امریکہ کا گہرائی سے جائزہ لیجئے

June 05, 2024

(گزشتہ سے پیوستہ)

گزشتہ کالم میں عرض کیا تھا کہ امریکہ میں پاکستان کے حوالے سے ایک خاص سوچ بہت مضبوط ہو گئی ہے کہ پاکستان نے امریکہ کا افغانستان میں ساتھ نہیں دیا اور اسی وجہ سے افغان طالبان دوبارہ بر سر اقتدار آ گئے، اسکے با وجود پاکستان کی اہمیت کیونکہ مسلمہ ہے، اسلئے ہی لورل ملر نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ ’’پاکستان افغانستان سے اگلا دروازہ ہے جو اس وقت دہشت گردوں کی پناہ گاہ ہے لہٰذا میرے خیال میں پاکستان کے ساتھ اس قسم کے تعلقات رکھنے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں جو امریکہ کو خطے میں اپنے مفادات کا تحفظ کرنے کے قابل بنائیں‘‘۔پاکستان میں المیہ یہ ہے کہ ہمارے پالیسی ساز افغانستان کے حالات کو بس اس نظر سے دیکھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں کہ جو صورتحال سوویت یونین کے افغانستان میں داخلے کے بعدسے پیدا ہوئی اور ہم نے افغان طالبان کی دوبارہ برسر اقتدار آنے میں’’مدد ‘‘کی ہے اسلئے ان کو ہمارے لئے پریشان کن مسائل میں ہمارا ساتھ دینا چاہئے حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں کوئی بھی بر سر اقتدار آ جائے اس کی پاکستان کے حوالے سے ایک سی پالیسی رہتی ہے ۔ ہم ماضی میں بھی افغان طالبان کی حکومت کو تسلیم اور ان کو مدد فراہم کرنے والے تھے مگر اس وقت بھی جب پاکستان نے ڈیورنڈ لائن پر معاملات کرنا چاہے تو ہمیں ٹکا سا جواب ہی ملا تھا اور اسی پالیسی کا تسلسل دیکھنے میں آیا تھا جو ظاہر شاہ کے زمانے سے پاکستان کے حوالے سے بنائی گئی تھی اور اس پالیسی کا تسلسل ایک تاریخی تصور میں ہے جس کا اعادہ در حقیقت وہاں پر سب کرتے رہے ہیں ۔ ایک خیال ہے کہ پاکستان سوویت یونین کے افغانستان میں داخلے کے وقت اس صورت حال میں ملوث ہو گیا اس لئے آج تک پھنسا ہوا ہے ۔حالاں کہ حقیقت یہ ہے کہ ہمیں کسی دور میں بھی کابل کی جانب سے ٹھنڈی ہوا کے جھونکے ميسر نہیں آئے تھے اور قیام پاکستان کے فوری بعد ہی افغانستان کی جانب سے باقاعدہ سازشوں کا آغاز کردیا گیا تھا اور یہ سازش پاکستان کی سر زمین سے اس وقت بھی بندر گاہ کو حاصل کرنے کی غرض سے تھی ۔ اس وقت کے پاکستانی دار الحکومت کراچی میں متعین امریکی ناظم الامور چارلس ڈبلیو لیوس نے یکم مارچ انیس سو اڑتالیس کو امریکی وزیر خارجہ مارشل کے نام ارسال کردہ ایک مراسلے میں قائد اعظم سے اپنی ہونے والی ملاقات کے حوالے سے بتایا کہ قائد اعظم نے امریکی ناظم الامور چارلس ڈبلیو لیوس کو بتایا کہ’’قلات اور گلگت میں سوویت ایجنٹوں کی سرگرمیوں کے بارے میں ان کے پاس یقینی اطلاعات موجود ہیں ۔ انہوں نے اس بات سے بھی خبر دار کیا سوویت ایجنٹ افغانستان کو قلات کے علاقے میں ایک بندر گاہ سمیت بہت سا علاقہ ہتھیانے پر اکسا رہے ہیں‘‘اور قائد اعظم کی یہ بات انیس سو پچاس میں سچ ثابت ہو گئی جب افغان فوج نے توپ خانے کی مدد سے پاکستانی گاؤں دوبندی پر قبضہ کرلیا اور پھر آگے بڑھتے ہوئے چمن کوئٹہ ریلوے لنک پر قبضہ کرلیا جس پر پاک فوج نے جوابی کارروائی کرتے ہوئے دشمن کو واپس بین الاقوامی سرحد ڈیورنڈ لائن تک دھکیل دیا اور یہ معاملہ یہیںپر ختم نہ ہوا بلکہ ستمبر انیس سو ساٹھ سے ستمبر انیس سو اکسٹھ تک افغانستان کی طرف سے باقاعدہ فوجی اور غیر فوجی افراد کی مدد سے جارحیت کی گئی جس کو باجوڑ کمپین کے نام سے تاریخ میں یاد کیا جاتا ہے، اس دوران افغانستان کے اندر جا کر پاک فضائیہ تک کو استعمال کرنا پڑا اور پھر امریکی صدر جان ایف کینیڈی اور شاہ ایران رضا پہلوی کو حالات کو بہتر کرنے کیلئے خصوصی کردار ادا کرنا پڑا ۔ افغانستان کا ذکر اسلئے کیا ہے کہ امریکہ اب بھی ہمیں افغانستان کی حالت سے منسلک کرکے دیکھ رہا ہے ۔ پاکستان کو افغانستان میں اپنے معاملات بہتر کرنے کیلئے صرف اپنے زور بازو پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ دیگر مسلمان ممالک خاص طور پر ترکیہ کو اس میں اعتماد میں لینا چاہئے تاکہ کوئی تو افغان طالبان کو سمجھانے میں کامیاب ہو سکے ۔ ترک سفیر محمت اور لاہور میں تعینات ترک قونصل جنرل درمش باش توخ بزنس اور دیگر معاملات میں بہت متحرک ہیں اگر ایسے سفارت کاروں کو اپنی بات سمجھائی جائے تو وہ اپنے ملک کو ہماری بات سمجھا سکتے ہیں اور پاک ترک مشترکہ کوششیں افغانستان کے امور میں کامیاب ہو سکتی ہیں کیوں کہ پاکستان کو اس وقت یہ سمجھ لینا چاہئے کہ امریکی پالیسی میں کسی وقت بھی بڑی تبدیلی کی گنجائش بن سکتی ہے اور انکے سفارت کار بھی اس مقصد کیلئے مزید متحرک ہو رہے ہیں ۔ ضروری نہیں کہ امریکہ کی ہر پالیسی ہمارے فوری یا طویل المدتی مفادات کے خلاف ہی ہو اور ہمیں اسکی کوشش بھی کرنی چاہئے کہ ایسا نہ ہو کیوں کہ اگر کوشش کی جائے تو توازن کی پالیسی کا حصول ممکن ہے ۔ اسی طرح افغان طالبان کو بھی پاکستان کی بات سننی اور اسکے مسائل سمجھ کرانہیں حل کرنا چاہئے ورنہ دنیا تا دیر لا تعلق نہیں بیٹھے گی۔