عوام دوست بجٹ؟

June 14, 2024

مصدقہ ذرائع سے معلوم ہوا ہے کہ بانی پی ٹی آئی نے نہایت ’’اعلیٰ ظرفی اور حب الوطنی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ اپنےساتھ کی جانے والی زیادیتوں کے باوجود سب کو معاف کرنے کے لئے تیار ہیں۔ بڑی بات ہے جناب کہ انہوں نے بغیر کسی جرم کے قید کاٹنے کے باوجود ’’سب‘‘ کو معاف کرنے کا پیغام بھیجا ہے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی طرف سے مشروط اور دوسری طرف سے غیر مشروط مذاکرات کئے جائیں ۔ وہ بے گناہ ہیں اسی لیے تو ان کو ہر کیس میں ریلیف مل جاتا ہے۔ یہ انصاف کا تقاضا بھی ہے کہ ان کو ریلیف ملے۔ ان کی یہ ’’اعلیٰ ظرفی‘‘ بھی دیکھئے کہ وہ اب اسٹیبلشمنٹ کے بجائے فارم 47والی ناجائز حکومت سے مذاکرات کرنا چاہتے ہیں کہ سیاستدان کا بھلا کیا کام کو وہ اسٹیبلشمنٹ سے مذاکرات کرے۔ انہوں نے تو کبھی چاہا ہے نہ ہی ایسی کوئی خواہش ظاہر کر کے معمولی کوشش بھی نہیں کی کہ اسٹیبلشمنٹ ان سے بات چیت کرے۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مذاکرات کر کے انہوں نے این آر او تھوڑی مانگنا ہے۔ ایسے تو نہیں کہتے تھے کہ ڈٹ کے کھڑا ہے کپتان۔

جہاں تک ان کی بے گناہی کا تعلق ہے تو اس میں بھی کوئی شک نہیں ہےکیونکہ انہوں نے کبھی نہیں کہا ہے کہ نہیں چھوڑونگا، نہ کبھی کسی کو دھمکی دی ، انہوں نے تو کسی خاتون جج کو بھی کبھی دھمکی نہیں دی ہے۔ انہوں نے کبھی ’’کسی‘‘ کو جانور نہیں کہا نہ ہی ’’کسی ‘‘ کو میر جعفر اور میر صادق کہا ، وہ تو کبھی سائفر سے بھی نہیں کھیلے، انہوں نے سوشل میڈیا پر غلاظت بکھیر کر ملک دشمن پیغامات اور ریاستی اداروں اور شہداء لسبیلہ کی توہین کرنے والوں کو ’’بچے‘‘ بھی نہیں کہا، انہوں نے اپنے اوپر حملہ کرنے میں ایک اہم ادارے پر ملوث ہونے کا بے بنیاد الزام بھی نہیں لگایا نہ ہی اس ادارے کی اعلیٰ قیادت پر کبھی کوئی الزام لگایا نہ ہی کسی کو ڈرٹی ہیری کہا ہے نہ ہی9مئی کے شرمناک واقعات میں کوئی کردار ادا کیا ہے۔ بلکہ کہا ہے کہ جنہوں نے یہ واقعات کیے یا کرائے ہیں ان کو پکڑا جائے اور جب ان کو پکڑ اگیا تو بانی پی ٹی آئی نے کبھی نہیں کہا کہ ان لوگوں کے ساتھ ظلم ہو رہا ہے نہ یہ کہا کہ ان کو رہا کیا جائے۔ انہوں نے الیکشن نتائج کو ملی بھگت کہا نہ ہی موجودہ حکومت کو فارم 47والی اور ناجائز کہا ۔ انہوں نے سعودی عرب کی طرف سے ملنے والی نادر و نایاب گھڑی دکاندار کو بیچی نہ ہی باہر ممالک سے ملنےوالے تحائف گھر لے گئے ۔

انہوں نے کبھی بھی سائفر کو اپنے خلاف امریکی سازش قرار دیا نہ ہی بعد میں اسٹیبلشمنٹ کو امریکہ کے ساتھ مل کر ان کی حکومت ’’گرانے‘‘کی ملی بھگت قرار دیا تھا۔ الغرض ہیرےکی انگوٹھی، القادر ٹرسٹ اور عدت میں نکاح کا شور و غوغا سمیت ان پر لگائے گئے تمام الزامات جھوٹ پر مبنی ہیں پھر بھی ان کو پابند سلاسل کر کے کال کوٹھڑی میں بغیر کسی سہولت کے رکھنا ان کیساتھ ظلم اور زیادتی ہے۔ دوسری طرف انکا ظرف اور جذبہ حب الوطنی دیکھئے کہ وہ ’’سب‘‘کو معاف کرنے کیلئے تیار ہیں۔ اگر حب الوطنی نہ ہوتی تو وہ آئی ایم ایف اور دیگر اداروں کو خط لکھ کر پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کر سکتے تھے۔ وہ امریکہ میں لابنگ فرمز کو ہائر کر کے پاکستان کو بدنام کر سکتے تھے۔ حب الوطنی نہ ہوتی تو وہ سی پیک پر کام رکوا سکتے تھے۔ حب الوطنی نہ ہوتی تو سقوط ڈھاکہ سے متعلق اور حمود الرحمان کمیشن رپورٹ کو منفی انداز میں پیش کر کے قوم کو ورغلانے کی کوشش کر سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا کچھ بھی نہیں کیا ہے تو پھر ان کی بے گناہی میں کیا شک ہے اس کے باوجود کہ نہ وہ کوئی ڈیل چاہتے ہیں بہ الفاظ دیگر کوئی این آر او چاہتے ہیں پھربھی وہ ’’سب‘‘ کو عام معافی دینے کو تیار ہیں جو بہت بڑی بات ہے۔

نئے مالی سال 2024-25کا بجٹ قومی اسمبلی میں گزشتہ روز پیش کیا گیا حکومت نے اس بجٹ کو عوام دوست بجٹ کہا ہے لیکن جو بجٹ پیش کیا گیا اس میں ٹیکسوںکی بھر مار سے جاری مہنگائی میںمزید ناقابل برداشت اضافہ ہو جائے گا اس لیے اس کو عوام دوست نہیں بلکہ عوام کا خون چوس بجٹ کہنا زیادہ مناسب ہو گا۔ اخباری کاغذ پر مزید بھاری ٹیکس عائد کیا جا رہا ہے۔ جبکہ پرنٹ میڈیا پہلےہی بحران کا شکار ہے۔ یہ تو مرے کو مارے شاہ مدار والا معاملہ ہے۔ پٹرولیم مصنوعات پر لیوی 60 سے بڑھا کر 80 کیا جارہی ہے جبکہ سیلز ٹیکس اس کے علاوہ ہو گا۔ بجلی اور گیس نرخوں میں مزید اضافے کے ساتھ ساتھ ٹیکسوںکی شرح میں اضافہ اور نئے ٹیکس لگانے کا امکان ہے۔ پراپرٹی کا کاروبار جو پہلے ہی زوال پذیر ہے اب اس پر مزید ٹیکس لگانے سے یہ کاروبار بالکل ہی ٹھپ ہو جائیگا۔ امپورٹ اور ایکسپورٹ کے راستے بھی مسدودکئے جا رہے ہیں۔ نظر یہ آرہا ہے کہ کسی کی خواہش ہے کہ پاکستان میں ہر قسم کا کاروبار اور صنعتیں مکمل بند ہو جائیںاور کاروباری افراد اپنا کاروبار دوسرے ممالک منتقل کر دیں جو ہو بھی رہا ہے۔ کسان کا جو حال بالخصوص پنجاب میں جوہوا وہ سب کے سامنے ہے ۔ عام آدمی ٹیکسوں اور مہنگائی کا مزید بوجھ اٹھانے کی سکت نہیں رکھتا۔ آئی ایم ایف کے اس پیش کردہ بجٹ کے نتائج اچھے نظر نہیں آتے۔ اس صورتحال سے امن و امان کے معاملات مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ خدا ہی رحم کرے۔