتوں کے علاوہ مہنگائی کو خصوصی طور پر بیانیہ میں شامل کیا جاسکتا ہے۔ الغرض جون کے بعد حکومت کی مشکلات میں بتدریج اضافہ ہوتا نظر آرہا ہے۔ سال2025میں حالات کی تبدیلی نظر آرہی ہے جو معنی خیز ہوسکتی ہے۔ملکی سیاسی اور معاشی صورتحال پر نظر ڈالیں تویہ واضح نظر آتا ہے کہSIFCکے ذریعے ملکی معیشت بہتری کی طرف بڑھ رہی ہے لیکن بدقسمتی سے کچھ لوگ اپنے مفادات کے حصول اور انا کی تسکین ملکی مفادات پر مقدم سمجھتے ہیں۔ ایک طرف محبان وطن ملکی معیشت اور ترقی کیلئے دن رات کوشاں ہیں تو دوسری طرف کچھ لوگ ان کوششوں کو سبوتاژ کرنے کیلئے سرگرداں ہیں۔ اسے وطن کو ترقی کی طرف لے جانے والوں اور ملک میں فساد پھیلانے اور بے یقینی کی فضا پیدا کرنے والوں کے درمیان معرکہ آرائی کہنا بے جا نہ ہوگا۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ بات بھی نہایت اہم اور قابل توجہ ہے کہ اس سے پہلے کہ خدانخواستہ کوئی بڑا نقصان ہوجائے اب اس گھڑی اہم فیصلہ کرنا ناگزیرہوتا جارہا ہے۔ ملک کو درپیش معاشی مشکلات کا خاتمہ ناممکن بالکل نہیں لیکن اس کیلئے ملک میں انار کی پیدا کرکے بہتری کی کوششوں کو برباد کرنے والوں کامحاسبہ نہایت ضروری ہے۔ایک مخصوص جماعت کا وطیرہ ہے کہ عدلیہ کی طرف سے جو فیصلہ ان کی خواہش کے مطابق آجائے تو وہ اس فیصلے کو مبنی برانصاف اور حق وسچ کی فتح قرار دیتی ہے لیکن اگر کوئی فیصلہ اس کی مرضی کے خلاف آجائے تو اس کو انصاف کا قتل اور نجانے کیا کیا کہتی ہے ۔اگرچہ بے شمار فیصلے اس کے حق میں یعنی اس کی مرضی وخواہش کے مطابق آئے ہیں لیکن پھربھی اس نے ایک کیس میں چیف جسٹس آف پاکستان پر عدم اعتمادکی خبریں پھیلائیں پھر اچانک خیبر پختونخوا کے ایڈووکیٹ جنرل شاہ فیصل اتمان خیل کا تردیدی بیان آیا جس میں انہوں نے ان خبروں کی تردید کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان پربھرپور اعتماد کا اظہار کیا اور کہا کہ اس بارے میں نہ تو کوئی اجلاس ہوا ہے نہ اس موضوع پرکوئی بات چیت یا غور کیا گیا۔ اگرچہ ترجمان پی ٹی آئی کچھ اور کہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کی طرف سے آنیوالے فیصلے قانون کے مطابق ہوتے ہیں لیکن بعض فیصلوں کے مابعد اثرات سے ظاہر ہوجاتا ہے کہ کہیں کوئی بشری غلطی ضرور ہوئی ہے امید نہیں بلکہ یقین ہے کہ عدلیہ آئندہ بھی آئین وقانون کے مطابق فیصلے کرے گی ۔یہ بات سمجھ سے بالا ہےکہ بعض مفاد پرستوں کے ہربیان اور تقریر میں اسٹیبلشمنٹ ہی نشانہ کیوں ہوتی ہے۔ اور ان کی خواہشات کی تکمیل نہ ہونے کا ذمہ دار وہ اعلیٰ فوجی قیادت کوکیوں سمجھتے ہیں۔ اندازہ کریں کہ جب ملک کے سپہ سالار کو قوم کا باپ کہا تھا اور بعد میں جب آئینی طریقہ سے ان کے ہاتھ سے اقتدار چلاگیا تو اسی سپہ سالار کو نامناسب القابات کے ساتھ بدتمیزی سے یادکرنے لگے۔ فوجی اعلیٰ قیادت پر لفظی حملوں کے بعد ملاقات کیلئے ترلے کرنے لگے اور جب بات نہ بنی توان لوگوں نے نوجوانوں کو اکساکر9مئی کو وہ کچھ کیا جو پہلے کسی جماعت نے سوچا بھی نہ تھا ابھی وہ معاملہ ختم نہیں ہوا اور نہ ہی ختم ہوگا۔9مئی کے واقعات میں ملوث ملک دشمن عناصر کو کسی صورت نہ معافی مل سکتی ہے نہ ہی کوئی رعایت۔ایسا بھلا کون ہے جو ان واقعات میں ملوث عناصر کومعافی یا رعایت کاکوئی بھی جواز بناکر سوچ بھی سکے ۔لیکن قوم کو بیانات، کا نفرنسز اور پریس بریفنگز نہیں عملی کارروائی چاہیے۔ شہدا کے اہل خانہ سراپا سوال ہیں کہ کیا انکے پیاروں نے اس لئے ملک کی خاطر اپنے جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے کہ چند شرپسند عناصر باقاعدہ منصوبہ بندی سے انکی یادگاروں کی اس طرح بے حرمتی کریں اور وہ پھر بھی قانون کی گرفت سے آزاد ہوں اور بجائے اس کے کہ انکو ، انکے ماسٹر مائنڈ اور سہولت کاروں کو عبرتناک سزائیں ملتیں وہ دندناتے پھریں اور عہدوں پر فائز ہوں اور ان کو عبرتناک انجام تک پہنچانے کے ذمہ دار ادارے خاموش تماشائی بنے رہیں۔چونکہ9مئی کے واقعات میںملوث عناصر،جن کے ثبوت ، وڈیوز اور آڈیوز موجود ہیں ، کے کیس قانون کے گھن چکر، نامکمل چالانوں، حکومت اور متعلقین کی عدم توجہ یاسست روی کی وجہ سے تاخیر اور تاریخوں کےجال میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بے گناہ قرار دینے والے لوگ تو گھروں کو جاچکے ہیں لیکن گناہ گاروں کاتاحال تعین ہی نہیں ہوسکا ۔اگر ان واقعات میںملوث عناصر ہرچیز سے بالاتر ہیں اور تاخیر مجبوری ہے تو پھر سب کو رہا کردیا جائے ان کے مقدمات ختم کئے جائیں اور9مئی سے بدتر واقعات کا انتظار کیا جائے۔ آج بھی کچھ لوگ اعلیٰ عسکری قیادت کی کھلے عام توہین کررہے ہیں اور عوام اور فوج کے درمیان دراڑیں پیدا کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں۔ معلوم نہیں یہ لوگ کن بیرونی قوتوں کے آلہ کار ہیں جو ریاست پاکستان کی بنیادیں کمزور کرنے میں لگے ہوئے ہیں لیکن سوال یہ بھی ہے کہ آخرریاست کہاں ہے اور وہ کب اپنا کردار ادا کرے گی؟۔