انجام

June 11, 2024

موجودہ حکومت کی طرح بانی پی ٹی آئی یہ تاثر دیتے رہے کہ وہ اور اسٹیبلشمنٹ ایک صفحے پرہیں۔ وقت گزرتا رہا۔ اس دوران آرمی چیف کو قوم کا باپ بھی کہاگیا۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ وہ صفحہ پھٹ گیا یا کسی نے پھاڑ دیااور وہ ’’ان‘‘ کے خلاف کھڑے ہوگئے۔ اختلافات بڑھتے رہے اور آخرکار وہ اقتدار سے محروم ہوگئے ۔اس کے بعد بانی پی ٹی آئی کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ اپنے اقتدار کے خاتمے کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں۔کسی کے مشورے پر وہ سائفر سے ’’ کھیلنے‘‘ لگے اور امریکہ کو ذمہ دار ٹھہرانا شروع کر دیا۔ کچھ ہی وقت گزرنے کے بعد جب ان کو غلطی کا احساس ہوا تو انہوںنے ذمہ دار کو تبدیل کرتے ہوئے سارا مدعا اس وقت کے آرمی چیف اور اسٹیبلشمنٹ پر ڈالتے ہوئے ’’قوم کے باپ‘‘ اور بعض دیگر عسکری قائدین پر بے بنیاد الزامات اورانہیں عجیب وغریب بے تکے اور بیہودہ القابات سے مخاطب کرنا شروع کردیا اور آئینی طور پر اقتدار کے خاتمے کو انہوں نے سازش قرار دیا۔ اس ’’ مبینہ سازش‘‘ کے ذمہ داران تبدیل بھی ہوتے گئے اوران میں اضافہ بھی کیا جاتا رہا حتیٰ کہ محسن نقوی کوبھی ذمہ دار قرار دیا گیا۔ اس کے بعد جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔میاں نواز شریف کی اقتدار سے محرومی سے پہلے وہ بھی ’’ ان‘‘ کے ساتھ ایک صفحے پرتھےپھر اس وقت کے آرمی چیف جنرل پرویز مشرف مرحوم سے اختلافات پر’’ صفحہ ‘‘ الٹ گیا اور وہ معزول ہوگئے۔ اس کے کچھ عرصہ بعد جب وہ دوبارہ برسر اقتدار آئے توانجام کار پھر وہی ہوا اور وہ پوچھتے پھر رہے تھے کہ ان کو کیوں نکالا۔یہی کچھ ذوالفقار علی بھٹوکےساتھ بھی ہوا۔ یہ ہماری تاریخ کے وہ ابواب ہیں جن کو نہ نظر انداز کیا جاسکتا ہے نہ جھٹلایا جاسکتا ہے۔ موجودہ حکومت بھی ہوا کے بلبلے پر سوار ہے یہ کوئی نہیں جانتا کہ یہ بلبلہ کب پھٹ جائے کیونکہ یہ بھی ایک صفحے پر نظر آرہےہیں، اور کوئی بھی وجہ نہ ہو مگرناقابل برداشت مہنگائی ہی بڑی وجہ ہوسکتی ہے۔ اگرچہ مہنگائی اور بیروزگاری میںاضافے کی ابتدا سابقہ پی ٹی آئی دور میں ہوئی تھی لیکن پی ڈی ایم حکومت میں اس اضافے پرمزید اضافہ ہوا۔ابھی اضافوں کا سلسلہ جاری ہے کہ اوپر سے بجٹ بھی آرہا ہے جس میں آئی ایم ایف کے مطالبےشامل ہی نہیں بلکہ سرفہرست ہیں۔ جس سے مہنگائی کے ساتھ ساتھ بے روزگاری میں مزید اضافے کے امکان کو نظر انداز نہیںکیا جاسکتا۔مہنگائی اور بے روز گاری کی وجہ سےچوری، ڈکیتی، اور مزاحمت پرقتل کی وارداتوں کا سلسلہ پورے ملک میں پھیل چکا ہےایسی وارداتوں کی روک تھام کیلئے کوئی موثر کارکردگی نہیں ہے نہ ہی کسی لائحہ عمل پرتوجہ ہے۔دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے گزشتہ روز بھی لکی مروت کے قریب سیکورٹی فورسز کی گاڑی سڑک کنارے نصب دھماکہ خیز مواد کا نشانہ بنی جس میں ایک کیپٹن سمیت سات جوانوں نے جام شہادت نوش کیا ۔ ایک طرفSIFCکے توسط سےآرمی چیف جنرل سید عاصم منیر ملکی معیشت کو سہارا دینے کیلئے دن رات حکومت کے ساتھ مل کر انتھک کوششوں میں مصروف ہیں اور پاک فوج کے جوان اور آفیسرز،پولیس اور دیگر سیکورٹی اداروں کے افسر ان اور جوان ملک وقوم کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کررہے ہیں تو دوسری طرف ملک وقوم کے دشمن پاک فوج اور اس کی اعلیٰ قیادت کے خلاف گھٹیا اور غلیظ مہم چلا رہے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان مذموم سرگرمیوں میں ملوث افراد کوسہولت اور ریلیف پرریلیف دینے کا سلسلہ جاری ہے۔ کوئی بھی یہ نہیں سوچتا کہ اس ساری صورتحال کا انجام کیا ہوگا۔ شاید کسی کوبھی ملک کی فکر نہیں ۔ سب کرتا دھرتا لوگ اپنی دنیا کو سنوارنے اور آخرت کو برباد کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔

دکھ کی بات ہے کہ جوکچھ کرسکتے ہیں اور ان حالات کو درست کرسکتے ہیں وہ بھی ’’ بوجوہ‘‘ کچھ نہیں کررہے ۔خدا جانتا ہے کہ وہ کیا وجوہات ہیں لیکن کچھ بھی ہو قرآن کریم میں سورۃ مزمل کی آیت نمبر9کا ترجمہ ضرور دیکھنا چاہئے۔ اگر اس پر عمل اور یقین کیاجائے توپھر کوئی وجہ باقی نہیں رہ سکتی۔ بعض دوست بیرونی دباؤ، بعض ملکی معاشی صورتحال اور بعض سیاسی عدم استحکام کو کچھ کرنے میں رکاوٹ سمجھتے ہیں اسی لئےمیں نے مذکورہ آیت کاحوالہ دیا ہے۔ کوئی اللہ عظیم وغالب پر بھروسہ توکرکے دیکھے۔ دوسری طرف یہ بھی سوچنا چاہئے کہ اگر اللہ غالب وقادر پر بھروسہ نہ کیا اور راست اقدامات نہ کئے توانجام کیا ہوگا۔ ملک کے ان تمام مسائل کا حل وہی غیر سیاسی قومی حکومت اور صدارتی نظام ہی ہے۔ قانون کی سختی سے، بلا امتیاز ملک دشمنوں کو انجام تک پہنچانا ہی ملک میں استحکام پیدا کرنے کیلئے ضروری ہے۔ ملک میں بعض احباب مذاکرات پر زور دیتے ہیں تو سوال یہ ہے کہ ان کو یہ خیال اس وقت کیوں نہ آیا جب پی ٹی آئی حکومت میں سیاسی مخالفین پر ظلم کے پہاڑ توڑے جارہے تھے اور وہ مذاکرات کی بات کرتے تھے تو بانی پی ٹی آئی بڑے متکبرانہ انداز میں کہتے تھے کہ وہ ان سے مذاکرات تودور کی بات ہاتھ ملانا بھی نہیں چاہتے۔ اس وقت بانی پی ٹی آئی پر مذاکرات کیلئے زور کیوں نہیں دیا گیا۔ اب مذاکرات کی باتیں کیوں ہورہی ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کو رہا کرانا ہی مقصود ہے تو اگر ایساہوا بھی تو سب دیکھیں گے کہ اس کے کیا نتائج نکلیں گے۔ اگرچہ ان کی رہائی کے امکانات بظاہرنظر آرہے کیونکہ بعض لوگ یہ چاہتے ہیں اور اس کا عملی اظہار ہو بھی رہا ہے لیکن دوسری طرف کی معنی خیز خاموشی بھی نظر آرہی ہے۔ اگر سب یہی چاہتے ہیں اور وہ بھی کچھ نہیں کرتے جن کو کرنا چاہیے تو ٹھیک ہے۔ ہماری کسی سے کیا ذاتی عناد،ہم بھی دیکھیں گے۔