اور مودی ہار گئے!

June 07, 2024

بھارت میں عام انتخابات کےنتائج سے کئی غیر انسانی اور غیر آئینی اقدامات کرنیوالے بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کوشکست ہوئی ہے۔ بی جے پی کیلئے حیران کن بات یہ سامنے آئی کہ مودی کی حمایت یافتہ بھارت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کی دشمن آر ایس ایس بھی کچھ نہ کر سکی بلکہ وہ تو بی جے پی سے ان انتخابات میں لاتعلق رہی۔ آر ایس ایس نامی دہشت گرد تنظیم مودی کی بنیادی تنظیم ہے جس کے وہ مستقل رکن ہیں۔ گزشتہ انتخابات میں مودی اور بی جے پی کی کامیابی میں ان بدمعاشوں کا اہم کردار تھا۔ موجودہ انتخابات میں بی جے پی سے اس تنظیم کی لاتعلقی پر پھر کسی موقع پربات کریں گے۔ فی الحال یہ دیکھنا ہے کہ آر ایس ایس کی لاتعلقی سے بھی اہم وہ کونسی ممکنہ بلکہ واضح وجوہات تھیں جنکی وجہ سے بی جے پی کو ان حلقوں میں بھی شکست ہوئی جہاں اسکو کامیابی کی قوی امید تھی۔ بھارتی انتخابی نتائج نے ثابت کیا کہ وہاں کے عوام کی بھاری اکثریت مودی کی متعصبانہ، مذہبی منافرت اور ظلم پر مبنی پالیسیوں سے نہ صرف متفق نہیں بلکہ وہ ایسی غیر انسانی پالیسیوں سے سخت بیزار تھی۔ مودی حکومت میں مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کےساتھ تو جو ظلم روا رکھا گیا وہ دنیا کو نظر آ رہا تھا لیکن اسکے ساتھ ساتھ ہندو مذہب سے ہی تعلق رکھنے والے دلتوں کا بھی جینا حرام کر دیا گیا تھا۔ عوام نے یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے بی جے پی کے ہندو کارڈ کو مسترد کر دیا۔ بی جے پی ایودھیا سے بھی ہار گئی جہاں جنوری میں رام مندر کا افتتاح کیا گیا تھا۔ مودی پالیسیوں سےنفرت کا اظہار کیرالہ میں بھی کیا گیا جہاں کانگریس کےرہنما راہول گاندھی جیت گئے، اسی طرح رائے بریلی میں بھی بی جے پی کو شکست دے کر کانگریس جیت گئی۔ دوسری طرف چند ایسے امید وار بھی جیت گئے جن کو مودی حکومت میں جیلوں میں ڈالا گیا۔ مثال کے طور پر آسام کی ریبروگڑھ جیل میں پابند سلاسل ’’وارث پنجاب دے‘‘ تنظیم کے سربراہ کلبیر سنگھ زیرہ، اسیر کشمیری رہنما سابق ایم ایل اے انجینئر عبدالرشید بی ڈی پی کے صدر سجاد غنی اور سابق وزیر اعلیٰ مقبوضہ کشمیر عمر عبداللہ کو شکست دے کر جیت گئے۔ فرید کوٹ سےسابق بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل میں ملوث سکھ کے بیٹے سر بجیت سنگھ خالصہ نے تین جماعتوں کانگریس، عام آدمی پارٹی اور اکالی دل کے امیدواروں کو شکست دے کر یہ نشست جیت لی۔ خود مودی کو اپنے آبائی حلقے وارنسی میں بہت معمولی اکثریت سے کامیابی ملی۔ عوام نے ’’ایگزٹ پولز‘‘ کے اندازے اور مودی کے 400پار کے دعوے کو جھوٹا ثابت کر دیا۔ حیدر آباددکن میں مسجد اور مسلمانوں سے نفرت کرنیوالی جماعت بی جے پی کی انتہا پسند امیدوار مادھوری لٹھا جس نے نفرت کے اظہار کے طور پر مسجد کی طرف علامتی تیر چلایا تھا وہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما اسد الدین اویسی کے مقابلے میں بدترین شکست سے دوچار ہوئی۔ اس حلقے میں اسد الدین اویسی نے مادھوری کو تین لاکھ سے زائد ووٹوں سے شکست دی۔

بی جے پی کی متعصبانہ اور ظلم وجبر کی پالیسیوں، مقبوضہ کشمیر میں مسلمانوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے کالے قوانین، آئینی طور پر قائم ریاست کی حیثیت ختم کرنے اور کشمیری مسلمانوں پرظلم وبربریت کی انتہا کرکے وہاں بھی ہندوتوا کو فروغ دینے کے ہر غیر انسانی اور غیر آئینی اقدامات کو بھارت کی طرح کشمیریوں نے بھی نہ صرف بری طرح مسترد کیا بلکہ ایسے تمام اقدامات کو بی جے پی کے منہ پر مار دیا۔ مودی حکومت کے غیر منطقی اور نام نہاد دعوؤں کے برعکس بھارت میں ماضی کے مقابلے میں مہنگائی عروج پر رہی، بیروز گاری میں بے پناہ اضافہ ہوا لیکن مودی حکومت نے عوام کے ان بنیادی مسائل پر توجہ دینے کے بجائے اپنی توجہ پڑوسیوں سے بگاڑ، وہاں دہشت گردی پھیلانے، پڑوسی ممالک بالخصوص پاکستان کو کمزور کرنے کیلئے یہاں ریاست مخالف عناصر کو فنڈنگ کرنے اور دہشت گردوں کی اعانت کرنے پر مرکوز رکھی۔ ان تمام وجوہات کی وجہ سے بھارتی حکومت کے جھوٹے دعوؤں اور غیر منطقی اعداد و شمار کے برعکس حقیقی طور پر بھارتی معیشت کمزور ہوئی۔ فلسطین میں مسلمانوں پر اسرائیلی مظالم کی حمایت کو عام بھارتی نے دیگر غیر مسلم ممالک کے عوام کی طرح ناپسند بلکہ مسترد کیا۔ الغرض بی جے پی کو بھارتی عوام نےانسانیت دشمن پالیسیوں، مہنگائی، اور بیروزگاری میں انتہائی اضافے کی وجہ سے مسترد کردیا۔

بھارتی انتخابات کے نتائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ مودی کے 400پار نعرے کے بجائے بی جے پی ایک کمزور پوزیشن پر آ کر کھڑی ہو گئی ہے۔ یہ نتائج مودی کی دس سالہ حکمرانی کا خلاصہ اور نتیجہ ہیں۔ اگرچہ بی جے پی کی حکومت بن سکتی ہے لیکن یہ ایک کمزور حکومت ہو گی کیونکہ اب کی بار بی جے پی اکیلی حکومت بنانے کی پوزیشن میں نہیں۔ بطور امیدوار وزیر اعظم نریندر مودی ہی ہونگے لیکن اس سے قطع نظر کہ وزیر اعظم مودی ہویا کوئی اور، بہرصورت اتحادی حکومت میں بی جے پی کو شدید مشکلات کا سامنا رہے گا، بی جے پی کیلئے اپنی پالیسیاں برقرار رکھنا اور اپنے وعدے پورے کرنا بہت مشکل ہو گا۔ اتحادی حکومت میں بی جے پی کیلئے ون نیشن ون الیکشن اور اقلیتوں کے وراثت قوانین کے خاتمے، ان میں شادی کے قوانین میں بنیادی تبدیلیاں اور یا ان کا مکمل خاتمہ اور یکساں سول کوڈ کے نفاذ کے وعدوں کو پورا کرنا ممکن نہیں ہو گا۔ اسکے علاوہ بی جے پی کی سابقہ حکومت میں اہم کرتا دھرتا امیت شاہ کو بھی اہم حکومتی امور میں سابقہ حیثیت ومقام حاصل نہیں ہو گا۔ مختصراً یہ کہ شکست ہے تو بی جے پی کی لیکن اس میں مرکزی کردار نریندر مودی کا ہی ہے۔